Inquilab Logo

اُردو ادب کا نایاب نگینہ بشیر بدر صاحب

Updated: December 14, 2023, 5:23 PM IST | Farha Haider | Mumbai

بشیر بدر صاحب ۱۵؍ فروری ۱۹۳۵ء کوفیض آباد میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں پر لیکچرار کے عہدہ پرکافی عرصہ تک فائز رہے۔

Bashir Badr Sahib. Photo: INN
بشیر بدر صاحب۔ تصویر : آئی این این

اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اس خوبصورت شعر سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ شاعر کس اعلیٰ پائے کا ہے۔ 
بشیر بدر صاحب ۱۵؍ فروری ۱۹۳۵ء کوفیض آباد میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں پر لیکچرار کے عہدہ پرکافی عرصہ تک فائز رہے۔ پھر میرٹھ میں بھی اُنہوں نے ۱۷؍ سال اسی عہدہ کو دیئے۔ جس شہر نے اُنکو شہرت دی، بلندیاں دیں، اپنا پن اور محبت دی اسی شہر میں آپنے کتنے محبت بھرے نغمے لکھے۔ میرٹھ دنگوں میں یہ شہر پوری طرح برباد ہو چکا تھا، اُنکا گھر انکی کتابیں جن سے اُنکو عشق تھا کچھ نہ بچا، کافی دن وہ اپنے دوست کے ساتھ انکے گھر رہے۔ محبت اور امن کے شاعر کا دل گھائل ہو گیا، اور اُنہوں نے اپنی تکلیف اس شعر کے ذریعے بیان کی ہے:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں گھر بنانے میں 
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں 

 اُنکا دل ویران ہو گیا تھا اب اس شہر سے اُنکو انسیت نہ رہی، جسکو اُنہوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائیگا
 جو گلے ملوگے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے
ذرا فاصلے سے ملا کرو

انہوں نے ۷؍ سال کی عمر سے شعر و شاعری کا آغاز کیا۔ بشیر صاحب عام آدمی کے شاعر ہیں، اُنہوں نے بہت خبصورتی اور سلیقے سے زندگی کی عام باتوں کو اپنی غزلوں میں پرویا ہے، بشیر صاحب نے غزلوں کو ایک نیا چہرہ دیا۔ انکی اسی خوبصورتی سے میں بھی متاثر ہوں اور تبھی انکے بارے میں کچھ لکھنے کی جراءت کی۔ جب میں بی۔ اے۔ کر رہی تھی اس وقت میں نے آپکے بارے میں گهرائی سے مطالعہ کیا، تب مجھے ایک ایک شعر سمجھ آنے لگے اور اچھے لگنے لگے، اور میرے شوق و ذوق میں اضافہ ہوتا گیا۔ بشیر صاحب نے یہ شعر بٹوارے کے بعد لکھا تھا، جسے شملہ بٹوارہ کے وقت ذولفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی کو سنایا تھا:
دشمنی جم کے کرو مگر اتنی گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

اس محبت کے شاعر کو ۱۹۹۹ء میں پدم شری‘‘ اور اُردو کے ’’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ انکی غزلوں اور اشعار کے ترجمہ انگریزی اور فرینچ زبانوں میں بھی ملتے ہیں، گجراتی میں بھی انکی غزلوں کا مجموعہ موجود ہے۔ ’’کلیاتِ بشیر‘‘ کے علاوہ ۷؍ سے زیادہ اُردو میں اور ایک ہندی میں مجموعہ ملتا ہے۔ اُنہوں نے ۲؍ کتابیں بھی لکھیں ’’ آزادی کے بعد اُردو غزل کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ’’ بیسویں صدی میں اُردو غزل۔‘‘ 
بشیر صاحب تقریباً ۵۶؍ سال ہندی اور اردو میں بہت مقبول شاعر رہے، پوری دنیا کے دو درجن سے زیادہ ممالک کے مشاعروں میں شرکت کی۔ 
انکی ۶۹؍ اعزاز یافتہ اشعار انکے شاعرانہ تاج کے بیش قیمتی نگینہ ہیں۔ 
چند اشعار ملاحظہ ہوں :
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا

اتنی ملتی ہے میری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھکو میرا محبوب سمجھتے ہونگے

کچھ تو مجبوریاں رہیں ہونگی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

تمکو ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھےگا
مگر آنکھیں ہماری کہاں سے لائےگا 

تم محبت کو کھیل کہتے ہو 
ہمنے برباد زندگی کر لی

اس وقت آپ ڈیمینشیا جیسی بیماری سے گزر رہے ہیں، ایسے میں آپکی بیگم اور بیٹا نصرت آپکی بہت بڑی طاقت ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپکو صحت عطا کرے۔ آمین۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK