• Sat, 08 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے

Updated: November 08, 2025, 4:57 PM IST | Professor Dr. Anis Ahmed | Mumbai

فکر کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوئوں پر کلامِ الٰہی میں ۱۹؍ سے زائد مقامات پر مختلف زاویوں سے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔

The Holy Quran has repeatedly drawn attention to the thought of this world and the hereafter so that thought is not limited to mere worldly matters but rather helps in successfully leading a person to his true destination and position. Photo: INN
قرآنِ کریم نے دنیا اور آخرت کی فکر پر بار بار اسی لئے متوجہ کیا ہے کہ فکر محض دنیاوی معاملات تک محدود نہ ہو بلکہ انسان کو اس کی حقیقی منزل اور مقام تک کامیابی کے ساتھ لے جانے میں مددگار ہو۔ تصویر:آئی این این
 مذاہب ِ عالم پر ایک عمومی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقلیت، تجزیہ اور تفکر کی راہیں مسدود کر کے اندھی تقلید، جذباتیت، بنیاد پرستی، شدت پسندی اور غلو کو رواج دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حتمی سمجھنے کی بنا پر علمی تحقیق، تجزیہ اور تنقید کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو عقل، مشاہدہ، تدبر،تجزیہ، تزکیہ اور مسلسل فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو انسان کو سوال اٹھانے اور سوالات کے حل تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
قرآنِ کریم میں غوروفکر کرنے کی دعوت تقریباً ہر صفحے پر دی گئی ہے۔ فکر کے حوالے سے اس کے مختلف پہلوئوں پر ۱۹؍ سے زائد مقامات پر مختلف زاویوں سے انسان کو متوجہ کیا گیا ہے۔اس کے مفہوم میں سوچنے (’’اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی‘‘۔ المدثر : ۱۸)، تنہا یا اجتماعی طور پر مل کر دماغ لڑانے اور فکر کرنے (’’اے نبیؐ! ان سے کہو’’میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے۔‘‘ السبا :۳۶)، اور دنیا و آخرت کے حوالے سے فکر کرنے، منطقی انداز میں واقعات و حقائق کو مرتب کرکے غوروفکر کرنے کے لوازم پائے جاتے ہیں(’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت میں دونوں کی فکر کرو‘‘۔البقرہ :۲۱۹) خود قرآنِ کریم اپنے لئے ذکریٰ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے (الانعام:۶۸) اور اپنے آپ کو تمام انسانوں کیلئے یاددہانی، غوروفکر پر اُبھارنے والی ہدایت و نور قرار دیتا ہے۔ مختلف اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے واقعات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہراتا ہے کہ اس کا مقصد محض تاریخی واقعات کا بیان نہیں ہے بلکہ غوروفکر کی دعوت دینا ہے:
’’اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو۔‘‘ (البقرہ:۲۶۶)
سورۂ آل عمران میں فکر کے عمل کو ذکر کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اسے اہلِ دانش کی اہم پہچان بتایا گیا ہے: ’’زمین اور آسمانوں کی پیدایش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔‘‘(آل عمران:۱۹۰)گویا اہلِ دانش نہ تو اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتے ہیں اور نہ دل کی آنکھ کو موندنے دیتے ہیں۔ ایسے افراد کیلئے آسمان اور زمین میں اور خود ان کی اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ اگر وہ صرف ان پر غور کرلیں اور فکر کا دامن تھامے رہیں تو بہت کم ایسے ہوںگے جو گمراہ ہوں۔
انسان کی یہی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر اسے حیوانات سے ممتاز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور ہدایت ِربانی کے تذکرے کے بعد کہ شاید اس طرح لوگ فکر پرآمادہ ہوں، قرآنِ کریم ان افراد کا ذکر کرتا ہے جو جانتے بوجھتے تفکر اور غوروفکر کرنے سے بھاگتے ہیں۔ غفلت میں پڑے ہوئے اِن افراد کے بارے میں قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے :
 ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔‘‘ (الاعراف :۱۷۹)
انسان تفکر کے لئے جن ذرائع کو استعمال کرتا ہے ان میں عقل، قلب، سماعت و بصارت ہی علم کے حصول کے ذرائع ہیں لیکن اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ِ بصارت و سماعت کو استعمال نہ کرے اور جو کچھ آنکھ دیکھتی ہو یا دیکھ سکتی ہو، اسے نظرانداز کرتا رہے اور جو کچھ کانوں کے ذریعے قلب و دماغ تک پہنچ سکتا ہو، اس سے اپنے آپ کو بچاکر رکھے تو پھر وہ اپنے من کی بھول بھلیوں ہی میں گرفتار رہے گا۔ خودساختہ تصورات میں گم اور غوروفکر سے عاری رہنے کے سبب علم و ہدایت کے نور سے محروم ہوجائے گا۔ ایسے ہی افراد کو قرآنِ کریم جانوروں سے تشبیہ دیتا ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا سمجھتا ہے۔
مغربی دانش کا ایک مفروضہ یہ ہے کہ الہامی کتاب کی پیروی سے انسان گویا عقل سے عاری، قدامت پرست اور بنیاد پرست بن جائے گا، جب کہ قرآنِ کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو ہرلمحے اپنے پڑھنے والوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس دعوتِ فکر میں اولاً اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے کہ تعصبات اور خودساختہ ذہنی تحفظات کے خول سے نکل کر ایک شخص اردگرد کی کائنات پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یہ خود اس کے اپنے ذہن کی تخلیق ہے؟ یا کسی اور اُس جیسے فرد یابہت سے افراد میں اجتماعی طور پر یہ قوت ہے کہ وہ اس طرح کی کائنات، چمکتا آسمان، گرجتے بادل، کڑکتی بجلی، بلندوبالا پہاڑ، وادیاں، سبزہ زار اور بدلتے موسم، غرض ایک عالمِ رنگ و بو کو پیدا کرسکیں یا اس نظامِ ہستی کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کرسکیں یا عقل و تجربہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق اور مالک جو مدّبر و قوی ہو، حی و قیوم ہو، ہونا چاہئے۔ گویا انسان کو اپنا سراغ لگانے کے لئے جس کسی نکتے سے فکر کا آغاز کرنے کی دعوت دی جاتی ہے وہ فکر آخرکار اسے حق و صداقت تک پہنچنے کے لئے ایک عقلی سفر پر لگا دیتی ہے۔
یہی وہ فکر ہے جسے ہم قرآنی اور مسلم فکر سے تعبیر کرسکتے ہیں اور جو موجود ذرائع علم کا جہاں تک ممکن ہو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سفر اختیار کرسکتی ہے جس کا مقصد محض فکری اٹھکیلیاں نہ ہوں، بلکہ اصلاحِ حال اور تعمیر ِمستقبل کے لئے نظامِ حیات کی تلاش ہو۔ اس پُرمعنی عمل کو قرآنِ کریم فکر اور ذکر سے تعبیر کرتا ہے، یعنی وہ فکر جو مشاہدے، یاد دہانی، تجزیے اور تجربے کے ذریعے انسان کو اپنی منزل کے تعین میں راہ نمائی اور امداد فراہم کرسکے۔ اسی لئے علمِ نافع کی اصطلاح کا استعمال اس فکر کے لئے کیا جاتا ہے جو تعمیری و متحرک ہو اور مستقبل کا شعور رکھتی ہو۔
قرآنِ کریم نے دنیا اور آخرت کی فکر پر بار بار اسی لئے متوجہ کیا ہے کہ فکر محض دنیاوی معاملات تک محدود نہ ہو بلکہ انسان کو اس کی حقیقی منزل اور مقام تک کامیابی کے ساتھ لے جانے میں مددگار ہو۔ وہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا نہ پھرے۔ وہ ہر پگڈنڈی پر نہ چل پڑے بلکہ صراطِ مستقیم پر استقامت اور صبر کے ساتھ گامزن رہے، حتیٰ کہ اپنے مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایسا راستہ اختیار کرلے جو اس کے رب کا پسندیدہ اور مقرر کردہ راستہ ہو۔ انسانوں کا جو گروہ اس تعمیری فکری عمل میں مصروف ہوتا ہے اسے قرآنِ کریم قَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ قرار دیتا ہے (مزید ملاحظہ ہو: النحل :۱-۱۱)۔ اس تعمیری فکری عمل کو وحیِ الٰہی کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم ان لوگوں کو جو فکر کرنے والے ہوں، یوں مخاطب کرتا ہے: 
’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لئے اُتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ (خود بھی) غوروفکر کریں۔‘‘  (النحل : ۴۳-۴۴)
انسان کو یہ دعوتِ فکر محض کائنات یا خود اپنے نفس کی جانب نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کے سمجھنے کی طرف دی جارہی ہے تاکہ وحیِ الٰہی کے تمام پہلوئوں کو سمجھنے کے بعد وہ عقلی رویہ اختیار کرسکے جو اس ہدایت کا مقصود و مطلوب ہے۔ آخرکار یہی فکری عمل وحیِ الٰہی میں موجود ہدایات و اصول پر غوروفکر کرنے کے نتیجے میں جدید مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کرے گا، اور اس طرح وحی کے غیرمتغیر اور مستقل وجود کے تعامل سے، تغیر حالات و زمانہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا۔ اگر وحیِ الٰہی کے سمجھنے کے فکری عمل میں جمود آ جائے تو مسائل کے حل کا عمل جو دراصل ترقی کا عمل ہے اپنی رفتار کھو بیٹھتا ہے اور اُمت جمود اور تقلید کا شکار ہوجاتی ہے۔ اجتہاد گویا وحیِ الٰہی اور اس کے مقصد کو سمجھنے کے بعد وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایت کو جدید حالات پر منطبق کرنے کا نام ہے۔ یہ خود رائی اور اپنی ذہنی اپج کو اسلامی حل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔ قرآنِ کریم فکروذکر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے ہر پڑھنے والے کو ایسی فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے روزمرہ کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور، ثقافتی مسائل کا حل تلاش کرسکے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو فکر ِاسلامی کا تابع بناسکے۔ اسلامی فکر محض عقیدے کے باریک مسائل اور غیرمرئی روحانی مسائل کو سمجھنے کا نام نہیں ہے جسے بالعموم الٰہیات یا مابعد الطبیعیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی کے ہرشعبے میں وحیِ الٰہی اور موجود ذرائع علم کے استعمال کے ذریعے مسائل کے حل کرنے کے عمل کا نام ہے۔قرآنِ کریم کی دعوتِ فکر کسی خاص موضوع تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگرچہ بعض ایسے پہلو بھی ہیں جو روزانہ مشاہدے میں تو آتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ان پر غور کرتے ہیں، قرآن ان کی طرف متوجہ کرتا ہے اور انھیں فکری عمل کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بناتا ہے: 
’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقتِ مقرر کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں۔‘‘(الزمر :۴۲)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK