• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک دن امّی ابّو کے بغیر

Updated: September 27, 2025, 4:20 PM IST | Sahar Asad | Banaras, UP

آج جمعہ کا دن تھا۔ روحی حسب معمول پورے نو بجے اپنی نیند پوری کرکے اٹھی۔ اپنے اور مومل کے مشترکہ کمرے سے نکل کر امی ابو کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو چونک پڑی۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

آج جمعہ کا دن تھا۔ روحی حسب معمول پورے نو بجے اپنی نیند پوری کرکے اٹھی۔ اپنے اور مومل کے مشترکہ کمرے سے نکل کر امی ابو کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو چونک پڑی۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ پھر باورچی خانے، آنگن اور بیٹھک میں جھانک کر دیکھا حتیٰ کہ اوپر چھت پر بھی دیکھ آئی لیکن وہ کہیں نہیں دکھائی دیئے۔ پھر دوبارہ لوٹ کر ان کے کمرے میں آئی تو میز پر ایک چھوٹا سا کاغذ پڑا ہوا تھا۔ اٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا: ’’سنو بچو! الٰہ باد سے تمہاری چچی کا فون آیا تھا۔ ان کی بیٹی کی نکاح کی تاریخ اچانک طے ہوگئی ہے۔ ہم دونوں کے لئے اس میں شرکت کرنا لازمی تھا لہٰذا ہم وہیں جارہے ہیں۔ تم لوگ چھوٹے انس کا خیال رکھنا اور آپس میں لڑنا جھگڑنا مت!‘‘
 ’’ہرا....!‘‘ اس نے ایک بلند نعرہ لگایا اور مسرت سے دوڑتی ہوئی پہلے اپنے کمرے میں آئی اور مومل کو جگایا پھر ارسل اور آذر کے کمروں میں گھس گئی۔ ’’اٹھو! اٹھو! خوشخبری، خوشخبری۔‘‘ عام حالات میں تو نو بجے وہ مر کر بھی نہ اٹھتے لیکن خوشخبری کا لفظ ہی کچھ ایسا تھا کہ ارسل نے منہ سے تکیہ ہٹا کر موندی موندی آنکھوں سے پوچھا: ’’کیسی خوشخبری؟‘‘ روحی نے فٹافٹ خط کا مضمون پڑھ کر سنایا ۔ جسے سن کر ارسل اور آذر بھی خوشی سے جھوم جھوم اٹھے۔
 ’’ہوں.... تو آج کے دن اس گھر پہ ہماری حکمرانی ہوگی۔‘‘ ارسل نے فخر سے ہاتھ بلند کیا۔
 ’’بالکل بالکل....‘‘ مومل نے بھی تائید کی۔ پھر یونہی کچھ دیر تک طرح طرح کے نعرے لگتے رہے۔ آخر کار روحی نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے ناشتہ بنایا جائے کیونکہ سب ہی کے پیٹوں میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ سو سب کچن میں آگئے۔ روحی نے چائے کا پانی چڑھایا، مومل آٹا گوندھنے بیٹھ گئی۔ ارسل اور آذر نے آملیٹ بنانے کی تیاری شرع کر دی۔ جیسے ہی آذر نے انڈے توڑ کر فرائی پین میں ڈالے تو صرف ایک انڈا فرائی پین میں تھا باقی انڈے باہر تھے۔ روحی نے جھنجلا کر پھر سے دوسرے انڈے ڈالے اس بار تو تینوں انڈے فرائی پین میں چلے گئے۔ لیکن اسی درمیان چائے کا پانی ابل کر کیتلی سے باہر آگیا۔ روحی نے دوبارہ پانی رکھا۔ ارسل نے پیاز کاٹتے ہوئے اپنی انگلی کاٹ لی تھی سو اب وہ اس کی مرہم پٹی کرنے میں مشغول تھا۔ مومل بے چاری کب سے آٹا گوندھنے میں ہلکان تھی۔ پانی حد سے زیادہ ڈال دیا تھا اور اب آٹے کی شکل دیکھ کر اسے رونا آرہا تھا۔ بالآخر جیسے تیسے کرکے روحی نے آذر کو اپنے ساتھ ملا کر روٹی بنائی۔ اب جب سب ناشتہ کرنے بیٹھے تو تبھی کمرے سے انس کے رونے کی آواز آئی۔ وہ ابھی ابھی اٹھا تھا اور ماں کو نہ پاکر پریشان ہوگیا تھا۔
 ’’اف میرے اللہ! اب اس آفت کو کون سنبھالے گا؟‘‘ ارسل نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔ روحی نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے مومل کو حکم دیا: ’’جاؤ! اسے اٹھا کر لے آؤ۔‘‘ روحی بڑی تھی سو سب پر اس کا حکم چل جاتا تھا۔ مومل مرے مرے قدموں سے اسے لے آئی۔ انس نے ماں کو نہ پاکر چیخ چیخ کر زمین آسمان سر پر اٹھا لئے۔ پھر کتنی ہی دیر تک سب مل کر اسے بہلانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی کوشش میں ناشتہ بھی ٹھنڈا ہوگیا تھا۔
 ناشتے کے بعد اب صفائی کی باری آئی۔ ’’میں سب کے کپڑے دھلتی ہوں، آذر تم صفائی کرو، مومل برتن دھلے گی اور ارسل تم انس کو سنبھالو۔‘‘ روحی نے سب کی ڈیوٹی لگائی۔
 ’’نہیں، برتن میں دھلوں گا، مومل تم انس کو سنبھالو۔‘‘ ارسل نے انس سے جان چھڑانا چاہی۔ لیکن مومل اس پر راضی نہ ہوئی۔ نتیجتاً دونوں میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ بالآخر روحی نے صلح کرائی۔ ’’اوکے! ارسل تم کپڑے دھل لو میں انس کو سنبھالتی ہوں۔‘‘ وہ بخوشی اس تقسیم پر راضی ہوگیا۔ کیونکہ انس کو سنبھالنا بھی بڑا مشکل کام تھا۔ جب رونے پر آجاتا تھا تو بمشکل ہی چپ ہوتا تھا۔
 جیسے تیسے سارے کام پورے ہوئے۔ مومل نے برتن اور ارسل نے کپڑے دھلے، آذر نے جیسے تیسے کرکے پورے گھر کی صفائی کی۔ انس بھی رو رو کر خود ہی چپ ہوگیا تھا۔ تھکن سے سب کا برا حال تھا لیکن ارسل اور آذر کو جمعہ پڑھنے جانا تھا اس لئے ابھی ان کے کپڑے پریس کرنے باقی تھے۔ روحی پریس کرنے بیٹھی تو پریس ہی غائب تھا۔ اس نے آواز لگائی: ’’ارسل ذرا دیکھو تو پریس کہاں ہے؟‘‘
 ’’اف، تمہیں اتنا نہیں پتہ کہ امی پریس کہاں رکھتی ہیں؟‘‘ وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔ پھر تو پورے گھر میں پریس کی تلاشی شروع ہوگئی۔
 ’’آؤ مومل، یہاں دیکھتے ہیں۔‘‘ ارسل اور مومل کپڑوں کی الماری میں گھس گئے۔ آذر نے بیڈ اور صوفوں کے اندر بھی جھانک کر دیکھ لیا۔ تبھی کمرے سے روحی نے ان کو پکارا: ’’آجاؤ سب، پریس یہیں ہے، میز پر۔‘‘ روحی نے پریس کرنا شروع کیا۔ تبھی فون کی گھنٹی بجی، ارسل نے فون اٹھایا، ’’ہیلو، کون؟ اوہ.... ندا....‘‘ پھر وہیں سے آواز لگائی: ’’روحی تمہارا فون ہے۔‘‘ روحی نے پریس اسٹینڈ پر کھڑا کیا اور بھاگتے بھاگتے آئی اور فون ریسیو کیا۔ جب فون سن کر واپس آئی تو پریس ارسل کے کرتے پر جوں کا توں رکھا تھا اور ارسل کے کرتے پر ایک بڑا سا داغ نمودار ہوچکا تھا۔ غم و غصے سے روحی کا برا حال ہوگیا۔ پھر اس کا دوسرا کرتا نکال کر استری کیا۔
 پھر آذر اور ارسل جمعہ پڑھ کر آئے۔ اب دوپہر کے کھانے کا مسئلہ تھا۔ سبھی کے ماتھے پر تشویش کے بل صاف گنے جاسکتے تھے۔ ان سب کو احساس ہو رہا تھا کہ امی اکیلے کیسے سارے کام سنبھالتی تھیں۔
 ’’ایک تو امی ابو بتا کر بھی نہیں گئے کہ کب آئیں گے....‘‘ ارسل برا سا منہ بناکر بولا۔
 ’’ایسا کرتے ہیں کہ ابو کو فون ملاتے ہیں۔‘‘ روحی نے مشورہ دیا۔ سبھی نے اس کی تائید کی۔ آذر فون کی طرف بڑھا۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ روحی نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو سامنے امی ابو کھڑے مسکرا رہے تھے۔ حیرت اور خوشی کے ملے جلے رد عمل کے ساتھ وہ ان سے لپٹ گئی۔ انس ماں کو دیکھ کر لپکا۔ مومل، ارسل اور آذر تینوں ابو سے لپٹ گئے۔
 ’’تو پھر کیسا لگا ہمارا سرپرائز؟‘‘ ابو نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
 ’’لیکن آپ لوگ تو الٰہ باد گئے تھے؟‘‘ اارسل کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
 ابو نے امی کو مسکرا کر دیکھا پھر ہنستے ہوئے بولے، ’’ارے بھئی یہ تو محض ایک ناٹک تھا۔ تمہاری امی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا سو ہم نے سوچا کہ اسی بہانے ایک دن کے لئے گھر تم لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے اور تمہاری آزمائش بھی ہوجائے کہ تم ہمارے بغیر کیسے رہتے ہو۔‘‘
 ’’نہیں ابو!‘‘ارسل روہانسا ہوگیا اور اپنی زخمی انگلی دکھائی۔ روحی نے انس کو سنبھالنے میں آئی مشکلات بیان کیں، مومل اور ارسل نے بھی اپنے اپنے دکھڑے روئے۔ امی نے سب کی شکایتوں کو سنا اور دھیرے سے مسکرا دیں۔ اس کے بعد سبھی بچوں نے عہد کر لیا کہ اب وہ ضرور گھر کے چھوٹے موٹے کام سیکھیں گے تاکہ وقت پڑنے پر کسی قسم کی مشکل نہ اٹھانی پڑے اور گھر کے کاموں میں بھی امی کا ہاتھ بٹائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK