Inquilab Logo

چور پکڑا گیا

Updated: May 02, 2020, 4:46 AM IST | Shakeel Anwar | Mumbai

مَیں نے کونے میں رکھی چچا کی ہاکی اٹھا لی اور بہت آہستہ سے صدر دروازے کی طرف چل پڑا، کوئی بھی ہو بس ایک ہاکی میں سر کھل جائے گا۔ مَیں نے ہاکی کو مضبوطی سے تھام لیا اور لاٹھی کی طرح لہراتا قدم قدم چلا، موڑ پر مجھ سے کوئی ٹکرا گیا اور ہاکی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

چچا اقبال کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہوشیار آدمی ہیں، دراصل وہ برابر والے گھر میں تنہا ہی رہتے ہیں، اس سال ایم اے کرلیں اور اس کے بعد ہی ہمارے لئے ایک چچی جان بھی آجائیں۔ ابّا جان نے ہم سب کو تاکید کر دی ہے کہ ہم ان کی طرف بالکل نہ جایا کریں اس طرح ان کی پڑھائی کا حرجہ ہوگا۔ بس وہ خود جس کام کو کہا کریں کر دیا کریں یا جب وہ خود بلایا کریں تو اُدھر چلے جایا کریں۔ ہاں تو ذکر تھا ان کی ہوشیاری کا۔ وہ ہر کام بڑی ہوشیاری سے کرتے مثلاً اگر وہ بس میں سوار ہوتے تو جس بس اسٹاف پر اترنا ہے اس سے پہلے ہی وہ دروازے پر آکر کھڑے ہوجائیں گے۔ سڑک پار کرنی ہوتی تو دونوں طرف اچھی طرح دیکھ کر پار کرتے جب تک دور دور تک کوئی نہ کوئی ہوتا وہ کھڑے انتظار کرتے رہتے۔ کبھی ٹرین سے جانا ہوتا تو کئی بار بورڈیکھتے کہ یہ ڈبہ مرادآباد سے لکھنؤ ہی جائے گا۔ ایسا تو نہیں آگرہ چلے جائیں، وغیرہ وغیرہ....
 ایک دن چچا نے کھڑکی سے سر نکال کر آواز دی ’’شجی میاں!‘‘ مَیں بیٹھا اپنا ہوم ورک کر رہا تھا جلدی سے اٹھ گیا ’’جی چچا جان....‘‘ ’’بھئی....! مَیں آج رات کو ذرا دیر سے آؤں گا۔ باہر سے تالہ لگا جاؤں گا۔ تم اس کی چابی رکھ لینا۔‘‘ ’’جی بہت بہتر....‘‘ ’’مگر....‘‘ وہ کچھ سوچنے لگے ’’مگر سوال یہ ہے اگر تم جلدی سوگئے تو.... خیر.... نہیں تم ایسا ہی کرو کہ اُدھر ہی جاکر پڑھتے رہو.... اور نیند آجائے تو میرے بستر پر سو بھی جانا.... ڈر تو نہیں لگے گا نا.... بھئی مَیں اس لئے کہہ رہا ہوں اکیلا گھر نہیں چھوڑنا چاہئے....‘‘ ’’جیسا آپ حکم دیں.....‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’تو پھر ٹھیک ہے تم کھڑکی سے اندر چلے جانا اور مَیں صدر دروازہ بند کرکے تالہ لگاتا ہوا چلا جاتا ہوں۔‘‘ چچا اقبال چلے گئے.... اور مَیں دل ہی دل میں خوش ہوا۔ آج ہی کہانیوں کی کتاب کا نیا شمارہ آیا تھا اور امّی نے حکم دے دیا تھا ہوم ورک پورا کئے بغیر مَیں پڑھ نہیں سکتا۔ بھائی جان بازار سے کچھ خریدنے گئے تھے اس لئے بس یہی غنیمت سمجھا کہ کہانیوں کی کتابیں میں دبا کر لے چلوں اور پھر چچا اقبال کے بستر میں گھس کر دنیا سے بے خبر ہو جاؤں۔ جلد ی جلدی کتابیں اٹھائیں اور کھڑکی کی راہ سے چچا کے مکان میں پہنچ گیا، کھڑکی کو ادھر سے بند کر لیا اور کتابیں بستر پر رکھ کر کہانی پڑھنے لگا۔ کہانی پڑھتے پڑھتے ہی نیند آگئی۔
 پھر نہ جانے کیسے اچانک آنکھ کھل گئی۔ مَیں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ صدر دروازے کی طرف سے آہٹ آئی تھی۔
 چچا واپس آگئے..... مگر گھڑی پر نگاہ گئی تو ابھی مجھے سوئے ہوئے ہی صرف ۱۰؍ منٹ ہوئے تو اور چچا کو گئے ہوئے صرف آدھا گھنٹہ۔ چچا اتنی جلدی نہیں آسکتے۔ ’’چرر.... چرر.....‘‘ دروازہ بہت آہستہ سے کھلا۔
 ساتھ ہی میرا دل جیسے اچھل کر حلق میں آگیا ہو۔ آہستہ سے کسی کے چلنے کی آہٹ ہوئی۔ چچا تو جوتا پہنے تھے.... کھٹ کھٹ.... کی آواز آنی چاہئے تھی۔ پھر اتنی آہستہ کون چل سکتا.... ایک خوفناک سوال سامنے آکھڑا ہوا.... آج ضرور کوئی چور آگیا۔
 صدر دروازے کی روشنی گل تھی۔ مَیں نے کونے میں رکھی چچا کی ہاکی اٹھا لی اور بہت آہستہ سے صدر دروازے کی طرف چل پڑا، کوئی بھی ہو بس ایک ہاکی میں سر کھل جائے گا۔
 مَیں نے ہاکی کو مضبوطی سے تھام لیا اور لاٹھی کی طرح لہراتا قدم قدم چلا.... موڑ پر مجھ سے کوئی ٹکرا گیا اور ہاکی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ مگر مَیں نے ٹکرانے والے کا بازو پکڑ لیا اور دیا ایک گھونسہ.... اس نے بھی ایک گھونسہ میرے مارا۔
 اور یوں گھونسہ لات چل پڑا۔ مَیں نے بھی طے کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو چھوڑوں گا نہیں اور نہ ہی کسی کو مدد کے لئے پکاروں گا۔ دیکھو تو لوگ چور کس طرح پکڑتے ہیں ذرا تجربہ صحیح۔
 اچانک چور کے دونوں ہاتھ میری گردن تک آگئے۔ میری بیٹھ میں سرد لہر دوڑ گئی۔ اس نے گلا ہی دبا دیا تو کیا ہوگا۔
 مَیں ڈر گیا۔
 اس نے میری گردن دبانی شروع کی اور جبھی میری چیخ نکل گئی۔
 ’’امّی....‘‘ ’’ارے....‘‘ چور نے میری گردن چھوڑ دی۔ ’’شجی تم....‘‘ بھائی جان کی آواز آئی۔
 ’’بھائی جان آپ....‘‘ مَیں حیرت زدہ تھا۔
 پھر ہم دونوں بھائی اندر روشنی میں آئے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ بھائی جان کے کپڑے پھٹ گئے تھے، مَیں بھی بری طرح ہانپ رہا تھا۔
 بھائی جان نے مجھے گھور کر دیکھا۔
 ’’آپ نے تو مار ہی دیا تھا....‘‘ مَیں نے ہانپتے ہوئے کہا۔
 ’’میرے تمام کپڑوں کا ستیاناس کر دیا.... بدھو.....‘‘ ’’آپ آئے کیسے؟ چابی تو چچا اقبال لے گئے تھے؟‘‘ مَیں نے اپنے حواس ٹھیک کرنے کے لئے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا۔
 ’’ہوں.... لے گئے تھے تمہارا سر.... مجھے راستہ میں مل گئے تھے۔ کہنے لگے ہوسکتا ہے چابی وہاں رہ جائے.... اس لئے تم لیتے جاؤ.... لاؤ ایک گلاس پانی مجھے بھی پلاؤ....‘‘ بھائی جان کو غصہ آرہا تھا اور مجھے ہنسی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK