• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چڑیا کیسے آزاد ہوئی؟

Updated: September 27, 2025, 3:45 PM IST | Sumaiya Shoaib | Mumbai

ایک تھی چڑیا بہت غریب اور بہت دُکھی۔ وہ جب بہت چھوٹی تھی تو اس کے ماں باپ اس پر صحیح توجہ نہیں دیتے تھے کیونکہ اس کے ماں باپ کی آپس میں ہر وقت لڑائی رہتی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک تھی چڑیا بہت غریب اور بہت دُکھی۔ وہ جب بہت چھوٹی تھی تو اس کے ماں باپ اس پر صحیح توجہ نہیں دیتے تھے کیونکہ اس کے ماں باپ کی آپس میں ہر وقت لڑائی رہتی۔ وہ بے چاری یہ سب کچھ دیکھ کر بڑی پریشان رہتی۔ چھوٹی تھی نا اپنے ماں باپ کو سمجھا بھی نہیں سکتی تھی اپنی ماں سے اسے بہت پیار تھا مگر باپ بڑا ہی ظالم تھا۔ لڑائی تو اس کی ماں سے ہوتی مگر پٹائی اس ننھی چڑیا کی ہوجاتی۔
 اس طرح اس کی ماں بھی بڑی پریشان رہنے لگی آخر وہ اپنی بچی کو ظالم باپ سے چھپا کر کہاں لے جائے؟ ایسے ہی ایک دن تپتی دوپہر تھی اور ننھی چڑیا کا باپ گھونسلے میں موجود نہیں تھا۔ ادھر ان ماں بیٹی کو موقع مل گیا اور وہ دونوں فوراً گھر چھوڑ کر کہیں اور چلی گئیں۔ جہاں اس کا باپ نہیں پہنچ سکتا تھا۔
 اب ننھی چڑیا اپنی ماں کے ساتھ بہت خوش تھی۔ کچھ وقت تو بڑا آزادی سے گزرا مگر وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ ایک دن ننھی چڑیا کی ماں اس کے لئے کھانے کی چیزیں لینے گئی اور اسے کسی ظالم شکاری نے مار ڈالا۔ ادھر ننھی چڑیا بہت پریشان تھی کہ ابھی تک ماں نہیں آئی۔ بھوک بھی لگ رہی تھی مگر اس بیچاری کو کیا معلوم کہ آج وہ بھوکی ہی رہے گی۔ ماں کہاں سے آئے گی۔ کیونکہ وہ بیچاری تو کسی ظالم کا لقمہ بن چکی تھی۔ شام تک وہ اپنی ماں کا انتظار کرتی رہی مگر ماں نہ آئی اور وہ بھوکی اکیلی گھونسلے میں سو گئی۔ جب صبح ہوئی تو اس نے خود ہی کوشش کی کہ ماں کو تلاش کرے آخر وہ کہاں چلی گئی۔ وہ اپنے ننھے منّے پَروں کے ساتھ اُڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخرکار اسے اُڑنا آگیا۔ اُڑتے ہوئے کبھی ایک درخت پر بیٹھتی کبھی دوسرے پر۔ اس طرح اس نے کافی حد تک اُڑنا سیکھ لیا۔ اب وہ اچھی طرح اُڑ سکتی تھی۔ پہلے تو اس نے کچھ کھایا پیا۔ پھر اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی۔ مگر ناکام رہی۔ وہ دن بھی ایسے ہی گزر گیا اس کی ماں تو اسے نہ ملی لیکن ایک ظالم شکاری مل گیا جو اسے دانے کے لالچ میں قید کرکے لے گیا۔ اب وہ بے چاری اس شکاری کی قید میں تھی۔
 یہ وہی شکاری تھا جس نے اس کی ماں کو مار ڈالا تھا۔ اب وہ ننھی چڑیا کو بھی پکڑ کر لے گیا۔ جب اس نے گھر جا کر ننھی چڑیا کو پنجرے میں قید کر دیا تو ننھی چڑیا کا سانس میں سانس آیا کہ شکر ہے خدایا جان تو بچ گئی۔ مگر آزادی بڑی نعمت ہوتی ہے ننھی چڑیا کے دل میں ہر وقت یہ بات رہتی کہ وہ کس طرح اس ظالم سے آزادی حاصل کرے۔ آخر ایک دن شکاری نے دانہ ڈالنے کی غرض سے پنجرے کا دروازہ کھولا اور ننھی چڑیا دانہ کھاتے کھاتے پھرُ سے اُڑ گئی۔
 شکاری اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اب کیا ہوسکتا تھا اب تو وہ آزاد ہوچکی تھی اُڑتے اُڑتے وہ بہت دُور جنگل میں پہنچ گئی اور آزادی سے خوشی خوشی رہنے لگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK