انہوں نے اس وقت کے غلام ہندوستان کو یہ یقین دلایا کہ اس کی اپنی ثقافت، اپنا فنونِ لطیفہ اور اپنا جمالیاتی شعور دنیا کے کسی بھی فن سے کم نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: June 27, 2025, 3:12 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
انہوں نے اس وقت کے غلام ہندوستان کو یہ یقین دلایا کہ اس کی اپنی ثقافت، اپنا فنونِ لطیفہ اور اپنا جمالیاتی شعور دنیا کے کسی بھی فن سے کم نہیں ہے۔
اونیندر ناتھ ٹیگور(Abanindranath Tagore) بنگال کے ایک نامور مصور، مصنف اور فنونِ لطیفہ کے مصلح تھے جنہوں نے ہندوستانی مصوری کو ایک نئی شناخت دی۔انہوں نے روایتی ہندوستانی طرزِ مصوری، خصوصاً مغل، راجستھانی اور اجنتا کے انداز کو اختیار کرتے ہوئے ایک نئی فنکارانہ تحریک کی بنیاد رکھی جسے’’بنگال اسکول آف آرٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اونیندر ناتھ ٹیگور کی پیدائش ۷؍ اگست ۱۸۷۱ء کو کلکتہ (موجودہ کولکاتا) کے ایک مہذب اور تعلیم یافتہ بنگالی خاندان میں ہوئی تھی جو ٹیگور خاندان کے نام سے مشہور تھا۔ وہ عظیم شاعر اور نوبیل انعام یافتہ رَابیندرناتھ ٹیگور کے بھتیجے تھے۔ ان کے والد گنندر ناتھ ٹیگور بھی علمی و تخلیقی ذوق رکھتے تھے۔اونیندرناتھ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول اور پھر گورنمنٹ اسکول آف آرٹس، کلکتہ سے حاصل کی ۔یہاں انہوں نے مغربی مصوری کی تربیت حاصل کی۔ ابتدا میں ان پر یورپی اندازِ مصوری کا گہرا اثر تھا مگر جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ انداز ہندوستانی جذبات، روحانیت اور قومی تشخص کے اظہار کیلئے موزوں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانوی موجد جارج کیلی کو ’’فادر آف ماڈرن ایوی ایشن‘‘ کہاجاتا ہے
اونیندر ناتھ ٹیگور کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے فن کی بنیاد رکھی جو مکمل طور پر ہندوستانی تھا جسے بعد میں ’’بنگال اسکول آف آرٹ‘‘ کے نام سے جانا گیا۔ انہوں نے مغل، راجپوت اور اجنتا کے غاروں کی مصوری سے تحریک لی ۔ان کا انداز نرمی، لطافت اور روحانیت سے لبریز ہوتا تھا جس میں پانی کے رنگوں (water colours) کا کمال نظر آتا ہے۔ ان کا مقصد فن کو محض ایک تکنیکی عمل کے بجائے قومی، تہذیبی اور روحانی تشخص کے اظہار کا ذریعہ بنانا تھا۔ ان کی مشہور ترین تخلیق ’’بھارت ماتا‘‘ ہے جس میں ایک سادہ لباس میں ملبوس خاتون کو چار ہاتھوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، جو علم، اناج، کپڑا اور روحانی روشنی کی علامت ہیں۔ یہ تصویر آزادی کی تحریک کے دور میں ایک علامتی قوت بن کر ابھری تھی۔
اونیندرناتھ نے جاپانی اور چینی مصوری سے بھی گہرے اثرات قبول کئے۔ وہ مشرقی ایشیائی فنون کی روحانی گہرائی اور علامتی لطافت سے بہت متاثر تھے۔ ان کی کاوشوں سے ہندوستانی مصوری کو ایک نیا رُخ ملا جو محض نقل پر مبنی نہ تھا بلکہ اپنی تہذیبی شناخت رکھتا تھا۔ انہوں نے جاپانی فنکاروں سے روابط استوار کئے اور ایشیائی آرٹ کی وحدت پر زور دیاتاکہ برطانوی اثرات کے مقابل ایک مضبوط مشرقی فنکارانہ روایت کھڑی کی جا سکے۔
اونیندرناتھ ٹیگور ایک بلند پایہ مصور ہونے کے ساتھ ایک حساس اور تخلیقی ادیب بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں بچوںکیلئے لکھی گئی کہانیاں، بنگالی لوک روایات اور تاریخی افسانے شامل ہیں۔ ان کی مشہور کتابیں’’راج کہانی‘‘(Raj Kahini)، ’’کھیرکی گڑیا‘‘(Khirer Putul) اور’’بوڑھا انگریز‘‘ (Budo Angla) ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف بچوں کو محظوظ کرتی تھیں بلکہ ان میں اخلاقی، قومی اور روحانی تربیت کے عناصر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی زبان سادہ، دلنشین اور خیالی دنیا سے لبریز ہوتی تھی جو بچوں کی نفسیات سے ہم آہنگ تھی۔اونیندر ناتھ ایک عظیم معلم بھی تھے۔ انہوں نے ’’گورنمنٹ اسکول آف آرٹس‘‘، کلکتہ میں بطور وائس پرنسپل خدمات انجام دیں اور بے شمار ہنر مند مصوروں کی تربیت کی جن میں نند لال بوس، اسیت ہلدار، اور کیشو داس جیسے نامور فنکار شامل ہیں۔ اونیندرناتھ ٹیگور کا انتقال۵؍دسمبر ۱۹۵۱ءکوکلکتہ، مغربی بنگال میں ہوا تھا۔