• Mon, 07 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک کتاب ’’غبارے میں پانچ ہفتے‘‘

Updated: September 21, 2024, 2:53 PM IST | Ishrat Amir | Mumbai

یہ سچی کہانی فرانس کی ہے۔ ایک بار ایک آدمی کی نوکری چھوٹ گئی۔ بے کاری کے دنوں میں اُسے کتابیں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا۔ پڑھتے پڑھتے ایک دن اس کو سوجھا کہ وہ کیوں نہ ایک اچھی سی کتاب لکھ ڈالے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یہ سچی کہانی فرانس کی ہے۔ ایک بار ایک آدمی کی نوکری چھوٹ گئی۔ بے کاری کے دنوں میں اُسے کتابیں پڑھنے کا چسکہ لگ گیا۔ پڑھتے پڑھتے ایک دن اس کو سوجھا کہ وہ کیوں نہ ایک اچھی سی کتاب لکھ ڈالے۔ تخیل کے گھوڑے دور دور تک دوڑا کر اُس نے ایک کتاب لکھی، ’’غبارے میں پانچ ہفتے۔‘‘ غبارے کی سیر کی یہ کہانی بے حد دلچسپ اور سنسنی خیز تھی۔ پوری کتاب لکھنے کے بعد وہ بہت خوش ہوا۔ پھر وہ اپنی لکھی ہوئی کتاب ایک پبلشر کو دے آیا۔ پبلشر نے اس کی کتاب پڑھی اور اپنا سر پیٹ لیا۔ اس نے ایسے فضول موضوع پر کوئی کتاب آج تک نہیں پڑھی تھی۔ اس نے سوچا، کون چھاپے یہ بکواس۔ پبلشر نے کتاب لو ٹاتے ہوئے کہا، ’’جناب والا، ایسی کوڑا کتاب ہمیں کیوں دی گئی؟ بھلا ایسی گپ پڑھنا کون پسند کرے گا؟‘‘
 اس کے بعد اس بے چارے ادیب نے اپنی کتاب کا مسودہ ایک ایک کرکے پندرہ پبلشروں کو بھیجا۔ مگر سب نے اس کی کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا۔ معلوم نہیں، ان پبلشروں نے اُس کی پوری کتاب پڑھی بھی یا نہیں۔ جب پندرھویں بار اس کی کتاب کا مسودہ لوٹ کر آیا تو وہ جھلا گیا۔ اُس نے سوچا، میں کبھی ادیب نہیں بن سکتا۔ بہتر ہوگا کہ میں اس مسودہ کو جلا ڈالوں۔ اور پھر اور کچھ سوچے بغیر وہ کتاب کو چولہے میں ڈالنے ہی والا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور کہا، ’’ارے، ارے کیا ہوا؟ آپ اتنی محبت سے لکھی ہوئی کتاب جلا کیوں رہے ہیں؟ بیچاری کتاب نے کیا قصور کیا ہے؟‘‘
 ادیب نے ایک گہری سانس کھینچ کر کہا، ’’شاید میری کتاب میں کوئی جان نہیں ہے، اس لئے سوچتا ہوں کہ جلا ہی ڈالوں.... کیا فائدہ اس کو رکھنے سے؟‘‘ ’’اچھا! معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمت ہار گئے ہیں۔ دل چھوٹا نہ کیجئے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا، ’’یہ کتاب ضرور چھپے گی۔ صبر کیجئے۔‘‘
 ’’چھپے گی کیا خاک! پندرہ پبلشروں نے تو اُسے واپس کر دیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
 ’’اجی چھوڑئے گزری ہوئی باتوں کو۔ خود اعتمادی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئے۔ شاید سولہواں پبلشر اسے پسند کرلے۔ آپ اسے بھیج کر تو دیکھئے۔ آپ کی کتاب کی قدر کرنے والا ضرور کوئی نہ کوئی نکل آئے گا۔‘‘
 ’’ٹھیک ہے، اس بار صرف تمہارے کہنے سے اس سولہویں پبلشر کو بھیجتا ہوں۔ اگر یہ وہاں سے بھی واپس آگئی تو تم خود اس کو اپنے ہاتھوں سے چولہے میں جھونک دینا۔ ویسے مجھے اب اس کے چھپنے کی کوئی امید نہیں ہے۔‘‘
 ادیب نے کسی جوش و خروش کے بغیر کتاب کا مسودہ سولہویں پبلشر کو بھیج دیا۔
 کچھ دن بعد پبلشر کا خط آیا: ’’ہم نے آپ کی کتاب چھاپنے کے لئے رکھ لی ہے۔ کتاب بہت دلچسپ ہے۔ مبارکباد۔ آپ کو مناسب رائلٹی بھیجی جائے گی۔ ہمیں آپ کی اور کتابیں چھاپ کر خوشی ہوگی۔ اپنی دوسری کتابوں کے مسودے جلد بھیجیں۔‘‘
 خط پڑھ کر ادیب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مارے خوشی کے وہ رات بھر سو نہ سکا۔ اس کی بیوی بھی بے حد خوش ہوئی۔
 ۱۸۷۲ء میں ’’غبارے میں پانچ ہفتے‘‘ کتاب چھپ کر بازار میں آئی تو ساری جلدیں میں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن نکلے۔ لوگوں نے کتاب کو بہت شوق سے پڑھا۔ بچے تو اس کتاب کو پڑھ کر اچھل پڑے.... اتنی دلچسپ کتاب! پھر جن پبلشروں نے اس کی کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا تھا، وہ اس سے نئی کتاب لکھ کر دینے کے لئے گڑگڑانے لگے۔ ادیب کی شہرت روز بروز بڑھتی گئی۔ وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس کی کتا بیں بچوں میں بے حد مقبول ہوئیں۔ اس کی تخلیقات نے ساری دنیا میں دھوم مچا دی۔ دنیا بھر کی زبانوں میں اس کی کتابوں کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ تم جانتے ہو یہ ادیب کون تھا ؟ اس ادیب کا نام تھا، ’’جولس ورن!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK