Inquilab Logo

زندگی کی راہ آسان نہیں پھر گرنے سے کیوں گھبرانا!

Updated: April 23, 2024, 1:23 PM IST | Rashmi Bansal | Mumbai

زندگی کی راہ نرم اور دبیز قالین نہیں ہے۔ یہاں پتھر بھی ملتے ہیں، گڑھے بھی۔ کبھی کبھی اس پر ننگے پاؤں بھی چلنا پڑتا ہے۔ کانٹے چبھتے ہیں مگر درد بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جس بچے کو والدین معمولی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں اس کی راہ مشکل ہو جاتی ہے لہٰذا والدین، بچوں کو کم عمری ہی سے خودمختار بنائیں۔

There is a simple rule of life, children learn to pick themselves up by falling, so give them a chance to pick themselves up. Photo: INN
زندگی کا ایک آسان اصول ہے، بچے گر کر ہی سنبھلنا سیکھتے ہیں، اس لئے انہیں خود سے سنبھلنے کا موقع دیں۔ تصویر : آئی این این

آج کل ایک نئے قسم کا ’’ایم بی اے‘‘ کا رجحان ہے۔ اس میں پلیسمنٹ کی گیارنٹی نہیں ہوتی، وہ آپ کو بزنس سیٹ اَپ کرنا سکھائیں گے۔ شارک ٹینک کے زمانے میں نئی نسل کو یہ بات پُرکشش معلوم ہوتی ہے، بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں۔ کسی اور کی غلامی نہیں کرنی، اپنا ہی ’’باس‘‘ بنوں گا۔
 بات میں دم ہے مگر ایک مسئلہ ہے۔ کورس کی فیس تقریباً ۲۹؍ لاکھ روپے ہے۔ کوئی بات نہیں، والد صاحب دیں گے۔ پڑھائی کے لئے تو اس ملک کے ماں باپ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ لون لے لیں گے، گھر رہن پر رکھ دیں گے۔ بس ایک سرٹیفکیٹ مل جائے۔
 اب ہمارا بٹو ’کوالیفائی‘ ہوگیا۔ اگر وہی بٹو کہے، ’’پاپا مجھے اپنا کاروبار شروع کرنا ہے، آپ مجھے ۲؍ لاکھ روپے دے دو۔‘‘ تو.... ’’۲؍ لاکھ ایسے ہی دے دوں، ڈبونے کے لئے؟ نہیں، کورس کر نا بہتر ہوگا۔ ویسے بھی ہم نہیں چاہتے کہ تم در در بھٹکو، ٹھوکریں کھاؤ۔‘‘
 دیکھا جائے تو آج ہم ہر چھوٹی بڑی چیز کے لئے کسی نہ کسی پر منحصر ہیں۔ یہ ہے کوچنگ کلچر۔ جب مَیں اسکول میں پڑھتی تھی، ٹیوشن صرف وہ بچے جاتے تھے جو کمزور تھے۔ باقی اپنے استاد سے مدد مانگ لیتے، اور اپنے ہی دم پر دن رات محنت کرکے  امتحان پاس میں کامیاب ہوتے تھے۔
 سب سے پہلے انٹرنس ایگزام کی کوچنگ شروع ہوئی، اس کے بعد بورڈ ایگزام کے لئے۔ اب تو کے جی سے پی جی تک ہر طالب علم ایک ٹیوشن کلاس سے دوسری میں بھاگ رہا ہے۔ پڑھانے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے۔ اب کے جی کا بچہ بھی پڑھائی کو بوجھ سمجھتا ہے۔ اسکول کے بعد کھیلنے کودنے کا وقت ہی نہیں۔ لیکن اگر کھیلنا بھی ہے تو اس کیلئے بھی کوچنگ کلاس لینی ہوگی۔
 بچپن میں مجھے اسکیٹنگ کا شوق تھا۔ خوب ضد کی تو ممی پاپا نے اسکیٹس دلوا دیئے۔ پہن کر جب پہلی بار پیر رکھا تو سیدھی زمین پر پہنچ گئی۔ لیکن ۱۰؍ سے ۱۵؍ دن میں توازن برقرار رکھنا سیکھ لیا۔ اور پھر مَیں ایسی تیز رفتاری سے اسکیٹنگ چلاتی کہ سب دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔
 آج دیکھ رہی ہوں کہ اسکیٹنگ سکھانے کے لئے بچوں کو کوچنگ سینٹر بھیجا جاتا ہے۔ وہ ہیلمٹ بھی پہنتے ہیں، گھٹنے کے پیڈ بھی۔ گریں گے، تو چوٹ نہیں لگے گی۔ پھسلیں گے، تو کوئی سنبھال لے گا۔ لیکن گرنے پھسلنے سے اتنا خوف کیوں؟ اگر مخملی کارپٹ پر اسیکٹنگ کرنا ممکن ہوتا تو شاید ماں باپ کو اور بھی سکون ملتا، کیوں صحیح کہا نا؟
 لیکن زندگی کی راہ نرم اور دبیز قالین نہیں ہے۔ یہاں پتھر بھی ملتے ہیں، گڑھے بھی۔ کبھی کبھی اس پر ننگے پاؤں بھی چلنا پڑتا ہے۔ کانٹے چبھتے ہیں مگر درد بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جس بچے کو والدین معمولی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں اس کی راہ مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈیزائنر جوتے پہن کر کانٹوں بھری راہ پر چلنا کس طرح ممکن ہوگا؟ ایسے بچے گرنے کے بعد اس انتظار میں رہیں گے کہ کوئی اُن کا ہاتھ تھام لیں اور انہیں سنبھال لیں۔ لیکن مشکل راہ پر ہر کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یقیناً ماں باپ اپنی اولاد کی مشکل میں اس کا ساتھ دیتے ہیں مگر وہ بھی کب تک ساتھ دیں گے؟ کبھی نہ کبھی تو انہیں تنہا سفر کرنا ہوگا۔
 اسکیٹنگ ہو یا بزنس، اصول سادہ ہے۔ کچھ کرو، گرو، پڑو، اٹھو۔ پھر کچھ کرو، گرو، پڑو، اٹھو۔ ایسا کرتے کرتے آپ کو سیکھ مل جائے گی۔ کچھ نقصان بھی ہوگا مگر عقل آئے گی۔ گاہک کو سامان خریدنے کے لئے کس طرح آمادہ کیا جائے، کم رقم میں کہاں سے مٹیریل لانا ہے، حساب کتاب کس طرح لکھا جاتا ہے، کس میں فائدہ کس میں نقصان ہے؟
 آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بچہ دھیرے دھیرے چلنا سیکھتا ہے۔ پہلے وہ ایک قدم بڑھاتا ہے پھر دوسرا۔ بعض دفعہ بچہ لڑکھڑا کر گر جاتا ہے۔ لیکن ہمت نہیں ہارتا۔ وہ دوبارہ کوشش کرتا ہے۔ پھر سے کھڑا ہوتا ہے اور اپنا قدم بڑھاتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی مشق جاری رہتی ہے اور بالآخر وہ چلنا سیکھ جاتا ہے۔ لیکن اس عمل کے دوران اگر والدین بچوں کو بار بار سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچہ کا سیکھنے کا عمل دھیما ہوجاتا ہے۔ ایسا بچہ گرنے کے بعد بار بار والدین کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ اسے اٹھانے میں مدد کریں گے۔ یہی مدد بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ بچوں کو کم عمری ہی خودمختار بنائیں۔ انہیں اپنے کام خود کرنے دیں۔
 زندگی جینے کا ہنر کسی کوچنگ کلاس میں سکھایا نہیں جاسکتا۔ والدین اپنی تربیت کے ذریعے بچوں کو زندگی جینا سکھائیں۔ ہم انٹرنیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر شعبہ کی معلومات وہاں دستیاب ہے، بچے اسے سمجھ کر اپنے ذہن میں جذب کریں اور اس کی بار بار مشق کریں۔ قدرت کا اصول ہے، رکنا بھول ہے۔ آپ چپ چاپ کھڑے رہیں گے، مگر زمین چلتی رہے گی۔ اس لئے چلنا سیکھیں۔ اس بات کو والدین اچھی طرح سمجھیں اور اس کے مطابق بچوں کی تربیت کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK