Inquilab Logo

گرم خطوں میں آباد افراد گرمی کی شدت سے بچنے کیلئے مختلف تدابیر اپناتے ہیں

Updated: April 27, 2024, 3:51 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

مختلف اداروں نے گرم علاقوں کے باشندوں سے بات چیت کی، اس دوران یہ سامنے آیا کہ دوپہر ۱۲؍ سے ۳؍ کے درمیان اِن شہروں میں سناٹا چھاجاتا ہے اور انتہائی ضروری کام ہونے پر ہی گھر سے باہر نکلا جاتا ہے۔

The capital of India, New Delhi, is geographically located in the part of the world that experiences extreme cold and extreme heat. Photo: INN
ہندوستان کا دارالحکومت نئی دہلی جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اس حصے پر ہےجہاں شدید سردی اور شدید گرمی پڑتی ہے۔ تصویر : آئی این این

ممبئی میں گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا ہے کہ مئی اور جون بھی اتنے ہی یا اس سے زیادہ گرم ہوں گے۔ گرمی بڑھ جانے کی متعدد وجوہات میں سب سے اہم موسمی تبدیلی ہے جس کا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔
 علاوہ ازیں، ایل نینو کے سبب بھی کرہ ٔ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جو ہر ۲؍ سے ۷؍ سال کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس کے سبب عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ یہ عمل ۱۵؍ ماہ تک جاری رہتا ہے۔ ایل نینو میں سمندر کا درجہ حرارت بڑھنے سے ہوائیں گرم ہوجاتی ہیں۔
گرم خطوں میں آباد افراد کا حال
ڈیتھ ویلی، کیلیفورنیا
یہاں کی رہائشی برانڈی اسٹیوارٹ نے ۲۰۲۱ء میں بزنس انسائیڈر کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اگست اور جولائی میں موسم اس قدر گرم اور خشک ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلتے ہی گرمی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جلد پر سورج کی کرنیں ضرورت سے زیادہ تیز محسوس ہوتی ہیں۔ موسم کی طرح انسانی جلد بھی خشک ہوجاتی ہے۔ پسینہ آتا ہی نہیں کیونکہ اتنی گرمی میں یہ فوراً بھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے۔ ‘‘ 
 اسی انٹرویو میں پیٹرک ٹیلر نے بتایا کہ ’’جب آپ گھر میں اے سی میں بیٹھے ہوں تو گرمی کا احساس نہیں ہوتا لیکن گھر سے باہر آتے ہی لگتا ہے کہ کسی بھٹی کے کنارے کھڑے ہیں۔ ٹھنڈے سے گرم اورپھر گرم سے ٹھنڈے ماحول میں بار بار جانے کے سبب مختلف قسم کی بیماریوں کے خدشات، بطور خاص ہیٹ اسٹروک بڑھ جاتے ہیں۔ البتہ چند ہفتوں بعد انسانی جسم گرمی کی مطابقت سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے۔ کوئی نیا فرد جب اس علاقے میں رہائش کیلئے آتا ہے تو اسے موسم سے مطابقت حاصل کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔‘‘
 ڈیتھ ویلی میں کل ۸۰؍ مکانات ہیں۔ جو افراد یہاں دہائیوں سے رہ رہے ہیں، وہ موسم کی مناسبت سے اپنے آپ کو ڈھال چکے ہیں۔ یہاں موجود تمام گھر ایکدوسرے سے قریب ہیں تاکہ کسی ناگہانی کی صورت میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔
ڈیلول، ایتھوپیا
 ایتھوپیا کے ڈیلول کو ایسا علاقہ کہا جاتا ہے جہاں گرمی ضرور ہے لیکن یہ فطرت کے حسن سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں نمک کی جھیلیں اور مختلف قسم کے نباتات کی بہتات ہے۔ اس علاقے میں ’’افر پاستوریلسٹ‘‘ قبیلہ صدیوں سے آباد ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ افراد اتنے گرم علاقے میں بغیر اے سی کے رہتے ہیں۔ انہوں نے موسم کی مناسبت سے اپنے آپ کو ڈھال لیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبیلہ اتنے گرم علاقے میں صحیح سلامت رہنے کیلئے نسل در نسل نسخے پہنچاتا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں یہاں سیاحوں کی آمد اور کان کنی کی سرگرمیاں بڑھی ہیں جن کے سبب ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہاں کا ایکو سسٹم تباہ ہوجائے گا لہٰذا ایسی حکمت عملیاں بنائی جارہی ہیں جن کے سبب اس خطے کو محفوظ رکھا جاسکے۔ 
تربت، پاکستان
 پاکستان کے تربت میں صبح ۷؍ بجے ہی لوگ پسینے میں شرابور ہوجاتے ہیں۔ یہاں زراعت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اس لئے کاشتکار، دوپہر کے وقت درختوں اور کھیتوں میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ۱۲؍ سے ۳؍ بجے کے درمیان پورے شہر میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ انتہائی ضروری ہونے پر ہی لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں البتہ شام میں جب سورج کی تمازت کم ہونے لگتی ہے تو شہر کے ہوٹل اور ڈھابے بھرنے لگتے ہیں، اور رونق لوٹ آتی ہے۔ یہاں کے مقامی افراد بتاتے ہیں کہ لوگ رات رات بھر جاگتے اور کام کرتے ہیں جبکہ دن میں کم سے کم باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسان اپنے کپڑوں کو بھیگا کر رکھتے ہیں تاکہ جب ہوا چلے تو ان کے جسم کو ٹھنڈک پہنچے۔
 گرم خطوں میں آباد افراد کس طرح زندگی گزراتے ہیں ، ان تین علاقوں کے احوال سے قارئین کو یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں ایسے علاقے بھی ہیں جو اس قدر گرم ہیں کہ وہاں انسانوں کا آباد ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ 
گرمی کی شدت سے بچنے کیلئے 
گرم علاقوں کے افراد یہ کی تدابیر اپناتے ہیں
 یہاں کے افراد ہر وقت ہلکے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں جو سورج کی کم روشنی جذب کرتے ہیں اس لئے انہیں پہننے کے بعد گرمی کا احساس کم ہوتا ہے۔
اے سی، کولر، ٹیبل فین کے سامنے ٹھنڈے پانی کی بالٹی یا برف، یا سورج کی روشنی کم جذب کرنے والے پردوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں اب بازار میں ایسے پینٹ بھی ہیں جنہیں مکانات کی بیرونی دیواروں پر لگانے کے بعد دیواریں سورج کی روشنی کم جذب کرتی ہیں اور مکان اندر سے ٹھنڈا رہتا ہے۔
گرم خطے میں رہنے والے افراد چونکہ اس موسم میں رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں اس لئے انہیں گرمی کے دنوں میں زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ 
گرم خطوں کے افراد صبح جلدی اٹھ کر کام نمٹا لیتے ہیں، جب سورج سر پر آتا ہے تو آرام کرتے ہیں، پھر سورج ڈھلنے کے وقت دوبارہ کام شروع کرتے ہیں اور دیر رات تک کام کرتے رہتے ہیں۔
صحارا ریگستان میں آباد چامبا قبیلہ کے لوگ ایسے لباس پہنتے ہیں جن میں گرم ہوائیں، کپڑے اور جلد کے درمیان پھنس جاتی ہیں۔ اس طرح ان کی جلد پر گرم ہوا براہ راست نہیں پہنچتی ۔ 
دنیا کے دیگر گرم علاقے
صحرائے لوط، ایران (۸۰؍  ڈگری سیلسیس)
مطریبہ، کویت(۵۳ء۹؍ ڈگری سیلسیس)
الجزیرہ بارڈر گیٹ، امارت(۵۲ء۱؍ ڈگری سیلسیس)
میکسی کلی، میکسیکو(۵۲؍  ڈگری سیلسیس)
ڈیلول، ایتھوپیا (۳۴؍ ڈگری سیلسیس)
ہندوستان کے دیگر گرم شہر
واردھا، مہاراشٹر (۵۰؍ ڈگری سیلسیس)
آگرہ، اتر پردیش(۴۹؍ ڈگری سیلسیس)
بنڈہ، اتر پردیش(۴۸؍ ڈگری سیلسیس)
راما گڈم، تلنگانہ(۴۷ء۳؍ ڈگری سیلسیس)
وجے واڑہ، آندھرا پردیش (۴۵؍ ڈگری سیلسیس)
واضح رہے کہ یہ دنیا کے گرم ترین علاقے ہیں۔ بیان کیا گیا درجہ حرارت، ان علاقوں کا اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈڈ درجہ حرارت ہے۔ موسم سرما میں ان علاقوں کے درجہ حرارت میں بمشکل ۱۰؍ سے ۱۲؍ پوائنٹس کی کمی آتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK