• Tue, 09 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنگالی مصنفہ اور تعلیم نسواں کی علمبردار: بیگم رقیہ سخاوت حسین

Updated: May 18, 2024, 12:54 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

غیر معمولی کارنامے سرانجام دینے والی خواتین کو ’رقیہ پدک‘سے بھی نوازا جاتا ہے۔ انہوں نے معاشرے میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دیا۔

Begum Rokeya Sakhawat Hossain was one of the leading science fiction writers of her time. Photo: INN
رقیہ بیگم اپنے وقت کی اہم سائنس فکشن نگاروں میں سے ایک تھیں۔ تصویر : آئی این این

رقیہ سخاوت حسین(Rokeya Sakhawat Hossain)جنہیں بیگم رقیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ممتاز بنگالی مصنفہ ، مفکر، ماہر تعلیم ،سیاسی کارکن اور ہندوستان اور بنگلہ دیش میں خواتین کی آزادی کی علمبردار تھیں۔رقیہ بیگم نہ صرف گھر والوں کے مرضی کے خلاف خود تعلیم حاصل کی بلکہ مسلم خواتین جو تعلیمی میدان میں پیچھے تھیں ان کی تعلیم کیلئے تحریک چلائی اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئیں۔
 رقیہ بیگم کی پیدائش مشرقی بنگال( موجودہ بنگلہ دیش) کے رنگ پور میں۹؍ دسمبر ۱۸۸۰ء کو ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی تھی۔اس زمانے میں خواتین کی تعلیم کا رواج نہیں تھا لیکن وہ رازداری کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کی مدد سے اپنی تعلیم کی پیاس بجھانے میں کامیاب رہیں۔رقیہ کی بہن کریم النسا اردو ، عربی اور فارسی جانتی تھیں۔ اس طرح بھائی بہنوں کی مدد سے رقیہ اپنی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے بہت جلد پڑھ لکھ گئیں۔ ۱۶؍ سال کی عمر میں ان کی شادی بھاگلپور کے ڈپٹی مجسٹریٹ سخاوت حسین سے ہوگئی اور وہ ان کے ساتھ کٹک چلی گئیںجہاں ان کی ملاقات برہمو سماج کے سیکریٹری سادھو چرن رے کی اہلیہ ریبا رے سے ہوئی جنہوں نے رقیہ کو حقوق خواتین کی تحریک سے جوڑ لیا۔سخاوت حسین تعلیم نسواں کے زبر دست حامی تھے۔ وہ رقیہ کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔
 شادی کے تین سال کے اندر رقیہ انگریزی میں مضامین لکھ کر شائع کرانے لگیں۔ ۱۹۰۵ء میں ’سلطانہ کا خواب‘ کے نام سے ان کی پہلی تصنیف سامنے منظر عام پر آئی۔ رقیہ کے شوہر کا ۱۹۰۹ء میں انتقال ہو گیا۔ان کی وفات کے بعد رقیہ نے اپنے شوہر کی یاد میں مسلم بچیوںکیلئے سخاوت میموریل مدرسہ قائم کیا جس کی شروعات فقط ۵؍ لڑکیوں سے ہوئی۔ بیگم رقیہ کو لڑکیوں کو اسکول لانے کیلئے بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ وہ گھر گھر گئیں اور والدین کو سمجھایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کتنی ضروری ہے۔وہ ان خاندانوں سے ملیں جو لڑکیوں کو اسکول بھیجنے سے کتراتے تھے یا جو ان کی تعلیم کے خلاف تھے۔ پھر اکثر والدین نے یہ شرط رکھی کہ لڑکیاں صرف اس صورت میں پڑھنے جائیں گی جب ان کے پردے کا سختی سے خیال رکھا جائے۔ بیگم رقیہ نے اس کا پورا انتظام کیا اور پھر وقت کے ساتھ یہ طالبات کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔یہ مدرسہ آج سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلز اسکول کی شکل میں کولکاتا میں موجود ہے۔
 ۱۹۱۶ءمیں انہوں نے بنگال کے مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی کیلئے آل بنگال مسل لیڈیز اسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی اور اس تنظیم نے غریب ناداروںکیلئے اسکول قائم کیا ۔کلکتہ میں انہوں نے ’انجمن خواتین اسلام ‘ نامی ایک ادارہ بھی قائم کیاجو مسلم خواتین کی بہبود کیلئے کام کرتا تھا۔بنگلہ دیش میں ہر ۹؍دسمبر کو ان کی یاد میں `’’رقیہ دیوس‘‘یا قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے اور انہیں غیر منقسم بنگال میں حقوق نسواں کے انقلاب کو فروغ دینے کیلئےیاد کیا جاتا ہے۔ ان کے نام سے متعدد تعلیمی ادارے اور راستے منسوب ہیں۔ رقیہ بیگم کا انتقال ۹؍ دسمبر ۱۹۳۲ء کو ۵۲؍ سال کی عمر میں کولکاتا میں ہوا تھا۔n
(وکی پیڈیا )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK