Inquilab Logo

اپنی آواز، بہر حال ہے اپنی آواز

Updated: November 30, 2023, 6:05 AM IST | Md Shabbir Faruqi | Mumbai

طلبہ و نوجوانوں کیلئے موثر اندازِ گفتگو کی اہمیت و افادیت

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ہم ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جی کی وہ تقریر سن رہے تھے جو انہوں نے گلاسگو میں اقوام ِ متحدہ کے زیر اہتمام منعقدہ سی او پی ۲۶؍ کے عالمی لیڈروں کے اجلاس میں کی۔سبھی جانتے کہ وزیر اعظم موصوف اپنے موثر انداز ِ خطابت کے لئے مشہور ہیں۔اس اجلاس میں ماحولیات کے تحفظ اور آبی و قدرتی وسائل کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی آواز اٹھانا ہماری ذمے داری ہے۔انہوں نے کہا کہ،’’یہاں میں ایک لفظ کی تحریک کی تجویز رکھتا ہوں اوروہ لفظ ہے زندگی … جو دراصل ماحولیات کے لئے ایک طرز زندگی ہے۔ ‘‘اس تقریر یا اجلاس کے موضوع سے قطع نظر،انسانی زندگی میں کامیابی کے لئے جس طرح پر اثر شخصیت کی اپنی اہمیت ہے بالکل اسی طرح کسی بھی کامیاب شخص کے لئے موثراندازِ گفتگو بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ درحقیقت گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے۔یہ سبھی نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ اتنی بہترین اور موثر انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ ان کی باتیں سچی اور اچھی لگتی ہیں۔اس کے برعکس کچھ لوگوں کا بات کرنے کا لہجہ اس قدرخراب ہوتا ہے کہ وہ اگر ہمارے بھلے کے لئے بھی کوئی بات کہہ رہے ہوں تو اس میں ہمیں برائی محسوس ہوتی ہے۔ اسی لئے اگر ہم اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور دیگر لوگوں پر اپنی شخصیت کی گہری چھاپ چھوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں بات چیت کے فن میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔عموماً ہمارے گھروں میں بچپن سے بچوں کو اس بات کی کوئی خاص تربیت نہیں دی جاتی۔جو بچہ اپنے گھر میں اور اپنے ماحول سے جیسے سیکھتا اور سنتا جاتا ہے،ویسے ہی سیکھتا چلاجاتا ہے۔ بیشتراسکولوں میں اساتذہ بھی طلبہ کی شخصیت کی نشوونما کے اس پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دے پاتے،جب کہ ان کے پاس کسی بھی بچے کو گفتگو میں ماہر بنانے کے لئے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔آج کے اس مضمون میں ہم والدین اور اساتذہ کے لئے بچوں کی ہمہ جہت نشوونماء کے انتہائی اہم پہلو یعنی انداز گفتگو اور اپنی بات منوانے کے فن پر مفصل گفتگو کریں گے۔
 کچھ لوگوں کا خیا ل ہے کہ اچھی گفتگو کرنا کچھ مخصوص لوگوں کا وصف ہوتا ہے توکچھ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ تو صرف سیاسی لیڈروں اور ماہر مقرروں کا فن ہوتا ہے۔لیکن اپنے مضمون کی ابتداء میں ہی یہ بات واضح کردیں کہ ہم باتوں کے جال میں الجھانے کی بات نہیں کررہے ہیں۔ہم صرف موثر انداز ِ گفتگو کی اہمیت پر ہی لکھیں گے۔حاضر جوابی بھلے ہی ایک قدرتی خوبی ہوتی ہے مگر ایک اچھا خطیب اور بروقت بولنے والا بننا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے،بس اس کے لئے کچھ خاص نکات پر خصوصی توجہ دینے اور شخصیت کے اس پہلو تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔فن گفتگو میں اپنی مہارت بڑھانے کے لئے سب سے پہلے اپنے بارے میں اس موضوع پر اچھی طرح جان لیجئے کہ کسی اجنبی سے بات کرنی پڑ جائے تو ہم کیسا محسوس کریں گے۔کیا ہم آسانی سے اس شخص سے بات کرپائیں گے یا اپنے آپ کو غیر اطمینان بخش محسوس کریں گے؟کئی نوجوانوں کوکسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے۔اس کی دو یا تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ شرمیلے مزاج کا ہو۔اپنے اسی شرمیلے پن کی وجہ سے کسی دوسرے سے یا خصوصاً اجنبیوں سے بات کرنے سے ہچکچاتا ہو۔بہت ہمت کے بعد اگر ایسا شخص گفتگو کا آغاز بھی کرلے تو زیادہ بول نہیں پاتا اور گفتگو کا سلسلہ بوجھل ہونے لگتا ہے اور نتیجتاً ماحول ناگوار ہوجاتا ہے۔دوسرا سبب خود اعتمادی کا فقدان ہوسکتا ہے۔لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعتماد کی کمی بھی ہماری شخصیت کو نکھرنے سے روک دیتی ہے۔اسی کمزوری کی وجہ سے کوئی شخص دوسروں کے سامنے اپنی بات کو موثر طور پر نہیں رکھ پاتا اور اس کی بات اپنی اہمیت کھودیتی ہیں۔عدم اعتمادی کے نتیجے میں ہم دوسروں کے سامنے اپنی بات نہ ہی کامیابی سے رکھ پاتے ہیں نہ ہی ان سے انہیں منواپاتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ خود اعتمادی کی کمی جس طرح شخصیت کی نشوونما میں حائل ہوتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی کسی شخص کی ترقی کے لئے یکساں نقصان دہ ہے۔اگر کوئی شخص بہت زیادہ بولتا ہے یااپنے مخاطب کو بولنے کا موقع نہیں دیتایا اس کی بات نہیں سنتا تو یہ بھی ایک کامیاب گفتگو کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ظاہر ہے جب کوئی شخص ایسا کرے گا تو ہر کوئی اس سے بات کرنے سے کترائے گا۔کسی نے ماہر نفسیات نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ،’’میرا خیال ہے کہ کچھ لوگ بلاوجہ بہت زیادہ بولتے رہتے ہیں۔بعض اوقات لوگ مجھ سے بات کررہے ہوتے ہیں اور میں اپنے ذہن میں سوچتا رہتا ہوں کہ کاش یہ اپنا منہ فوراً بند کرلے۔‘‘ اس لئے چاہے ہم شرمیلے ہوں یا ملنسار،کم بات کرنے والے ہوں یا زیادہ بولنے کے عادی،ہمیں ہروقت گفتگو کی مہارت کو بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان اپنے لڑکپن میں بولنا سیکھ جاتا ہے لیکن کون سی بات،کب اور کس انداز میں کہی جائے،یہ سیکھنے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔انسان تجربے کے ساتھ اور سنجیدگی میں اضافے سے یہ ہنر سیکھ پاتا ہے۔ہمارے ذہن میں آنے والے خیالات و احساسات کو دیگر لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ الفاظ ہوتے ہیں۔ایسا کرنا کبھی صحیح نہیں ہوتا کہ ہمارے ذہن میں جو باتیں موجود ہیں ہم انہیں بلاسوچے اپنے مخاطب سے کہہ دیں۔
ہماری عقل اور سمجھ ہی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے سامنے کیا کہنا ہے یا کون سی باتیں ظاہر نہیں کرنا ہے۔ہمارے ذہن میں بے شمار خیالات آئیں توبھی ہم بولتے وہی ہیں جنھیں ہمارا دماغ ہمیں بولنے کی اجازت دیتا ہے۔اس لئے فنَ گفتگو پر مہارت کے لئے غوروفکر اور تدبر بھی ضروری ہے۔
 اپنی بات کو دوسروں سے منوانا اور انہیں راضی کرلینا بھی اچھی بات کرنے والے کا ہی خاصہ ہوتا ہے۔کسی سے اپنی بات منوانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اسے یہ یقین دلا دیا جائے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اس سے بہتر ہے۔یہ یقین دلانے کے لئے بھی آپ کو کئی طرح سے سوچنا ہوگا کہ جیسے وہ بات نہ صرف آپ کے بلکہ اس کے فائدے کے لئے بھی ہے۔جب بھی آپ کسی سے کوئی بات منوانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے یہ ضرور جان لینا چاہئے کہ جس کام کے لئے ہم اس کی رضامندی چاہتے ہیں،اس پر اس شخص کی رائے کیا ہے۔اس کے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے۔اگر پہلے وہ ایسی باتوں پر رضامند نہ ہوتو بعد میں اس کی رضامندی حاصل کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔اگر ایسا محسوس ہوتو اس میں پہلے ہی اس کی دلچسپی کی چیزیں ڈھونڈھ لیں تاکہ ان کی بنیاد پر اسے منانا آسان ہوجائے۔ اگر آپ کویہ اندازہ ہو کہ سامنے والا آپ کی بات سے غصہ ہوسکتا ہے تو بہتر ہوگا کہ اس سے اکیلے میں بات کرنے کی بجائے کئی لوگوں کی موجودگی میں اس سے بات کی جائے۔کسی کو کسی بات پر اپنے ساتھ لانے کے لئے پہلے اس کے بارے میں ہر بات جان لیں،اس کی پسند کے مطابق کچھ چیزیں اپنی عادتوں میں شامل کریں اور کچھ چیزیں اپنی دلچسپی کی اس کے لئے لے کر جائیں۔اپنی بات رکھنے کے بعد مخاطب سے اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے اس پر کسی طرح کا دباؤ نہ بنائیں۔بہتر یہ ہوگا کہ اپنی بات رکھنے کے بعد آپ سکون سے اس کے سامنے بیٹھے رہیں۔کسی کو اگر باہر لے کر جانا ہی ہے تو چائے کافی کے بجائے اسے کھانے پر لے جائیں۔مثل مشہور ہے کہ کسی بھی انسان کے دل تک پہنچنے کا راستہ اس کے پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے۔پھر اُسی طرح سے آپ کو اس شخص کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کا موقع بھی میسر آجائے گا۔ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنی باتوں پر رضامند کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے جملوں میں صفاتی الفاظ کے بجائے اَفعالی لفظوں کا انتخاب کریں۔ اس طرح کے جملے کسی شخص کوآپ کا کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور آپ کے بات کرنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ڈر یا خوف ایسی چیز ہے جو کسی بھی شخص کو آپ کی بات ماننے پر مجبور کرتی ہے۔آپ چاہیں تو سامنے والے کے کسی ڈر کا حل بتاتے ہوئے ہم اپنی بات اس سے منواسکتے ہیں۔کسی شخص سے اپنی بات منوانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اُسے اپنے خاندان یا فیمیلی کے کسی بزرگ شخص کی خوشی یا ان کے جذبات سے جوڑ دیا جائے۔یہ بات سامنے والے شخص میں آپ کی بات کے متعلق ایک الگ نوعیت کا اعتماد بھی پیدا کرتی ہے۔بات کوئی بھی ہو اور کیسی بھی ہو،اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی باتوں کو سنجیدگی سے لیں تو بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی حرکات و سکنات اور چہرے کے تاثرات پر خصوصی توجہ دیجئے۔یہ صفت آپ کی باتوں کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے اور لوگ آپ کی باتوں پر یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔ایسا کرنے سے اس بات کی قبولیت کا امکان خودبخود ہی بڑھ جاتا ہے۔ایک اہم بات یہ بھی کہ دھیرے دھیرے کوئی بات کہنا اس میں سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کردیتا ہے۔اس لئے جو بھی کہنا ہے اسے جلدی سے کہیں،اسے بہت زیادہ یا غیر ضروری طول بالکل نہ دیں۔
 بات چیت کی کامیابی کے لئے صحیح وقت کا انتخاب بھی یکساں اہم ہوتا ہے۔اگر ہمارا مخاطب کسی دیگر کام میں مشغول ہے اور اس کا دھیان کہیں اور لگا ہوا ہے تو یہ اپنی بات رکھنے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ہوسکتا ہے کہ اپنی مصروفیت میں وہ آپ بات ہی نہ سنے۔ بہتر ہوگا کہ جب وہ شخص خالی ہو اور اطمینان کے موڈ میں ہو تو اسی وقت اپنی بات رکھیں۔باتوں کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے آس پاس کی چیزوں پر بات کرتے رہنا بھی اچھی بات ہوسکتی ہے۔نئے اور موزوں سوالات کی مدد سے بھی گفتگو کو جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے۔گفتگو کی کامیابی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہم دوران ِ گفتگو مخاطب کی بات کے اہم پہلوؤں کو سن کر ان کی تائید،پزیرائی و حمایت ضرور کریں۔دراصل حوصلہ افزائی و پزیرائی کسی سے گفتگو کے وقت ایک ٹانک کا کام کرتی ہے۔بات چیت میں بحث و مباحثے سے گریز کریں۔ہر بات میں بحث کرنا،انا کی ایک ایسی لڑائی ہوتی ہے جس میں صرف چلانے کی ایک لاحاصل مشق ہوتی ہے۔چیخنے یا چلانے سے ہم اپنی باتوں کو ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔آواز بلند کرنے کی بجائے اپنی باتوں میں دلائل سے وزن پیدا کرنا زیادہ ضروری ہے۔دلائل پر مبنی گفتگو کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ گفتگو کا فن اچھی کتابوں کا مطالعہ کرکے، دوسروں کو دیکھ کر اور سن کر،اچھا بولنے والوں کا بغور مشاہدہ کرکے اور ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرکے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ابراہم لنکن نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ اگر میرے پاس ایک ڈالر ہو، تمہارے پاس ایک ڈالر ہواور وہ ڈالر ہم ادلا بدلی کرلین تو ہم دونوں کے پاس ایک ہی ڈالر ہوگا۔لیکن اگر میرے پاس ایک خیال ہو اور آپ کے پاس ایک خیال ہو،اور ہم اسے ادلا بدلی کرلیں تو ہم دونوں کے پاس دو خیال ہوجائیں گے۔زندگی کے حوالے سے اپنے تجربات،مشاہدات اور خیالات شئیر کرنے سے ہم دراصل کئی انسانوں کی روح میں جان ڈال دیتے ہیں۔کامیاب گفتگو کرنے والا اپنی بات چیت میں آسان اور واضح زبان کا استعمال کرتا ہے۔بات چیت میں مشکل الفاظ کا انتخاب اور غیر مبہم زبان کا استعمال گفتگو کو بے نتیجہ بناسکتا ہے۔حتمی بات یہ ہے کہ اپنے اندازِ گفتگو سے ہم دیگر لوگوں کو خوشیاں،مسرتیں،خود اعتمادی،امید،اعتماد اور خودآگہی جیسے ڈھیر سارے تحفے اپنی جانب سے پیش کرسکتے ہیں۔واقعی،حساس و کارآمد گفتگو زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK