ایک غریب بچے کی کہانی جو کم عمر ہونے کے باوجود اپنی بیمار ماں اور اپنے بھائی کی فکر کرتا ہے
EPAPER
Updated: June 24, 2023, 10:35 AM IST | Salim Khan | Faizpur
ایک غریب بچے کی کہانی جو کم عمر ہونے کے باوجود اپنی بیمار ماں اور اپنے بھائی کی فکر کرتا ہے
دس سالہ روی نے چراغ جلایا تو اسے بیمار ماں کی آنکھوں میں آنسو نظر آئے۔ اس نے ماں کے پاس چار پائی پر بیٹھ کر پوچھا، ’’کیا بات ہے ماں؟‘‘
’’چندر کہاں ہے بیٹا؟‘‘
’’وہ آنگن میں کھیل رہا ہے، تم اس کی چنتا مت کرو۔ لیلا موسی نے تھوڑی کھچڑی دی تھی اس نے کھالیا ہے۔‘‘
’’اور تم نے کیا کھایا؟‘‘
’’مجھے بھوک نہیں ہے ماں۔‘‘ روی نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر جواب دیا۔
بیٹے کی اس بات پر ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے اس کے معصوم چہرے کو ہاتھوںمیں لے کر رندھی آواز میں کہا، ’’بیٹا! میں نے تمہارا اور تمہارے بھائی کا نام روی اور چندر رکھا ہے لیکن تم دونوں کے جیون میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے!‘‘ اندھیرے سے روی کو ڈر لگتا تھا مگر ماں کو ن سے اندھیرے کی بات کر رہی تھی وہ سمجھا نہیں مگر ماں کی دکھ بھری باتیں سن کر وہ اداس ہوگیا تھا۔ اور اس کامعصوم ذہن سوچ کے صحرا میں کوئی نخلستان ڈھونڈرہا تھا۔ پھر اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، ’’ماں لیلا موسی کہہ رہی تھی کل عید کا تہوار ہے۔ یاد ہے ماں پچھلے سال ہمیں تین سو روپے خیرات ملی تھی۔‘‘
’’ہاں بیٹا لیکن اب میں تو بیمار ہوں۔‘‘
’’میں جاؤں گا ناں ماں اور چندر کو بھی ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘ ’’نہیں نہیں بیٹا،وہاں موٹر گاڑیوں کی بھاگم بھاگ اور بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ اسے مت لے جانا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ماں، میں اکیلا ہی جاؤںگا۔ تم میری فکرمت کرنا۔ میں بہت پیسے جما کرکے لاؤں گا۔ اور لوٹتے ہوئے چندر کے لئے کچوری، جلیبی، تمہارے لئے بسکٹ ،ناریل پانی اور بخار کی دوا بھی لاؤںگا۔‘‘
’’اور اپنے لئے کیا لاؤ گے؟‘‘ ماں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر کر غائب ہوگئی۔
’’میں اپنے لئے چپل لے آؤں گا، بہت پیر جلتے ہیں میرے۔‘‘
’’میرا شہانا (سیانا) بیٹا۔‘‘ ماں نے اسے قریب کرکے اس کی پیشانی چوم لی۔
اگلے دن روی صبح سویرے جاگ گیا۔ تیزی سے ہاتھ منہ دھویا اور ماں سے اجازت لے کر عید گاہ میدان کی طرف نکل پڑا۔
چلتے چلتے وہ من ہی من میں سوچ رہا تھا: یہ تہوار بھی بھگوان کی دین ہیں۔ اس بہانے غریبوں کو دان دکشنا اور اچھا بھوجن مل جاتا ہے۔ اگر عیداور دیوالی سال میں دو چار بار ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ ان ہی خیالوں میں وہ عید گاہ میدا ن کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے سوچا شاید میں جلد آگیا۔ مگر جب دور دور تک اسے کوئی نظر نہیں آیا تو وہ حیران نظروںسے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا،اسے سامنے کچھ فاصلے پر جھوپڑی کے باہر لنگی، نہرو شرٹ اور ٹوپی پہنا ہوا ایک ادھیڑ عمر داڑھی والا شخص نظر آیا۔ روی تیز قدموں سے اس شخص کے پاس پہنچا۔ نمستے کیا اور ادب سے پوچھا،’’باؤ جی، آج عید ہے ناں؟‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘ اس شخص نے روی کوپیار بھری نظروںسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر لوگ ابھی تک کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’ بیٹا،یہ عید لاک ڈاؤن ہے۔‘‘
’’عید لاک ڈاؤن ہے!‘‘ وہ حیرت سے ایک ٹک د یکھتا رہا۔
’’ارے بیٹا ،یہ عید لوگ اپنے اپنے گھر پر ہی منائیں گے،یہاں کوئی نہیں آئے گا۔‘‘
یہ سن کر روی کو دھکاسا لگااور آنسو بھر آئے۔ اس نے ایک بار پھر اداس نظروں سے عید گاہ میدان کی طرف دیکھا۔ دور دور تک سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ وہ سر جھکائے بوجھل قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ ’’ ماں کی دوائی،بھائی کے لئے ناشتہ اب کیسے لے جا ؤںگا۔‘‘ ان ہی خیالوں میں وہ پکّی سڑک سے بازار کی طرف جارہا تھاکہ اچانک کچھ گرنے کی آواز پر وہ چونک پڑا۔ اس کے بالکل سامنے سڑک کے موڑ پرایک میڈم کا اسکوٹر سلپ ہوگیا تھا۔ میڈم اور اس کا بچہ گرگئے تھے۔ روی فوراً دوڑا اور اس نے روتے بلکتے بچے کو اٹھا کے سینے سے لگا لیا۔ وہیںقریب سے گزرتے ہوئے میاں بیوی نے سکوٹرایک طرف کیا اور میڈم کو سہارا دے کر اٹھایا۔ میڈم بہت گھبرگئی تھی، وہ لپک کر روی کے پاس پہنچی او ر اپنے بچے کو لے کربڑی بے تابی سے اسے ٹٹولنے لگی۔ ’’آنٹی، گھبرائیے مت، بابا بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ پھر روی نے سبزی اور پھل وغیرہ باسکٹ میں بھر دیئے اور میڈم کے سپرد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ لیجئے آنٹی،آپ کا پرس بھی گر گیا تھا۔‘‘ میڈم اسے حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئی،پھر اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر کہا، ’’شاباش ، تم بہت اچھے بچے ہو۔ آؤ بیٹے، آؤ میرے ساتھ۔ یہ سامنے ہمارا ہی بنگلہ ہے۔‘‘ اورروی اسکوٹر کے پیچھے چلتے ہوئے بنگلے پر پہنچا۔
میڈم نے اسے صوفے پر بٹھایا ،پانی پلایا اور پوچھا،’’بیٹا کیا نام ہے تمہارا،کہاں رہتے ہو تم؟‘‘ ’’میرا نام روی ہے، ہم جھوپڑ پٹی میں رہتے ہیں۔‘‘ روی کا مرجھایا چہرہ اور لباس دیکھ کر میڈم سمجھ گئی کہ لڑکا کسی اندھیرے گھر کا چراغ ہے۔ اس نے نوکرانی کو اشارہ کرکے کھانا منگوایا مگر روی نے کھانے سے انکار کیا۔
’’بیٹے، کھانے کا وقت ہوگیا ہے آج ہمارے یہاں کھالو !‘‘
’’نہیں آنٹی، میری ماں اور چھوٹا بھائی بھوکے ہیں، میں نہیں کھا سکتا۔ چلتا ہوں۔‘‘
روی کی بات سن کر میڈم کا دل بھر آیا۔ اس نے روی کے سر پہ ہاتھ پھیر کر کہا،’’ٹھیک ہے بیٹا! تھوڑا رک جاؤ۔‘‘
میڈم نے روی کو پلاسٹک کے ایک ڈبّے میں بہت سا کھانا پیک کردیا۔ اور جاتے وقت اسے پانچ سو روپے دیتے ہوئے کہا، ’’یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘
پانچ سو کا نوٹ دیکھ کر روی کا چہرہ کھل اٹھا۔ ’’آنٹی، میری تو عیدہوگئی۔ اب میں بھائی کیلئے جلیبی اور ماں کے لئے دوائی بھی لے جاؤں گا۔‘‘
اور وہ تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑا۔
روی کو خوش دیکھ کر میڈم کوبڑی خوشی حاصل ہوئی۔ اس نے من ہی من میں سوچا،’’بھگوان جو کرتا ہے ،اچھا ہی کرتا ہے۔‘‘
کسی شاعر نے بہت خوب کہا ہے:
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا