EPAPER
Updated: September 27, 2025, 4:13 PM IST | Mehboob Elahi Makhmoor | Mumbai
آج سے ڈھائی سو سال قبل ایک فرانسیسی نے لکڑی کی بائیسکل بنائی تھی۔ اس نے لکڑی کے دو پہیوں کو لکڑی کے مضبوط پتلے اور گول لٹھوں سے کس دیا تھا۔
آج سے ڈھائی سو سال قبل ایک فرانسیسی نے لکڑی کی بائیسکل بنائی تھی۔ اس نے لکڑی کے دو پہیوں کو لکڑی کے مضبوط پتلے اور گول لٹھوں سے کس دیا تھا۔ ان لٹھوں پر بیٹھ کر وہ اگلے پہیے کو پیر سے گھماتا اور بائیسکل چلتی تھی۔ ایک اور فرانسیسی ڈریژن نے اگلے پہیے کو گھمانے کے لئے ایک گول چکّر سے کام لیا۔ اسی چکّر کے استعمال سے پہیہ دائیں بائیں گھومنے لگا۔ ڈریژن سے پہلے کسی اور شخص نے اگلے پہیے کو گھمانے کی کوشش نہ کی تھی۔ بائیسکل چڑھنے والوں کی اس طرح ایک بڑی بھاری دقت دور ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بائیسکلوں کا کاروبار چمک اُٹھا۔ فرانس، انگلستان، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ڈریژن کی بائیسکل کو بہت پسند کیا گیا۔
کچھ مدت بعد لوئی گومیرز نے اگلے پہیے کو ہاتھ سے گھمانے کا طریقہ نکالا۔ ابھی تک لکڑی کے پہیے ہوتے تھے اور ان پر لوہے کا ہال چڑھایا جاتا تھا شروع میں دونوں پہیے برابر ہوتے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد اگلا پہیہ بڑا اور پچھلا پہیہ چھوٹا بنایا جانے لگا۔ اس کے بعد ایک اور فرانسیسی پیری نے سب سے پہلے پیڈل لگا کر بائیسکل چلائی۔ لیکن ابھی تک اس کی رفتار تیز نہ ہوئی تھی۔
جب ربڑ کی خوبیاں ظاہر ہوگئیں۔ اور اس سے گیندیں اور کھلونے بننے لگے تو بائیسکل کے لئے بھی ربڑ کے ٹائر بنے۔ تجارت میں زبردست انقلاب آگیا۔ اب پھر دونوں پہیے برابر کر دیئے گئے۔ ہمارے ملک میں پہلے انگلستان اور جاپان سے بائیسکلیں آتی تھیں۔ پھر بعد میں ہمارے یہاں بائیسکل کے کئی کارخانے قائم ہوگئے جہاں اعلیٰ درجے کی بائیسکلیں بنائی جانے لگیں جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔