• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سچا دوست

Updated: October 04, 2025, 1:12 PM IST | Abrar Mohsin | Mumbai

بادشاہ کو خوش کرنے کیلئے جھوٹ بولنا آسان ہے لیکن ایک بوڑھا سچ بولنے کی جرأت کرتا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

وہ ایک بہت بڑا بادشاہ تھا۔ دُنیا کا کوئی سکھ ایسا نہ تھا جو اُس کے پاس نہ ہو، خوبصورت اور لمبا چوڑا محل، سونا اور چاندی اور ہیرے، موتیوں سے بھرپور خزانہ بڑی سی فوج اور خدمت کے لئے سیکڑوں غلام۔ سب کچھ میسر تھا اسے۔ سب اُس کی تعریف کرتے، شاعر اس کی شان میں گیت لکھتے اور قصہ گو اُس کی دولت اور طاقت کی داستانیں بیان کرتے۔
 شاعر کہتے، ’’بادشاہ ملک کا سورج ہے۔ جس کے دم سے ملک بھر میں اُجالا پھیلا رہتا ہے۔ رات کے اندھیروں میں جل اُٹھنے والے اس کے محل کے چراغوں کی روشنی ستاروں کو شرماتی ہے۔ وہ اتنا بہادر ہے کہ شیر بھی اُس کا نام سُن کر کانپ جاتے ہیں۔ اس کا حُسن پھولوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور اُس کا مقام ستاروں سے بھی اونچا ہے۔
 قصہ گو اسکی تعریف اس طرح کرتے، ’’بادشاہ کا دل سمندر جیسا وسیع ہے۔ اس کی سخاوت سورج کی روشنی کی طرح ہر چھوٹے بڑے پر برستی ہے۔
 گویے اپنے گیتوں میں اُس کی بڑائی بیان کرتے کرتے اُسے آسمان پر بٹھا دیتے۔
 بادشاہ کے دربار سے یہ سب لوگ منہ مانگا انعام حاصل کرتے تھے۔
 مگر بادشاہ کا بوڑھا وزیر کبھی اس کی تعریف نہیں کرتا تھا اُس کی خواہش تھی کہ وزیر بھی دوسرے سب لوگوں کی طرح اسکی بڑائی بیان کرے۔
 ’’آخر تم بھی تو کچھ کہو۔ ہم تمہیں مالا مال کر دیں گے۔‘‘ بادشاہ نے وزیر سے کہا۔
 ’’اصلی تعریف دل سے کی جاتی ہے، زبان سے نہیں۔‘‘ وزیر نے کہا۔
 بادشاہ جھنجھلا گیا، ’’تو کیا یہ تمام شاعر، قصہ گو، اور گویے سب کے سب جھوٹے ہیں؟ کیا یہ سب احمق ہیں؟‘‘
 وزیر نے کہا، ’’یہ احمق نہیں بلکہ بڑے چالاک ہیں اور ان کا مقصد آپ کی تعریف نہیں۔ آپ سے انعام میں دولت حاصل کرنا ہے۔ احمق وہ ہے جو ان کی باتوں پر اعتبار کرتا ہے۔‘‘
 ’’اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم احمق ہیں اور ہمارے اندر خوبیاں نہیں۔‘‘ بادشاہ نے بُرا مان کر کہا۔ ’’جی ہاں!‘‘
 بادشاہ چیخ اُٹھا، ’’تمہیں یہ بات ثابت کرنی ہوگی ورنہ تمہاری کھال کھنچوا دوں گا۔‘‘
 اسی رات روزانہ کے معمول کے مطابق بادشاہ اور وزیر بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے ایک درخت کے نیچے چند دیہاتی بیٹھے حقہ پیتے نظر آئے۔
 ’’آؤ بھائیو....!‘‘ دیہاتیوں نے انہیں دیکھ کر کہا، ’’دو گھڑی سستا لو۔ حقہ حاضر ہے۔ پردیسی ہو؟‘‘ وزیر نے جواب دیا، ’’ہاں بھائی، پردیسی ہیں۔ یہ کون سا شہر ہے اور کس بادشاہ کی حکومت ہے؟‘‘
 ایک دیہاتی بول اُٹھا، ’’یہ چندر نگر ہے اور ایک احمق بادشاہ کی حکومت ہے۔‘‘
 بادشاہ غصے سے ہونٹ کاٹنے لگا۔
 بادشاہ اور وزیر وہاں سے چل پڑے۔
 بادشاہ نے کہا، ’’پہلی بار اپنے لئے ایسے الفاظ سنے ہیں۔‘‘
 وزیر نے سمجھایا، ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی بار آپ اُن لوگوں سے ملے ہیں جن کا مقصد آپ کی جھوٹی تعریف کرکے انعام حاصل کرنا نہیں ہے۔ بادشاہ سلامت! آپ کے شاعر، گویے، قصہ گو اور درباری سب کے سب جھوٹے آئینے ہیں جن میں آپ اپنی جھوٹی شکل دیکھتے ہیں۔ یہ سب لوگ آپ کے خیر خواہ اور دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ جن کا کام محض دھوکہ دینا ہے۔‘‘
 بادشاہ چُپ ہوگیا، پھر بولا، ’’کیا مجھے ایسا کوئی سچا دوست مل سکتا ہے جو مجھے میری اصل شکل سچا روپ دکھائے؟‘‘
 وزیر بولا، ’’یاد ہے وہ بوڑھا جسے آپ نے اپنا دشمن کہہ کر شہر سے نکال دیا تھا؟ اُس کا جرم صرف یہ تھا کہ اُس نے صرف آپ کے منہ پر آپ کی کمزوریاں بیان کر دی تھیں آپ نے اُسے گستاخ سمجھا اور سزا دے دی۔ وہی آپ کا سچا دوست تھا۔ چلئے....، شہر کے باہر ہم اُس سے بھی ملیں۔‘‘ دونوں بھیس بدلے بوڑھے کی جھوپڑی پر پہنچے۔
 ’’کون ہو، بھیّا؟‘‘ بوڑھے نے سوال کیا۔
 ’’ہم پردیسی ہیں بابا!‘‘ وزیر نے کہا، ’’یہ کون سا شہر ہے، اور کس بادشاہ کی حکومت ہے؟‘‘
 بوڑھے نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا، ’’چندر نگر ہے اِس شہر کا نام۔ اور بادشاہ ایک ایسے بچے جیسا ہے جو جھوٹے کھلونوں سے دل بہلاتا ہے۔ خوشامدی لوگ اُسے بیوقوف بنا کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ وہ اسے حسین، بہادر، سخی، عقلمند، اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ جبکہ اُس میں اِن میں سے ایک بھی خوبی نہیں۔ اس کی شکل معمولی ہے، وہ بہادر بھی نہیں، کیونکہ بہادری اُس کے سپاہی دکھاتے ہیں اور وہ محل میں پڑا موج اُڑاتا ہے۔ وہ سخی نہیں بلکہ خوشامدی لوگوں کو خوشامد کا معاوضہ دیتا ہے۔ اور وہ عقل سےپیدل ہے جو اتنے بڑے جھوٹ کو سچائی سمجھ کر دل خوش کر لیتا ہے۔ شاعروں کے گیت، قصہ گو لوگوں کے قصے اور درباریوں کے قصیدے۔ یہ سب بادشاہ کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ جو احمق خود اپنے آپ کو نہیں پہچانتا وہ گدھا ہی تو ہے!‘‘
 ’’کیا تم بادشاہ کے دربار میں یہی سب کچھ کہہ سکتے ہو؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔
 ’’سچائی کو کوئی ڈر نہیں ہوتا۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔
 ’’تو پھر کل دربار میں آجانا۔ ‘‘ بادشاہ نے کہا۔
 اگلے دن بھرے دربار میں شاعر نے بادشاہ کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر دیئے، قصہ کہنے والے نے اُسے سکندر سے بھی بلند کر دیا۔ گویے نے اُسے فرشتہ ثابت کر دیا۔
 ’’تمہارا بادشاہ کے بارے میں کیا کہنا ہے؟‘‘ بادشاہ نے بوڑھے کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔ بوڑھے نے جھٹ کہہ دیا، ’’بادشاہ احمق ہے۔‘‘ دربار میں شور ہونے لگا، ’’یہ بدتمیز ہے۔ گستاخ ہے۔ جھوٹا ہے!‘‘
 ’’صرف یہی سچا ہے۔‘‘ بادشاہ کی آواز شور پر چھاتی چلی گئی، ’’باقی سب جھوٹے اور دھوکہ باز ہیں۔ تم سب یہاں سے نکل جاؤ۔ صرف یہ بوڑھا، میرا سچا دوست ایک سچے آئینے کی طرح میرے پاس رہ کر مجھے میری اصلی شکل دکھاتا رہے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK