EPAPER
Updated: July 12, 2024, 3:55 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
اِن کالموں میں تفصیل سے جانئے کہ جنگلات ِ باراں یعنی رین فاریسٹ کسے کہتے ہیں، اس سے انسانی زندگی کو کون سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور سائنسی و سماجی اعتبار سے ان جنگلات کی کیا اہمیت ہے
بارانی جنگلات کسے کہتے ہیں؟
بارانی جنگلات (برساتی جنگل) کو انگریزی میں Rainforest (رین فاریسٹ) کہا جاتا ہے۔ یہ جنگل بارش کے سبب قدرتی طور پر وجود میں آتے ہیں۔ تاہم، کسی جنگل کیلئے بارانی کی اصطلاح اس وقت استعمال کی جائے گی جب وہاں سالانہ کم از کم ۱۷۰۰؍ سے ۲۲۰۰؍ ملی میٹر (۶۸؍ س۷۸؍ انچ) بارش ہو۔
بارانی جنگلات کی اقسام
تکنیکی لحاظ سے بارانی جنگلات کی کئی اقسام ہیں۔ تاہم، ذیل میں ان جنگلات کی ۵؍ بڑی اقسام کے بارے میں بتایا گیا ہے:
(۱) نشیبی جنگل (Lowland Forest): یہ جنگلات اُس پٹی پر ہوتے ہیں جہاں بارش ہوتی ہے۔ یہ سطح زمین سے صرف ایک ہزار میٹر کی بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ زیادہ بارش اور مسلسل گرم درجہ حرارت کی وجہ سےپودوں اور جانوروں کیلئے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔
(۲) مونٹین جنگل(Montane forest): یہ متذکرہ پٹی پر واقع پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ سطح زمین سے ۲۵۰۰؍ میٹر تک کی بلندی پر ہوسکتے ہیں۔یہ نشیبی جنگلات سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔یہاں کے درخت زیادہ اونچے نہیں ہوتے۔
(۳) مینگروو جنگل (Mangrove forest): یہ ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ کھارے پانی میں ہوتے ہیں اور خشک موسم کو برداشت کر سکتے ہیں۔ مینگروو کے درخت ۸۰؍ فٹ تک اونچے ہوسکتے ہیں۔ یہ جنگلات جنگلی حیات کیلئے پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔
(۴) معتدل جنگل(Temperate forest):یہ جنگلات کافی بلندیوں پر پائے جاتے ہیں یعنی ایسے علاقے جو سطح زمین سے کئی ہزار فٹ بلند ہوں۔ یہ جنگلات برفباری میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔
(۵) خشک جنگل (Dry Forest): یہ جنگلات گرم آب و ہوا میں پائے جاتے ہیں جہاں موسمی خشک سالی کئی مہینوں تک رہتی ہے۔ خشک سالی کے دوران درختوں کے پتے گر جاتے ہیں۔ یہ جنگلات خشک علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
کرۂ ارض پر بارانی جنگلات کو پھیپھڑوں کا درجہ دیا جاتا ہے جس کا اہم ترین کام ہوا صاف کرنا ہے۔ جس طرح انسان زندہ رہنے کیلئے سانس لیتا ہے، اسی طرح درخت بھی سانس لیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان سانس کے ذریعے آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں بھرتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے جبکہ درخت اس کے برعکس کرتے ہیں۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن چھوڑتے ہیں، یعنی درخت تازہ آکسیجن فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔
جنگلات، زمین پر بارش کے بھی ذمہ دار ہیں۔ جن علاقوں میں زیادہ درخت پائے جاتے ہیں، وہاں ان علاقوں کی بہ نسبت زیادہ بارش ہوتی ہے جہاں درخت نہیں ہوتے۔ دنیا کے سب سے بڑے جنگل امیزون کو اسی لئے بارانی جنگلات کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے بلند وبالا درختوں، دریاؤں، متنوع جاندار اور حیاتیات کے سبب قدرتی طور پر اپنا موسم باراں از خود پیدا کرلیتا ہے۔ سائنسداں اب تک یہ جان نہیں سکے ہیں کہ امیزون میں ایسا کیونکر ہوتا ہے۔ متعدد تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ اس جنگل کے کسی نہ کسی حصہ میں روز بارش ہوتی ہے۔
اگر بارانی جنگلات نہ ہوں تو زمین پر سانس لینے والی ہر چیز کا وجود محض چند ہفتوں میں ختم ہوجائے گا۔ جنگلات ہوا کو صاف کرنے کا کام کرتے ہیں اور انسانوں کو لکڑی کے علاوہ صاف پانی اور غذا بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جانداروں، پرندوں، حشرات اور پیڑ پودوں کی ۸۰؍ فیصد نوع اِن جنگلات میں پائی جاتی ہے۔ دنیا میں اب بھی ایسے لاکھوں جانور اور پرندے ہیں جن کے متعلق انسان واقف نہیں ہے کیونکہ انسان امیزون کے جنگلات کو اب تک پوری طرح دریافت نہیں کرسکا ہے۔
تاہم، جنگلات کی کٹائی کے سبب انسانوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ جنگلات حیوانوں کا مسکن ہیں، ان کے کٹ جانے کا مطلب ہے جانوروں اور پرندوں کے گھروں کا اجڑ جانا۔ جنگلات کی کمی کے سبب حیوان شہری آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں اور انسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔
بارانی جنگلات زمین کے ۳؍ بڑے موسم، گرما، سرما اور باراں، کو اُن کے وقت پر آنے میں معاونت کرتے ہیں۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ بارانی جنگلات بارش کے پانی کو کسی بڑے اسفنج کی طرح جذب کرلیتے ہیں، اور پھر یہ پانی مختلف دریاؤں میں بہتا ہے جو انسانوں کے کام آتا ہے۔بارانی جنگلات بادلوں کی تخلیق کے عمل میں فضا میں آبی بخارات شامل کرکے دنیا کے آبی چکر کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ برساتی جنگلوں پر برسنے والا پانی پوری دنیا میں سفر کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہونے والی نمی امریکہ میں بارش بن کر گرتی ہے۔
ہماری جدید ادویات میں سے ۲۵؍ فیصد سے زائد بارانی جنگلات میں پائے جانے والے پودوں سے بنتی ہیں۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ انسانوں نے ان جنگلات میں پائے جانے والے صرف ایک فیصد پودوں سے طبی میدان میں اتنے فائدے حاصل کئے ہیں۔
بارانی جنگلات کے بارے میں چند دلچسپ حقائق
جنگلات کرۂ ارض پر فطرت کی قدیم ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ ۳۰۰؍ ملین سال پہلے وجود میں آئے تھے جبکہ ۱۸۰؍ ملین سال پرانا بارانی جنگل ڈینٹری، آسٹریلیا اب بھی موجود ہے۔
بارانی جنگلات انٹارکٹکا کے علاوہ دنیا کے ہر براعظم میں ہیں۔
سب سے بڑا بارانی جنگل امیزون دنیا کی ۲۰؍ فیصد آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
کان کنی، کاشتکاری اور لکڑیوں کی ضرورت کے تحت انسان نے زمین پر موجود ہر بارانی جنگل کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچایا ہے۔
امیزون میں دنیا کا سب سے بڑا دریا’’امیزون‘‘ بھی واقع ہے جو ۴؍ ہزار میل طویل ہے۔ دریا میں مچھلیوں کی ۳؍ ہزار سے زائد اقسام ہیں۔
زمین کے کل رقبے میں سے بارانی جنگلات کا فیصد ۶؍ سے ۸؍ فیصد ہے۔ انسانی سرگرمیوں کے سبب ان کا رقبہ گھٹتا جارہا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے بغیر بھی بارانی جنگلات ختم ہوسکتے ہیں۔ اگر یہاں بارش نہ ہو تو یہ جنگلات ختم ہوجائینگے۔
کافی، کوکو، کیلا، مختلف اقسام کی بیریز اور اواکاڈو جیسے متعدد قدرتی پھل بارانی جنگلات ہی کے سبب انسانوں تک پہنچے ہیں۔
بارانی جنگلات کی کٹائی سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ جب جنگل کاٹے جاتے ہیں تو وہاں رہنے والے جاندار اور حشرات شہری علاقوں میں داخل ہوتے ہیں جن کے سبب مختلف قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔
برازیل اور ارجنٹائنا میں امیزون میں پائے جانے والے بعض پودوں کی پتیوں سے چائے بنائی جاتی ہے جو کافی مقبول ہے۔
بارانی جنگلات میں انسانوں کے اب بھی ایسے سیکڑوں قبیلے آباد ہیں جنہوں نے جدید دنیا نہیں دیکھی ہے۔ وہ جنگل ہی کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور روایتی طریقے ہی سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
ہارپی عقاب، دنیا کا سب سے بڑا شکاری پرندہ، صرف بارانی جنگلات ہی میں پایا جاتا ہے۔
ان جنگلوں میں یہاں سانپوں کی ۳؍ ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔