انہوں نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر بے شمار پمفلٹس اور مضامین لکھے جن کی بدولت انہیں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔
EPAPER
Updated: July 11, 2025, 4:50 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
انہوں نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر بے شمار پمفلٹس اور مضامین لکھے جن کی بدولت انہیں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔
ڈینیل ڈیفو(Daniel Defoe) مشہور برطانوی ادیب، صحافی، ناول نگار اور سماجی مبصر تھے۔انہیں جدید انگریزی ناول کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے تقریباً۵۰۰؍سے زائد پمفلٹ، مضامین اور کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں جن میں سیاست، مذہب، معیشت، اخلاقیات اور معاشرتی اصلاحات شامل ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف ان کے عہد کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ دور رس اثرات بھی رکھتی ہیں۔
ڈینیل ڈیفو کی پیدائش۱۶۶۰ء کے قریب لندن میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام’’ ڈینیل فو‘‘ (Daniel Foe) تھا جسے بعد میں انہوں نے ’’ڈیفو‘‘ بنا لیا تاکہ اسے اشرافیہ کا رنگ دیا جا سکے۔ وہ ایک پروٹسٹنٹ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد ایک قصائی تھے، مگر ان کا خواب تھا کہ ان کا بیٹا ایک مذہبی اسکالر بنے۔ ڈیفو نے اپنی تعلیم ڈیسنٹنگ اکیڈمی میں حاصل کی جو اُس وقت کے رسمی چرچ سے ہٹ کر ایک آزاد تعلیمی ادارہ تھا، جہاں انہوں نے مذہب، زبان، تاریخ، اور جدید علوم کی تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ انہوں نے ابتدا میں تجارت کو اپنایامگر کاروبار میں ناکامی کے بعد وہ قلم کے میدان میں اتر آئے۔
ڈیفو کا سب سے معروف اور تاریخی ناول ’’رابنسن کروسو‘‘ (Robinson Crusoe) ہے جو۱۷۱۹ء میں شائع ہوا اور جسے انگریزی زبان کا پہلا جدید ناول سمجھا جاتا ہے۔ یہ ناول ایک حقیقی واقعے پر مبنی ہے جو ایک ملاح الیگزینڈر سیلکرک کی زندگی سے متاثر تھا جو کئی برس ایک ویران جزیرے پر تنہا زندگی گزارتا رہا۔ اس ناول میں ڈیفو نے انسانی حوصلے، محنت، مذہبی رجوع اور تہذیب کے ارتقا کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی دوسرے اہم ناول تحریر کئے جیسے’’مول فلینڈرز‘‘(Moll Flanders)جو اصلاح نسواں کے موضوع پر ہے۔’’کرنل جیک‘‘،’’روکزانہ‘‘ (Roxana) اور ’’ اے جرنل آف دی پلاگ ایئر‘‘(A Journal of the Plague Year) جو ۱۶۶۵ءکے لندن میں طاعون کی وبا کے دوران حالات پر مبنی نیم تاریخی دستاویز ہے۔ ان سب میں ڈیفو کی تحریر کی سب سے اہم خصوصیت ان کی حقیقت نگاری اور تفصیل نگاری ہے۔ ان کا طرز تحریرکہانی پیش کرنے کا طریقہ اس قدر سادہ، صاف اور بیانیہ انداز کا تھا کہ قاری کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی ذاتی ڈائری پڑھ رہا ہے، نہ کہ محض افسانہ یا کہانی۔
ڈیفو کی سیاسی تحریریں بھی بے حد اہم ہیں۔ انہوں نے مذہبی اقلیتوں، شہری آزادیوں اور آزاد صحافت کے حق میں آواز بلند کی۔ ان کا مشہور پمفلٹ’’The Shortest Way with the Dissenters‘‘ طنزیہ انداز میں لکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں ۱۷۰۳ءمیں قید کر دیا گیا اور عوامی طور پر رسوا بھی کیا گیا، لیکن جلد ہی وہ دوبارہ منظر عام پر آ گئے اور’’دی ریویو‘‘ کے نام سے ایک جریدہ جاری کیاجو ابتدائی انگریزی صحافت کا اہم سنگ میل ہے۔ ڈیفو نے کئی سفرنامے، اخلاقی نصیحتوں پر مبنی کتابیں اور بچوںکیلئے کہانیاں بھی لکھیںجو ان کی علمی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
ان کا قلمی ورثہ اتنا وسیع ہے کہ مختلف ادوار کے لوگ ان کی تحریروں سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہے ہیں۔ ڈینیل ڈیفو نہ صرف ایک بہترین کہانی کار تھے بلکہ وہ ایک ایسے ادیب تھے جنہوں نے ادب کو عوامی زندگی، اخلاقیات اور اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ بنایا۔ڈینیل ڈیفو کا انتقال۱۴؍ اپریل ۱۷۳۱ء کو لندن میں ، برطانیہ میں ہوا تھا۔