Inquilab Logo

اپنے بالوں کی حفاظت میں

Updated: August 27, 2022, 1:37 PM IST | Gulam Haider | Mumbai

اسکول میں ایک خاص جلسے کی تیاری چل رہی تھی۔ اس کی صدارت ملک کی ایک مشہور شخصیت کو کرنی تھی۔ تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ چل رہی تھیں۔ ایک طالب علم کو اس جلسے میں گیت گانا تھا مگر عین جلسے سے قبل وہ....

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

’’بدتمیز!‘‘ ایک تھپڑ ۔
 ’’ناکارہ!‘‘ دوسرا تھپڑ ۔
 ’’پاجی....‘‘ اور پھر تو جیسے تھپڑوں کی بارش ہی ہونے لگی اور دن میں تارے نظر آنے لگے۔ دیوار پر لٹکی کبیر، غالب اور آئن اسٹائن کی تصویری ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوکر ناچ رہی تھیں۔ اور پھر تو چہرے اور گنجے سر پر پڑنے والے بے شمار تھپڑوں کا حق دار ہوں؟ اس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، اور دلی کے ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ میری آواز بہت اچھی تھی۔ شاید ہی اسکول کا کوئی جلسہ ایسا ہوا ہو جس میں مَیں نے کوئی نظم، ترانا یا گانا نہ گایا ہو۔  ان دنوں ایک خاص جلسے کی تیاری چل رہی تھی۔ اس جلسے کی صدارت ملک کی ایک مشہور شخصیت کو کرنی تھی۔ تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ چل رہی تھیں۔ کئی ہفتے پہلے سے کلاسیں صاف ہونے لگی تھیں۔ دیواروں کو چارٹ اور تصویروں سے سجایا جارہا تھا۔ ان دنوں ہر شخص کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آتا تھا۔ 
 ان خاص مہمان کے اعزاز میں ایک نظم بھی پڑھی جانی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ کام میرے علاوہ اسکول میں کون کرتا۔ 
 ہاں، مَیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس زمانے میں میرے بال کچھ زیادہ ہی لمبے رہتے تھے۔ میرے بالوں کی وجہ سے کئی بار میرے والدین بھی مجھ سے ناراض ہو چکے تھے۔ اور اسی لئے ہاسٹل میں داخل ہوتے وقت مجھے خوشی تھی کہ اب میں اپنے بالوں کو اپنی مرضی سے بڑھا سکتا ہوں۔ 
 مگر ہاسٹل میں داخل ہونے کے بعد جلدی ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں حالات اور بھی زیادہ خراب تھے۔ 
 ہمارے وارڈن صاحب یوں تو بہت نیک اور محترم بزرگ تھے۔ لیکن تھے میرے والدین سے بھی زیادہ سخت وہ ایک آرٹسٹ تھے اور غیر ضروری حد تک ہر چیز کی صفائی اور سلیقے پر زور دیتے تھے.... ظاہر ہے کہ میرے بال بہت جلد ہم دونوں کے بیچ فساد کی جڑ بن گئے تھے۔ 
 ہر اتوار کو ہوسٹل میں ایک بوڑھا نائی آتا تھا، جسے ہم خلیفہ جی کہا کرتے تھے۔ میرا اتوار کا دن وارڈن صاحب کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے گزرتا تھا۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی چوتھے یا پانچویں ہفتے مجھے پکڑ کر خلیفہ جی کے حوالے کر ہی دیا جاتا تھا۔ خلیفہ جی کو میرا نام بھی لیتے جھرجھری آتی تھی۔ میں تھا ہی اتنا شیطان۔ میرے بالوں کو چھوتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپنے لگتے تھے۔ 
 جلسے سے پہلے اتوار کو صبح سے ہی وارڈن صاحب بار بار مجھے آگاہ کر چکے تھے کہ اگر میں نے بال نہیں کٹوائے تو بہت سخت سزا ملے گی۔ 
 وارڈن صاحب کی یہ بات مجھے سخت ناگوار گزر رہی تھی کیونکہ میری خواہش تھی کہ اسٹیج پر مَیں اپنے بالوں کا شاندارتاج پہن کر جاؤں۔  وارڈن صاحب کے چنگل سے بچ نکلنا ناممکن ہوگیا اور مجھے سیدھا خلیفہ جی کے حوالے کردیا گیا۔ 
 جس کا خوف تھا وہ گھڑی آگئی تھی۔ یہی وقت تھا فیصلہ کرنے کا۔ وارڈن صاحب کی دھمکیوں سے ڈر کر خود کو ان کے حوالہ کردوں یا پھر بغاوت۔ 
 اور بس مجھے شیطان نے ورغلادیا۔ اور مَیں نے بدلا لینے کی ٹھان لی۔ آج مجھے اپنا اگلا پچھلا سب حساب برابر کرنا تھا۔ میں نے شرافت سے خلیفہ جی کے سامنے اپنا سر پیش کردیا اور سر پر استرا پھیرنے کی ہدایت کی۔ 
 ظاہر ہے کہ خلیفہ جی نے میری بات پر ذرا سا بھی یقین نہیں کیا۔ لیکن میری ضد کے آگے آخرکار انہیں بار ماننی ہی پڑی۔ خلیفہ جی نے سر پر پانی لگایا استرا اٹھانے سے پہلے ایک بار پھر مجھ سے پوچھا۔ 
 ’’میاں، تو کیا تم سچ مچ گنجے ہونا چاہتے ہو؟‘‘  خلیفہ جی کو یقین دلانے میں مجھے تقریباً دس منٹ لگے تھے۔ آخرکار کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے استرا میرے سر پر پھیرنا شروع کرہی دیا۔ کچھ ہی دیر میں میرے سر پر تین بار استرا پھیرا جاچکا تھا۔ اب میری چمکتی کھوپڑی پر بال کا نام ونشان تک نہ تھا۔ میں نے اپنی بھنویں بھی کچھ چھٹوا دیں۔ پھر میں نے بڑی احتیاط سے سر پر تیل لگا کر خوب چمکایا۔ کمرے میں جاکر ایک نیکر پہنا، کندھے پر تولیہ ڈالا اور بڑی شان سے ہاسٹل سے باہر نکلا۔ میرے ساتھی ہنستے ہنستے پاگل ہوئے جارہے تھے۔ تالیاں بجاتے شور مچاتے ہوئے وہ بھی میرے پیچھے ہولئے۔ ہڑدنگوں کی اس ٹولی کے آگے آگے بدھ بھکشو جیسی شکل میں میں چل رہا تھا۔  وراڈن صاحب ایک کلاس سجانے میں مصروف تھے۔ ہمارا ہنستا غل مچاتا یہ جرگہ جب وہاں سے گزرا تو وہ گھبرا کر جلدی سے باہر نکل آئے۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر تو جیسے انہیں سکتہ سا ہوگیا۔ شاید انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے مجھے کئی بار سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔ 
 اس دن میری خوب دھنائی ہوئی.... خیر آج مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ ضروری بھی تھی۔  ظاہر ہے کہ ایسی شکل میں مجھے اسٹیج پر نہیں جانے دیا گیا مگر اس سے بھی بری بات یہ تھی کہ کئی مہینوں تک مجھے ایک بھکشو کی طرح رہنا پڑا اور یار دوستوں کی ٹوہ بازی کا نشانہ بننا پڑا۔ البتہ اس کے بعد سے کبھی کسی نے مجھ سے بال کٹوانے کے لئے نہیں کہا اور آج تک اپنے بالوں کا میں خود ہی مالک ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK