بچپن، تعلیم اور تربیت: محمد اقبال ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ پاکستان کی سرحد پر جو ریاست جموں و کشمیر سے ملتی ہے ، ایک بارونق شہر ہے۔
علامہ اقبال۔ تصویر:آئی این این
بچپن، تعلیم اور تربیت: محمد اقبال ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ پاکستان کی سرحد پر جو ریاست جموں و کشمیر سے ملتی ہے ، ایک بارونق شہر ہے۔ یہ اس زمانے میں بھی ایک اچھا خاصا صنعتی شہر تھا۔
اقبال کے والد کوئی امیر آدمی نہیں تھے لیکن چونکہ علماء کا سا دل و دماغ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اقبال کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی۔ اقبال خود بھی بہت ذہین تھے۔ اڑوس پڑوس کے بچوں سے کہیں زیادہ ذہین۔ اپنی پڑھائی سے انہیں بڑی رغبت اور آوارہ گردی یا کسی اور طرح وقت ضائع کرنے سے نفرت تھی۔ اُس زمانے میں سیالکوٹ علم و ادب کا مرکز تھا اور یہاں کئی عالم و فاضل شخصیتیں موجود تھیں۔ ان سب میں ممتاز شخصیت مولانا سید میر حسن کی تھی۔ تعلیم و تربیت کے لئے اقبال کے والد شیخ نور محمد نے اپنے بیٹے اقبال کو سیدمیر حسن کے سپرد کیا۔استاد شاگرد کا یہ تعلق ساری عمر قائم رہا۔ اقبال کی سعادت مندی کا یہ عالم تھا کہ جب تک زندہ رہے اپنے استاد کے گن گاتے رہے ۔
۱۹۲۳ء میں اقبال کو جب حکومت برطانیہ نے سر کا خطاب پیش کرنا چاہا اور پنجاب کے گورنر سر ایڈورڈ میکلیگن نے اس سلسلے میں اُن کے ساتھ بات کی تو اقبال نے کہا کہ ’’جب تک میرے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب نہیں دیا جاتا میں سر کا خطاب قبول نہیں کروں گا۔‘‘ ایڈورڈ میکلیگن اس جواب سے پریشان ہوئے اور بولے کہ سید میر حسن نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی اس لئے انہیں شمس العلماء کا خطاب دینا دشوار ہے۔ اقبال نے فوراً کہا کہ ’’اُن کی زندہ کتاب میں ہوں، اِس سے بڑھ کے آپ اور کون سی کتاب چاہتے ہیں؟‘‘ سرایڈورڈ میکلیگن اس جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے فوراً اقبال کا مطالبہ حکومت برطانیہ تک پہنچایا ۔ چنانچہ جب اقبال کو سر کا خطاب ملا تو ساتھ ہی حکومت نے مولوی میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا۔
اسکاچ مشن کالج: اُنہی دنوں اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں کھلیں اور وہ کالج بن گیا چنانچہ اقبال میٹریکولیشن پاس کرنے کے بعد اسی کالج کی انٹرمیڈیٹ کلاس میں داخل ہوئے۔ مولوی میرحسن بھی کالج کے طلباء کو پڑھانے پر مامور ہوئے اور استاد شاگرد کا باہمی تعلق بدستور قائم رہا۔
شاعری کی ابتداء:اس زمانے میں اقبال کی شاعری کی ابتداء ہوچکی تھی اور وہ سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے مشاعرے میں جو باقاعدگی سے منعقد ہوتا تھا، کبھی کبھار شریک ہوکے اپنا کلام سنایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی چند غزلیں اصلاح کے لئے فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کو بھیجیں جو اس زمانے میں حیدرآباد میں تھے۔ داغؔ نے بہت جلد اقبال کو یہ لکھا کہ تمہارا کلام بڑی حد تک اصلاح سے بے نیاز ہے، مطالعہ اور مشق سخن جاری رکھو۔
اقبال لاہور میں:انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد اقبال لاہور آئے۔ گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا۔ انگریزی فلسفہ اور عربی ان کے مضامین تھے۔ ۱۸۹۷ء میں انہوں نے بڑے امتیاز کے ساتھ بی اے کا امتحان پاس کیا۔ پھر ایم اے میں داخل ہوئے۔ فلسفے سے انہیں خاص لگاؤ تھا اور خوش قسمتی سے استاد بھی انہیں ایسا ملا جس کی دنیائے فلسفہ میں دور دور تک شہرت تھی۔ یہ تھے پروفیسر ٹامس آرنلڈ جو بعد میں سر ٹامس آرنلڈ ہوگئے تھے۔ ٹامس آرنلڈ اپنے شاگرد اقبال کی قابلیت سے ایسے متاثر ہوئے کہ بہت جلد استاد اور شاگرد میں دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔
اقبال کی پہلی تصنیف: جس سال اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اسی سال یعنی ۱۹۰۳ء میں ان کی پہلی تصنیف شائع ہوئی۔ پیارے بچو! تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ کتاب نہ ان کے کلام کا مجموعہ تھانہ فلسفے پر کوئی کتاب تھی بلکہ یہ اقتصادیات کے موضوع پر تھی۔ اس سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ مختلف علوم پر انہیں کتنی دسترس حاصل تھی۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا: هاس کے اگلے برس ان کے قلم سے ایک ایسی نظم نکلی جو مدتوں تک ہندوستان کے قومی ترانے کے طور پر استعمال ہوتی رہی اور آج بھی جن گن من اور وندے ماترم کے بعد یہی وہ نظم ہے یعنی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جو ہندوستان کے اکثر اسکولوں اور ادبی و سیاسی مجلسوں میں گائی جاتی ہے۔ یہ نظم تم نے اپنی درسی کتابوں میں پڑھی ہوگی اور اپنے اسکول میں گائی بھی ہوگی اور ممکن ہے تمہیں زبانی بھی یاد ہو۔
یورپ میں تین سال: اقبال کا علم اور کتابوں کے ساتھ وہی تعلق تھا جو ایک پیاسے انسان کا ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے سے ہوتا ہے۔ ان کی علم کی پیاس بجھتی ہی نہیں تھی۔ علم حاصل کرنے کی یہی خواہش انہیں یورپ کی یونیورسٹیوں تک پہنچنے کے لئے اکساتی رہی۔ آخر ایک دن ان کی یہ خواہش پوری ہوکر رہی اور وہ ستمبر ۱۹۰۵ء میں ہندوستان سے یورپ کے لئے روانہ ہوگئے۔
کیمبرج یونیورسٹی:دہلی سے چل کے اقبال بمبئی پہنچے اور بمبئی سے سمندری جہاز کے ذریعے انگلستان۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا۔ یہیں اقبال نے فیصلہ کیا کہ انہیں پی ایچ ڈی کے لئے ایران کے فلسفے پر ایک مقالہ لکھنا چاہئے۔اسی مقالے پر یونیورسٹی آف کیمبرج نے اقبال کو ایک امتیازی سرٹیفکیٹ عطا کیا۔
ہندوستان واپس:یورپ میں تین برس قیام کرنے کے بعد اقبال ایم اے ، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا ہوکر وطن واپس آئے۔ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر دوستوں اور مداحوں کے ایک بھاری ہجوم نے ان کا استقبال کیا اور کئی رسالوں اور اخباروں نے استقبالیہ نوٹ اور اداریے لکھے۔
۱۹۱۰ء سے انتقال تک: ۱۹۱۰ء میں مشرق وسطیٰ نے ایک بھیانک جنگ دیکھی۔ اقبال کا دل اس صدمے سے تڑپ اٹھا۔ ان کی نظم ’شہدائے طرابلس‘ اسی جنگ کی یادگار ہے۔ ۱۹۱۴ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ ۱۹۱۹ء میں انگریزوں کی حکومت نے جب جلیانوالہ باغ میں ظلم و ستم کی انتہا کردی تو تب بھی اقبال تڑپ اٹھے اور اس کا اظہار ایک قطعہ میں کیا۔ ۱۹۲۸ء میں درد گردہ شدید ہوگیا۔ ۱۹۳۶ء کے آخر میں اقبال کو دمہ کا دورہ شروع ہوا۔ یہ کیفیت تقریباً ۲؍ سال تک رہی۔ اسی دوران بینائی بھی متاثر ہوئی۔ گردے کے درد نے تیسری بار حملہ کیا اور ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ محمد اقبال کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔