Inquilab Logo

جوش ملیح آبادی کا سفر اُن کے نواسے عصمت ملیح آبادی کی زبانی

Updated: September 07, 2023, 8:16 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ودیان ہندو پی جی کے کالج کے شعبۂ اردو اور یوپی اردو اکیڈمی کے بھی سابق صدر عصمت ملیح آبادی (دیکھئے تصویر) سے گفتگو پر مبنی تحریر۔ جوش صاحب رشتے میں عصمت ملیح آبادی کے نانا تھے۔

Josh Malihabadi. Photo: INN
جوش ملیح آبادی۔ تصویر: آئی این این

شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی اردو کے وہ قادر الکلام شاعر تھے جنہیں بیک وقت شاعر فطرت، شاعر شباب اور شاعر انقلاب ہونے کا شرف حاصل تھا ۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ان کی انقلابی نظمیں ملک کی آزادی کے متوالوں کا نعرۂ انقلاب بنیں۔ انہیں الفاظ کے استعمال پر بڑی قابل رشک قدرت حاصل تھی ،کہا جاتا ہے کہ الفاظ ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ جوش کو نثر نگاری پر بھی بڑی قدرت حاصل تھی ۔ ان کی خودنوشت ’یادوں کی بارات‘ اردو نثر نگاری کا اعلیٰ نمونہ قرار دی گئی۔ اس نمائندہ سے ملاقات کے دوران عصمت ملیح آبادی نے اپنے نانا سے متعلق کچھ تو ایسی یادیں تازہ کیں جن کے وہ خود گواہ ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو اُنہیں اُن کے بزرگوں نے بتائیں...آئیے سنتے ہیں اُنہیں کی زبانی ...
 ’’جوش ملیح آبادی صاحب نے یادوں کی بارات میں اپنی جس جاگیردارانہ زندگی کا تذکرہ کیا ہے یا واقعات بیان کئے ہیں، ان کی کوئی بھی جھلک میں نے اپنے بچپن میں کبھی نہیں دیکھی اور آج بھی نہیں دیکھتا ہوں۔ ان کے پردادا فقیر محمد خاں گویا صاحب دیوان شاعر، انوارِ سہیلی کے بہترین مترجم اور نصیر الدین حیدر کی فوج میں رسالدار تھے ۔ لکھنؤ میں دو احاطے ، احاطہ فقیر محمد خاں خام اور احاطہ فقیر محمد خاں پختہ آج بھی موجود ہیں۔ ملیح آباد میں ان کی تعمیر کردہ عالیشان بارہ دری اور ۶؍ محلات بھی موجود ہیں۔ 
 بشیر احمد خاں جس ’قصر گویا‘ میں رہا کرتے تھے ، یہ وہی محل ہے جس میں سب سے پہلے فلم ’’جنون‘‘ کی شوٹنگ ہوئی تھی اور سردار جعفری نے اپنا سیریل ’’کہکشاں‘‘ بھی اسی حویلی میں بنایا تھا۔ لیکن جوش ملیح آبادی اس حویلی میں کبھی نہیں رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جوش کے والد اور چچا میں کسی بات پر زبردست فوجداری ہو گئی تھی اور اس کا مقدمہ انگریز جج کی عدالت میں چل رہا تھا ۔ اِس میں امکان تھا کہ بشیر احمد خاں کو سزا ہو جائے گی۔ تب اودھ کے کچھ رجواڑے درمیان میں آئے اور انہوں نے دونوں بھائیوں میں صلح کرا دی تاکہ بشیر احمد خاں سزا سے بچ جائیں لیکن بشیر احمد خاں کے بڑے بھائی محمد اسحا ق خاں نے یہ شرط رکھ دی کہ بشیر احمد خاں اس حویلی سے دستبردار ہو جائیں۔ بشیر احمد خاں نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور فوری طور پر ایک دوسرا مکان تعمیر کروا کر اس میں رہنے لگے۔ وہ مکان آج بھی محلہ مرزا گنج (ملیح آباد) میں موجود ہے۔ چند برس قبل تک میں نے دیکھا تھا کہ جوش صاحب جس دالان میں پیداہوئے تھے اس میں پلنگ کے اوپر دَھنّی میں ایک آیت چسپاں تھی جو ان کے والد نے جوش صاحب کے پیدا ہونے کی نسبت سے لگوائی تھی۔ جوش صاحب ۱۹۲۴ء میں ملازمت کے سلسلہ میں حیدر آباد چلے گئے تھے اور ۳۴ ۱۹ءتک حیدر آباد میں مقیم رہے ۔ پھر دہلی میں آکر محکمہ اطلاعات میں ملازمت کر لی۔ بعد میں ’’ آج کل‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ میری پیدائش ۱۹۴۶ء کی ہے۔ یعنی ۵۰ء تک میںنے جوش صاحب کو نہیں دیکھا تھا۔ ہمارا رشتہ یوں ہے کہ میری نانی حشمت آراء بیگم جوش صاحب کی سگی بہن تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جوش صاحب ایک مرتبہ میرے گائوں بختیار نگر (ملیح آباد) تشریف لائے اور نانی کے محل میں قیام کیا۔ جانے کیا اتفاق تھا کہ وہ اپنے ساتھ ایک نیا جوتا لے کر آئے تھے جسے انہوں نے نانی کے گھر میں ہی تبدیل کیا اور پرانا جوتا وہیں چھوڑ کر واپس ہوگئے۔ میری نانی اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اور انہیں آکا بھائی کہتی تھیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ساری زندگی انہوں نے جوش صاحب کے پرانے جوتے کو اپنی الماری میں محفوظ رکھا۔ جب بھی الماری کھولتی تھیں، اس جوتے کی بلائیں لیا کرتی تھیں۔ وہ ٹیلی ویژن کا زمانہ نہیں تھا، لہٰذا جوش صاحب ریڈیو پر جب کوئی نظم پڑھتے تھے تو نانی ریڈیو کی بھی بلائیں لیتی تھیں۔ 
 ملیح آباد میں جوش صاحب کا آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ملیح آباد تشریف لائے اور کئی دن تک اپنے ہم زلف اشفاق حسن خاں کے یہاں قیام کیا۔ اشفاق صاحب کے مکان کے کوٹھے پر جو باہری حصہ تھا وہاں شام کو محفلیں سجتی تھیں۔ ملیح آباد کے بہت سے ادب نواز اور جوش صاحب کے خاندان کے افراد وہاں جمع ہوتے تھے ۔ میں بھی اکثر اپنے والد کے ساتھ بختیارنگر سے اس محفل میں شرکت کرنے مرزا گنج جایا کرتا تھا ۔ اسی محفل میں ہمارے ایک عزیز آیا کرتے تھے جن کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور سیاہ رامپوری ٹوپی لگاتے تھے ۔ وہ جوش صاحب کے کلام کو بڑے غور سے سنتے تھے لیکن چہرے پر اتنی تندی اور تلخی تھی کہ اچھے سے اچھا شعر سننے کے باوجود ان کے چہرے پر کوئی تغیر نہیں ہوتا تھا۔ جوش صاحب نے دو دن تو انہیں برداشت کیا۔ پھر کہنے لگے اگر کل سے یہ صاحب آئیں گے تو میں کلام نہیں سنائوں گا۔ ا انہوں نے دو دن کلام نہیں سنایا ۔ جب مذکورہ صاحب نے آنا ترک کر دیا تب وہ محفل دوبارہ سجی۔
  جوش صاحب تین بھائی تھے اور چار بہنیں تھیں۔ بڑے بھائی شفیع احمد خاں ولی ملیح آبادی بھی شاعر تھے ۔ خصوصاً رباعی بہت اچھی کہتے تھے ۔ لیکن جوش صاحب کے ان سے تعلقات اچھے نہیں تھے جبکہ چھوٹے بھائی رئیس احمد خاں اور جوش صاحب ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ شفیع احمد خاں کسی موقع پر بھی جوش صاحب پر طنز کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ بھائیوں کی طرف سے بہنوں کو جو وثیقہ ملتا تھا اس میں جوش ۳۰؍ روپیہ ماہانہ ایک بہن کو دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ وہ، جوش صاحب کی کوٹھی ’قصر سحر‘ واقع امانی گنج (ملیح آباد)میں اپنا وثیقہ لینے گئیں۔ اتفاق سے جوش صاحب کے پاس پندرہ ہی روپے تھے ۔ انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ پندرہ روپے لے جائو لیکن رسید تیس روپئے کی دیتی جائو، پندرہ ہم تمہیں بعد میں بھجوا دیں گے۔ یہ واقعہ شفیع احمد خاں کے علم میں آیا تو انہوں نے ایک رباعی کہی : 
ادب کے گھوڑے پہ چڑھ کر جگہ سئیس کی لی 
گلیم امروئے اوڑھی، زباں انیس کی لی 
جناب جوش کی شانِ کرم سبحان اللہ 
بہن کو پندرہ دے کر رسید تیس کی لی 
 جوش صاحب کے ساتھ میری بڑی خالہ قریشہ بیگم بھی دہلی میں رہتی تھیں، وہ جوش صاحب کے بھتیجے یعنی شفیع احمد خاں کے فرزند علی حمزہ خاں شعور ملیح آباد ی سے منسوب تھیں۔ اسرائیل احمد خاں اس زمانے میں جوش صاحب کے بڑے دوست اور اردو کے ادیب تھے ۔ ان کی بیوی بڑی حسین و جمیل تھیں ۔ جوش صاحب ان سے عشق فرماتے تھے۔ ان کے بال بہت لمبے تھے ۔ اکثر ان کا آنا جانا جوش صاحب کے گھر میں رہتا تھا ۔ جوش صاحب کی بیوی نے میری خالہ کو سمجھایا کہ جب یہ خاتون گھر آئیں تو تم کہنا کہ’’آپ کے بال تو گھوڑے کے دُم جیسے ہیں۔‘‘ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ بات جوش صاحب کی اہلیہ نے سکھائی ہوگی۔ ذہین خاتون تھیں، فوراً جواب دیا ’’ لیکن بٹیا، کیا کیا جائے جوش صاحب کو گھوڑے کی دُم ہی پسند ہے۔‘‘ 
 جوش ـصاحب دسمبر ۱۹۵۶ءکے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کر گئےتھے اور یکم جنوری ۱۹۵۷کو مع سرو سامان کراچی میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان ہجرت کے سلسلہ میں لوگوں کی مختلف آراء ہیں لیکن ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل احمد خاں مع اپنی اہلیہ کے جوش صاحب سے قبل ہی پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور جوش صاحب کو اپنی محبوبہ کی جدائی راس نہیں آرہی تھی ۔ 
 پاکستان میں میری جوش صاحب سے دو طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک کراچی میں، دوسری اسلام آباد میں۔ تب مجھےان کی نفسیات اور ان کے روز مرہ کے معمول کو سمجھنے کے بہت سے مواقع ملے۔جوش صاحب بڑے نیک طینت انسان تھے ۔ نرم گفتار تھے۔ اپنے چھوٹوں اور عزیزوں سے محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ میں نے کبھی جوش صاحب کو غضبناک نہیں دیکھا۔ شام کو اکثر ان کی قیام گاہ پر محفلیں سج جاتی تھیں جن میں جوش صاحب اپنا کلام سناتے تھے۔
  اسلام آباد میں میرے والد واحد خاں مائل ملیح آبادی اور والدہ جوش صاحب سے ملاقات کی غرض سے قیام کئے ہوئے تھے اور میں نے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کر لیا تھا۔ اسے جوش صاحب کو سنانے کی غرض سے میں نے بھی پاکستان کا سفر کیا اور پورا مقالہ جوش صاحب کو سنایا، فرمانے لگے: ’’جب میں ہندوستان میں تھا تو میرے خاندان کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ اب میرے خاندان کے بچے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ کاش میں ہندوستان میں ہوتا تو تم لوگوں کو اعلیٰ منصبوں پر فائز کراتا۔‘‘ یہ کہنے کے بعد ایک شعر پڑھا جو مجھے اب بھی یاد ہے:
لکھنؤ تیری وہ ساری رنگ رلیاں دل میں ہیں
پہلے جو زیر قدم تھیں اب وہ گلیاں دل میں ہیں
پھر سوال کیا ’’میرے لکھنؤ کا کچھ حال بتائو!‘‘ 
میں نے کہا کہ ’’ٹیلہ والی مسجد سے حضرت گنج تک گومتی کے کنارے کنارے جو سڑک ہے وہ اب انتہائی خوبصورت لگتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے حسین خاتون کی مانگ میں سندور بھر دیا ہو۔‘‘ برجستہ بولے۔’’ ہائے ہائے ہم بیا باں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے۔‘‘ پھر مغرب کا وقت ہوگیا۔ مؤذن نے اذان دینا شروع کی۔ میرے والد نے مغرب کی نماز کیلئےنیت باندھ لی ۔ جوش صاحب نے انہیں بہت غور سے دیکھا اور مذاق کے طور پر فرمایا:’’ ہائے ہائے کوئی کہتا تو یقین نہ ہوتا کہ واحد خاں نماز بھی پڑھتے ہیں، اب تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘ میرے والد نے سلام پھیر کر کہا ’’ ماموں یہ بچپن سے کان میں پڑا ہوا ہے‘‘… کہنے لگے ’’افسوس افسوس کانوں پر یقین کرتے ہو، حالانکہ میں اس منزل سے گزر چکا ہوں۔ میں نے لمبے عرصے تک نمازیں پڑھی ہیں، مراقبے کئے ہیں۔ اگربتیاںسلگا کر اپنے اللہ کو یاد کرتا تھا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ جس خدا کو تم لوگ مانتے ہو ، شاید میرا خدا اس سے کہیں عظیم ہے۔‘‘ پھر خدا کے حضور کلام پاک اور عبادت جیسے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ۔ تقریباً پندرہ دن میں نے ان کے ساتھ قیام کیا اور دیکھا کہ جوش صاحب بہت صبح بیدار ہو جاتے ہیں۔ سڑک پر نکلنے کے بجائے کمرے کی کھڑکیاں کھول کر لمبی لمبی سانسیں بھرتے اور صبح کی ہوا جذب کرنے کی کوشش کرتے۔ میز پر لغت آنند راج کی جلدیں رکھی ہیں۔ ایک بہت ضخیم اور لمبا رجسٹر رکھا ہوا ہے جو ان کا روزنامچہ ہے اور جس میں وہ روز کے واقعات درج کرتے ۔ 
جوش صاحب جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی رئیس احمد صاحب سے بہت محبت کرتھے تھے ۔ خاص طور سے ملیح آباد اور ہندوستان سے انہیں دلی محبت تھی۔ ایک خط میں اپنے بھائی رئیس احمد خاں کو تحریر فرماتے ہیں:
 ’’ رئیس سوچو تو سہی کبھی خواب میں بھی یہ خیال آ سکتا تھا کہ ہم دونوں بھائی فاصلوں کے اتنے سروں پر رہیں گے کہ لاکھ جی چاہے آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں سکیں گے۔ میرے باغوں میں جو بور آنے والاہے ان کی خوشبو سے اور جو کوئلیں بولنے والی ہیں ان کی کوک سے مجھ بدنصیب کا سلام کہنا اور گھر کے اس گوشے سے بھی میرا سلام کہنا جو میری پہلی آواز گریہ سے گونج اٹھا تھا۔ میرے ماں باپ کی قبروں سے جاکر کہہ دینا کہ بدنصیب جوش کو اس بات کا بہت قلق ہے کہ اب اس کی قبر ان کے پائتی نہیں بن سکے گی۔تمہارا ،پردیس میں گھٹ گھٹ کر مر جانے والا بھائی ،جوش ‘‘ 
جوش صاحب کامعمول یہ تھا کہ شام کو غرارہ ضرور کرتے تھے ۔ شاید یہی وجہ ہےکہ مشاعروں میں ان کی آواز کی گھن گرج کبھی کم نہیں ہوتی تھی ۔ تنزیب کا کرتہ اور بڑے پائنچوں کا پائجامہ گھر میں پہنتے تھے اور گھر سے نکل کر کہیں جانا ہوتا تھا تو شیروانی زیب تن کر لیتے تھے ۔ جس کے بٹن اوپر تک لگے ہوتے تھے۔ بقول ان کے’’ ان کی زندگی گھڑی کی سوئیوں کی طرح چلتی تھی۔‘‘ وقت کے بہت پابند تھے ۔ اگر کسی سے تین بجے آنے کا وعدہ کیا ہے تو تین بجے ہی پہنچ جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ لکھنؤ میں جب تشریف رکھتے تھے تو ان کا قیام گھئی صاحب کی کوٹھی پر تھا جو ’’ کارٹن ‘‘ ہوٹل کے سامنے واقع تھی ۔ گھئی صاحب رائل کیفے کے مالک تھے ۔ جوش صاحب کہیں جانا بھی چاہتے تھے تو گھئی صاحب انہیں وہاں سے جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ انہیں دنوں لکھنؤ کےایک صاحب ہادی سکندر سعودی عرب سے لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔ وہ مولوی گنج میں رہتے تھے اور میرا قیام بھی مولوی گنج میں تھا۔ مَیں پڑھائی کے سلسلہ میں مولوی گنج میں رہتا تھا۔ ہادی صاحب نے کہا کہ ’’جوش صاحب لکھنؤ آئے ہوئے ہیں، کیا تم انہیں میری قیام گاہ پر لا سکتے ہو۔‘‘ میں نے کہا کہ’’ ٹھیک ہے میں لے آئوں گا، میرے کہنےسے وہ آپ کے یہاں تشریف لے آئیں گے۔‘‘ میں نے گھئی صاحب کے یہاں جا کر ان سے پورا واقعہ بیان کیا اور جوش صاحب سے ان کے مکان پر آنے کی درخواست کی۔ جوش صاحب پہلے تو ناراض ہوئے کہ ’’تم نے مجھ سے پوچھے بغیر وعدہ کیسے کر لیا ، ٹھیک ہے جب تم نے وعدہ کر لیا ہے تو چلوںگا ،ٹھیک چار بجے آ جانا۔‘‘ میں شکلا بک ڈپو کے مالک کی گاڑی سے جب پہنچا تو ساڑھے چار بج گئے تھے ۔ جوش صاحب برہم ہو گئے ۔ ’’جب چار بجے کا وعدہ کیا تھا تو ساڑھے چار پر کیوں آئے ہو۔‘‘ خیر میرے معذرت کرنے پر وہ چلنے کیلئے تیار ہو گئے ۔ 
ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد دہلوی پاکستان میں ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ جب صہبا لکھنوی کے ’’افکار‘‘ جیسے رسالہ میں جوش نمبر، جوش صاحب کی تعریف میں شائع ہوا تو شاہد احمد دہلوی نے ماہنامہ ساقی کا اتنا ہی ضخیم یعنی تقریباً ۷۰۰ ؍ صفحات پر مشتمل جوش نمبر شائع کیا جس میں تمام جوش صاحب کےمخالفین کی نظمیں جمع کر دیں اور اپنے اس غم کا مداواکر لیا جو جوش ـصاحب کے ایک جملے سے انہیں پہنچا تھا ۔ یعنی یہ کہ جوش صاحب نے کسی محفل میں کہہ دیا تھا کہ شاہد احمد دہلوی کےنانا ڈپٹی نذیر احمد کو اردو نہیں آتی تھی۔ یہی معاملہ حفیظ جالندھری کے سامنے بھی پیش آیا۔ جوش صاحب کو جب حفیظ جالندھری نے اپنا شاہنامہ اسلام پیش کیا تو جوش صاحب نے برجستہ کہا ’’اسلام کو شاہی سے کیا تعلق ہے؟ اور ایک شعر بھی کہا :
شاہنامۂ اسلام کے لکھنے والے =اسلام کو شاہی سے تعلق کیا ہے 
تو اس طرح جوش صاحب اکثر اپنے مخالفین پیدا کرتے تھے۔ اتفاق سے اقبال اور حفیظ جالندھری دونوں پنجابی تھے اور جوش صاحب دونوں کے مخالف تھے ۔ ساتھ ہی پاکستان میں پنجاپیوں کا غلبہ تھا، یہی وجہ ہے کہ جوش صاحب کو پسند کرنے والوں میں وہاں پنجابی نہیں تھے، مہاجر اور پٹھا ن تھے ۔ جوش صاحب نے پاکستان کے بہت بڑے پیر دیول شریف کو اپنا پیر تسلیم کر لیا تھا اور یہ وصیت کر دی تھی کہ میری نماز جنازہ پیر دیول شریف ہی پڑھائیں گے۔ چنانچہ۲۲؍ فروری ۱۹۸۲ء کوان کے انتقال کے بعد جب تک پیر دیول شریف آنہیں گئے میت کوٹھی پر رکھی رہی ۔ جوش صاحب کےجنازے کی دو نمازیں ہوئیں۔ ایک پیر دیول شریف نے پڑھائی اور دوسری کسی شیعہ عالم نے پڑھائی اور ان کے احباب کی کثیر تعداد کے درمیان اسلام آبادکے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ کسی نے جوش صاحب کے مصرعہ سے ان کا قطعہ تاریخ نکالا: 
کیوں اہل نظر پڑھیں نہ کلمہ میرا 
میں شاعر آخر الزماں ہوں اے جوش 
شاعر آخر الزماں سے ۱۹۸۲ کے عدد نکلتے ہیں۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK