Inquilab Logo

کبڑا بونا

Updated: June 03, 2023, 1:01 PM IST | Syed Imtiaz Ali | Mumbai

ایک کبڑا بونا طنبورہ بجا کر گاتا پھرا کرتا تھا۔ ایک دن وہ درزی کی دکان کے پاس بیٹھ کر بڑی دیر تک گاتا بجاتا ہے۔ درزی خوش ہو کر اسے اپنے گھر لے جاتا ہے۔ درزی کی بیوی بونے کو مچھلی اور روٹی کھانے کو دیتی ہے۔ کبڑا کے حلق میں مچھلی کا کانٹا پھنس جاتا ہے بس اس کے بعد سے ایک ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

بہت دنوں کی بات ہے۔ ملک تاتار کے شہر کا شغر میں ایک کبڑا بونا طنبورہ بجا کر گاتا پھرا کرتا تھا۔ ایک دن وہ اپنا طنبورہ لے کر ایک درزی کی دکان کے سامنے آبیٹھا۔ اور بڑی دیر تک گاتا بجاتا رہا۔ درزی کو اس کا گانا پسند آیا۔ وہ اپنی دکان بند کرکے بونے کو اپنے گھر لے گیا۔ درزی کی بیوی بھی گانا سن کر بہت خوش ہوئی۔ اس دن درزی کے گھر مچھلی پکی تھی۔ درزی کی بیوی نے روٹی پر رکھ کر دو تین قتلے بونے کو بھی دیئے۔ بونا بڑے مزے سے کھا رہا تھا کہ اُس کے حلق میں مچھلی کا ایک بڑا سا کانٹا اٹک گیا۔ درزی اور اُس کی بیوی نے نکالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کانٹا نہ نکلا۔ اب تو بیچارے کبڑے کا دم گھٹ گیا۔ اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ درزی اور اُس کی بیوی کبڑے کا یہ حال دیکھ کر بہت گھبرائے اور سوچنے لگے کہ اگر یہ کبڑا مر گیا تو ہمارے سر ہوگا۔ اِسے یہاں سے ٹالنا چاہئے۔
 درزی کی دکان کے پاس ایک حکیم کا گھر تھا۔ درزی اُس کبڑے کو اٹھا کر حکیم کے گھر لے گیا۔ اور دروازے پر جا کر آواز دی۔ اندر سے ایک عورت باہر آئی تو درزی نے اسے پانچ روپے دے کہا کہ، ’’حکیم جی سے ہمارا سلام کہنا اور یہ عرض کرنا کہ ایک بیمار علاج کیلئے دروازے پر حاضر ہے۔ مہربانی کرکے ذرا اسے دیکھ جائیں۔‘‘
 وہ عورت تو پانچ روپے لے کر گھر میں واپس چلی گئی۔ اور اس کے پیچھے درزی نے کبڑے کو سیڑھیوں میں کھڑا کر دیا۔ رات کا وقت تھا۔ حکیم جی بیمار کو دیکھنے آئے تو رستے میں کبڑے سے ٹھوکر کھائی۔ پہلے کبڑا لڑکا۔ اس کے بعد حکیم جی۔ دونوں گد گد کرتے اپرا تلی ہوتے سیڑھیوں سے نیچے زمین پر آپڑے۔ حکیم صاحب کپڑے جھاڑ کر اٹھے۔ اور اُس کبڑے کو مردہ سا دیکھ کر افسوس کرنے لگے کہ ہماری بے احتیاطی سے ایک آدمی مر گیا۔ اگر پولیس کو خبر ہوگئی تو ہم پکڑے جائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ کبڑے کو یہاں سے کسی اور کے گھر پہنچا دیں۔ یہ سوچ کر حکیم نے کبڑے کے بازوؤں میں رسّی باندھی۔ اور اوپر چڑھ کر اُسے ایک پڑوسی کے مکان میں اتار دیا۔ کبڑا دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ مکان بادشاہ کے باورچی کا تھا۔ اُس دن باورچی کسی دوست کے ہاں گیا تھا۔ بڑی رات گئے واپس آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی دیوار سے لگا کھڑا ہے۔ باورچی کے ہاتھ میں لکڑی تھی۔ اس نے کبڑے کو بے دھڑک مارنا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ، ’’مَیں سمجھتا تھا کہ میرا گھی اور مٹھائی چوہے کھا جاتے ہیں مگر اس بڑے چوہے کی خبر نہ تھی۔‘‘ باورچی نے ایک دفعہ زور سے دھکا دیا تو وہ کبڑا زمین پر گر پڑا۔
 باورچی نے غور سے دیکھا تو معلوم ہو اکہ اس میں جان نہیں۔ اب تو اس کو بھی فکر پڑی کہ ناحق ایک آدمی کو جان سے مار ڈالا۔ اب میرا بچنا مشکل ہے۔ تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد باورچی اُس کبڑے کو بازار میں ایک دکان سے لگا کر کھڑا کر آیا۔
 ابھی سورج نہ نکلا تھا کہ ایک مالدار سوداگر اُدھر سے گزرا۔ اور اُس نے کبڑے کو دیکھ کر لکڑی سے ایک کچوکا دیا۔ کبڑا فوراً کھسک کر سوداگر کے اوپر آپڑا۔ سوداگر اُسے لکڑیوں سے مارنے لگا۔
 آخر اُدھر سے پولیس کا سپاہی آگیا۔ اس نے سوداگر کو گرفتار کر لیا۔ اور کہا کہ، ’’تم نے ایک آدمی کو جان سے مار ڈالا ہے۔ اب تم اپنے کئے کی سزا پاؤ گے۔‘‘
 چوکیدار اُس سوداگر اور بونے کی لاش کو لے کر قاضی کے سامنے پہنچا۔ اور سب حال بیان کیا۔ قاضی نے بونے کی شکل پہچان کر کہا کہ، ’’یہ تو بادشاہ کا مسخرا ہے اس مقدمہ کی خبر بادشاہ کو بھی ہونی چاہئے۔ پھر جس طرح وہ کہیں گے اُسی طرح کیا جائے گا۔‘‘
 قاضی نے بادشاہ کے پاس آدمی بھیجا۔ اور ساتھ سوداگر اور بونے کو بھی روانہ کر دیا۔ بادشاہ نے دیکھا بونا مر گیا ہے۔ اور اسے سوداگر نے مارا ہے۔ اس لئے سوداگر کو پھانسی ملنی چاہئے۔
 اگلے دن سارے شہر میں ڈھنڈورا پٹ گیا کہ: ایک سوداگر نے ایک آدمی کو جان سے مار ڈالا ہے۔ شام کے چار بجے سوداگر کو پھانسی ملے گی۔ جس کا جی چاہے آکر دیکھے۔
 پھانسی ملنے سے پہلے ہزاروں آدمی اکھٹے ہوگئے۔ آخر وہ سوداگر پھانسی کے پاس لایا گیا۔ اسے دیکھ کر بادشاہ کا باورچی بھیڑ کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور چلّا کر بولا کہ، ’’ٹھیرو اس سوداگر کو پھانسی نہ دو۔ کبڑے کو مَیں نے مارا ہے۔‘‘
 قاضی نے کہا، ’’اچھا سوداگر کو چھوڑ دو۔ اور اس کے بدلے باورچی کو پھانسی پر لٹکا دو کیونکہ یہ خود اپنی زبان سے اقرار کرتا ہے۔‘‘
 جلادوں نے سوداگر کو چھوڑ کر باورچی کی مشکیں باندھ لیں اور اسے پھانسی ملنے ہی والی تھی کہ وہ حکیم ہانپتا کونپتا آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ، ’’باورچی کو پھانسی نہ دینا۔ اصل قاتل میں ہوں۔‘‘
 قاضی نے کہا، ’’اچھا! باورچی کے بدلے حکیم کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دو۔‘‘ حکیم صاحب پھانسی پر لٹکنے ہی والے تھے کہ درزی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ، ’’حکیم صاحب بھی بے قصور ہیں۔ اگر اس کبڑے کو جان سے مارا ہے تو بس میں نے مارا ہے۔ مجھے پھانسی ملنی چاہئے۔‘‘
 قاضی حیران تھا۔ کسے چھوڑے کسے پکڑے۔ آخر وہ سب آدمیوں کو ساتھ لے کر اور کبڑے کی لاش اٹھوا کر بادشاہ کے دربار میں پہنچے۔ بادشاہ نے بڑے غور سے سب حال سُنا۔ جب درزی نے کہا کہ، ’’اس کبڑے کے گلے میں مچھلی کا کاٹنا اٹک گیا تھا....‘‘ تو اسی وقت بادشاہ کے حجام نے ایک لوہے کا اوزار کبڑے کے منہ میں ڈال کر کانٹا نکال لیا۔ اس کے نکلتے ہی کبڑے کو چھینک آئی۔ اور وہ اچھا خاصا جیتا جاگتا آدمی بن گیا۔
 بادشاہ نے کہا، ’’درزی، حکیم، باورچی، سوداگر سچے آدمی ہیں۔ اس لئے انہیں انعام دیا جائے۔ حجام کی تنخواہ مقرر ہو۔ اور وہ ہر وقت دربار میں حاضر رہا کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK