EPAPER
Updated: September 21, 2023, 8:18 PM IST | Farzana Shahid | Mumbai
اللہ رب العزت نے دنیا میں انسانوں کیلئے بہت ہی خوبصورت رشتے بنائے ہیں۔ ہر رشتہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔والدین کا رشتہ،ددھیال سے رشتہ،ننھیال سے رشتہ،وغیرہ۔ ان تمام رشتوں میں ایک بہترین رشتہ ماں بیٹی کا ہےجو بیک وقت کئی کردار خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے۔ وہ ماں، بہن ، بیٹی اور سب سے بڑھ کر دوست ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے دنیا میں انسانوں کیلئے بہت ہی خوبصورت رشتے بنائے ہیں۔ ہر رشتہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔والدین کا رشتہ،ددھیال سے رشتہ،ننھیال سے رشتہ،وغیرہ۔ ان تمام رشتوں میں ایک بہترین رشتہ ماں بیٹی کا ہےجو بیک وقت کئی کردار خوش اسلوبی سے نبھاتی ہے۔ وہ ماں، بہن ، بیٹی اور سب سے بڑھ کر دوست ہوتی ہے۔
اکثر گھرانوں میں ماں بیٹی ہم خیال نہیں ہوتیں۔اس کی وجہ کیا ہے؟ جب بچیاں سن بلوغت کو پہنچتی ہیں تو ان میں متعدد جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ مائیں اپنی زندگی کے تجربے کی بنا پر ان پر روک ٹوک کرتی ہیں کہ بچیاں محتاط رہیں اپنا خیال رکھیں جو غلطی عمر کے اس حصے میں ماؤں سے ہوچکی ہیں وہ غلطی بچیاں نہ کریں لیکن یہ زندگی کا ایک ایسا موڑ ہوتا ہے کے اس لا ابالی وقت میں ان بچیوں کو بالکل اچھا نہیں لگتا کہ انہیں کوئی روکے یا ٹوکے اور خاص طور پر انہیں ماں کی روک ٹوک بالکل پسند نہیں آتی ہے۔اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ ان دونوں کے مابین باقاعدہ بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے۔اور جب ان کی اس طرح کی آوازیں گھر والوں اور باہر کے لوگوں کے کان میں پہنچتی ہیں تو لوگ بغیر حقیقت کو جانے اس بات کو جج کرلیتے ہیںکہ ان دونوں میں تو کبھی بنتی ہی نہیں، لڑکی بڑی زبان دراز ہے،بہت زیادہ ماڈرن ہے وغیرہ وغیرہ۔
دراصل عمر کے اس حصے میں بیٹیوں کو ایک ایسی دوست کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی ہر بات کو سنے۔علم نفسیات کے ماہرین نے دوران بلوغت جسے انگریزی زبان میں ٹین ایج کہا جاتا ہے۔ ان بچوں پر کافی ریسرچ کی ہے۔ اور ثابت کیا ہے کہ اس عمر کے بچوں کے جذبات میں بہت زیادہ ہیجان اور طلاطم رہتا ہے۔عمر کے اس دور میں بچوں پر جذبات کا شدید دباواور غلبہ رہتا ہے ۔جبکہ جذبات کو قابو کرنے والے عقلی اور شعور ی سنسز ابھی مکمل طورپر موثراور متحرک نہیں ہوچکےہوتے ۔جس کی وجہ سے اس عمر کے بچے عقل وشعور سے زیادہ جذبات کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔
اس دوران چونکہ بچوں کے جنسی غدود متحرک ہونے کی وجہ سے بچے مختلف جنسی اور جذباتی تبدیلیوں سے گزررہے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ نہ تو کمسن بچوں کی طرح اپنے والدین کے قابو میں ہوتے ہیں۔نہ ہی باشعور افراد کی طرح اپنے رویوں پر خود کو مکمل قابو میں رکھ پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ دورتربیت کرنے والے والدین، اساتذہ اور خودان بچوں کے لئےبھی آزمائش کا دور ہوتاہے۔
دور حاضر میں خاص کر بچیاں والدین سے ذرا دور جبکہ سہیلیوں سے زیادہ قریب ہوتی ہیں بلکہ ہروقت سہیلیوں کے ساتھ موبائیل پر بات کرنا یا ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنانا، وقت کا بالکل خیال نہ رکھنا ,اس قسم کی عادتیں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔ان کے رویوں میں روکھاپن زیادہ ہوتاہے۔ ان میں ضداور ہٹ دھرمی بھی پیداہوجاتی ہے۔وہ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اوربسااوقات وہ اپنے والدین اور اساتذہ کی بات بھی ماننے کو تیارنہیں ہوتی ہیں۔
جب بچیاں ایسے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں انہیں ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں ان کی ہر بات پر ان کی تعریف کریں ۔ان کو ہر وقت کسی نہ کسی بات پر شاباشی دیں تب ہی ان کے رویے میں مثبت پہلو کی امید کی جا سکتی ہے۔والدین خاص کر ماؤں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہیں۔انہیں اپنے ماں کے کردار سے باہر نکل کر ایک دوست کے کردار میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچیاں اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لیتی ہیں جہاں وہ ماں کو اپنا بہترین دوست سمجھتی ہیں یا پھر اپنی خوشیوں کی دشمن...ان سب باتوں میں ماں بیٹی کا مضبوط تعلق ہی وہ واحدراستہ ہے جس کے ذریعے بچی کو اپنے قریب کیا جاسکتا ہے۔اور ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچاجاسکتا ہے۔ بچیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے تعلق بگاڑنے کے بعد باقی تمام راستے بھی مسدود ہوسکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ان کے مسائل کو سنیں اور انہیں تسلیم کریں۔
بعض اوقات بچے ذہنی ، جذباتی یا سماجی مسائل کا شکارہوتے ہیں۔ لیکن ان کے مسائل کو سننے والا ،سمجھنے والا اور تسلیم کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ جس کی وجہ سے وہ مزید ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین اور اساتذ ہ کوچاہیے کہ وہ ان بچوں کے مسائل کو ضرور سنیں ۔ انہیں تسلیم کریں اور حل نکالنے میں ان کی مدد کریں۔ان کے ساتھ بڑوں جیسا رویہ رکھیں۔
یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے کہ ٹین ایجر بچے اپنے آپ کو ذمہ دار کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو بچہ نہ سمجھے بلکہ بڑا تسلیم کرے۔ اب یہ والدین اور اساتذہ کا کام ہے کہ وہ ان کی نفسیات کو سمجھیں۔ ان سے بڑوں جیسا سلوک کریں اور ان کی عزت میں کوئی کمی نہ کریں۔اس رویے سے بھی کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ویسے بھی عزت دیں گے تو عزت ملے گی۔بچیوں کو اہمیت دے کر مشورے میں شامل کریں ان کی چھوٹی چھوٹی خواہش کا احترام کریں۔جتنی عزت واحترام آپ ان کو دیں گے وہ بھی اسی طرح آپ کو عزت واحترام دیں گے۔ اور باتیں نہ سننے کا جو شکوہ ان کو ہوتا ہے وہ دورہوجائے گا۔ گھرکے اہم فیصلے کرنے سے پہلے ان سے مشورہ لیں۔
گھر کے بعض فیصلے ان سے کروانے سے ان میں خوداعتمادی پیدا ہوگی۔ اگر ان سے غلطی سرزد ہوتی ہے تو اس کی اصلاح مثبت پہلو سے کریں انہیں سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔ ان کے فیصلے کو اہمیت دیں۔ کم از کم ان کی ذاتی اخراجات ان کی ضرورت کی چیزیں خریدنے کا حق والدین خود سے بالکل نہ کریں۔بلکہ یہ اختیار انہی کو دیں تو بہترہے۔ ہر بات میں ان کی حوصلہ افزائی کریں تنقید نہ کریں۔تنقید ہمیشہ برائے اصلاح اچھی لگتی ہے۔تنقید برائے تنقید اس عمر کے بچوں کو زہر لگتی ہے۔
یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ان بچوں کی حوصلہ افزائی کا موقع ہاتھ سےبالکل جانے نہ دیں۔ تنقید سے حتی الامکان اجتناب کریں۔اور ان کے دوستوں کو کبھی برا بھلا نہ کہیں۔ کبھی ان کی نیتوں اور صلاحیتوں پر بھی شک نہ کریں ۔ان کی کمزوریوں میں ہی ان کی طاقت پوشیدہ ہے اس بات کا انہیں شدت سے احساس دلائیں۔ یہ کچھ ایسے نکات ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے بچے اور بچیوں میں خود اعتمادی کے وہ گمشدہ عنصر جو صلاحیت اور قابلیت پر منحصر ہیں دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو ایک خوشگوار زندگی دے سکتے ہیں۔