Inquilab Logo Happiest Places to Work

فاطمہ بیگم، ہندوستانی سنیما کی پہلی خاتون ہدایت کار تھیں

Updated: December 08, 2023, 5:53 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

۱۹۲۶ء میں انہوں نے ممبئی میں اپنی پروڈکشن کمپنی’ فاطمہ فلمز‘ کی بنیاد ڈالی جو ۱۹۲۸ءمیں ’وکٹوریہ فاطمہ فلمز‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

Fatma Begum gave many wonderful films in her career. Photo: INN
فاطمہ بیگم نے اپنے کریئر میں کئی شاندار فلمیں دیں۔ تصویر : آئی این این

فاطمہ بیگم(Fatma Begum) ایک ہندوستانی اداکارہ، ہدایت کار اور اسکرین رائٹر تھیں۔ انہیں ہندوستانی سنیما کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹربھی سمجھا جاتا ہے۔اپنے فلمی کریئر کے دوران انہوں نےبہت سی فلمیں لکھیں ، پروڈیوس کیں اور ڈائریکٹ کیں۔ انہوں نے اپنا پروڈکشن ہاؤس،’ فاطمہ فلمز‘ کے نام سے شروع کیا تھا ، جو بعد میں ’وکٹوریہ-فاطمہ فلمز‘ بن گیا تھا۔
 فاطمہ بیگم کی پیدائش ۱۸۹۲ء کوہندوستان کے ایک اردو بولنے والے مسلمان گھرانے میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اردو تھیٹر کی تربیت حاصل کی اور اردو ڈراموں میں اداکاری کی۔ ان کی شادی نائٹ گرینڈ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر، نواب سیدی ابراہیم محمد یاقوت خان سوم سے ہونے کی بات کہی جاتی ہے لیکن شادی کا کوئی قانونی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ فاطمہ بیگم خاموش فلموں کی سپر اسٹار اداکارہ زبیدہ بیگم، سلطانہ اور شہزادی کی والدہ تھیں۔
انہوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز اردو اسٹیج سے کیا۔بعد میں وہ فلموں میں چلی گئیں ۔ان کی فلمی اداکاری کا آغاز ۳۰؍ سال کی عمر میں اردشیر ایرانی کی۱۹۲۲ء کی خاموش فلم’ ویر ابھیمنیو‘ سے ہوا تھا ۔فاطمہ بیگم کی ابتدائی فلموں میں ستی سردابا، پرتھی ولبھ، کالا ناگ ،اور گل بکاؤلی شامل ہیں۔ یہ تمام فلمیں ۱۹۲۴ء میں ریلیز ہوئی تھیں۔ ایک سال بعد وہ ’بمبئی نی موہنی‘ میں نظر آئیں ۔ فاطمہ ہندوستان کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے ۱۹۲۶ء میں بمبئی میں اپنی پروڈکشن کمپنی’ فاطمہ فلمز‘ کی بنیاد ڈالی جو ۱۹۲۸ء میں ’وکٹوریہ فاطمہ فلمز‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ انہوں نےکوہ نور اسٹوڈیوز اور امپیریل اسٹوڈیوز میں اداکارہ کے طور پر کام جاری رکھا جبکہ اپنے پروڈکشن ہاؤس کی فلموں کیلئے اسکرین رائٹر، اداکارہ اور پروڈیوسر کے طور پر کام کیا۔
 فاطمہ بیگم ۱۹۲۶ء میں فلم ’بلبلِ پرستان‘ کے ساتھ ہندوستانی سنیما کی پہلی خاتون ہدایت کار بنیں۔ اگرچہ اس وقت فلم کے کوئی کاپی یا پرنٹس موجود نہیں ہیں ، لیکن یہ ایک بڑے بجٹ کی فلم تھی جو فینٹسی فلم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس فلم کی زبردست کامیابی نے’الہٰ دین اینڈ دی ونڈر فل لیمپ ‘ (۱۹۳۱ء) جیسی خیالی فلم کی راہ ہموار کی جسے ان کے ساتھی اردشیر ایرانی نے پروڈیوس کیا تھا۔
اس دوران فاطمہ بیگم نے کچھ اور فلمیں کیں ۔ ۱۹۲۷ء میں انہوں نے ’ گوڈس آف لو‘ پیش کی۔ ۱۹۲۸ء میں ’ہیر رانجھا اور چندراؤلی کو پریزینٹ کیا۔ بطور ہدایت کار ان کی آخری فلم ’گوڈس آف لَک‘(۱۹۲۹ء) تھی۔
فاطمہ بیگم نے اپنی بیٹیوں (زبیدہ، سلطانہ اور شہزادی) کے اداکاری کے کریئر کو بھی سہارا دیا اور انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کیا۔ پہلی بولتی فلم’ عالم آرا ‘(۱۹۳۱ء) میں ان کی بیٹی زبیدہ ، اداکاری کرنے والی پہلی اداکارہ بنیں ۔فاطمہ بیگم کی بطور اداکارہ آخری فلم ’ دنیا کیا ہے‘(۱۹۳۷ء) تھی جس کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوگئیں۔ ان کے فلمی کریئر نے ان کی بہت سی صلاحیتوں اور خوبیوں کو اجاگر کیا ۔انہوں نے نہ صرف ہندوستانی سنیما کے اسٹوری ٹیلنگ کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے ہندی فلموں میں خواتین کے داخلے کو یقینی بنایا۔اس کے علاوہ فاطمہ بیگم نے دیگر خواتین فلم سازوں کیلئے بھی دروازے کھول دیئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے۱۵؍ سالہ شاندار کریئر کے دوران بنی فلموں کے ریکارڈز دستیاب نہیں ہیں ۔فاطمہ بیگم کا انتقال ۱۹۸۳ء میں ۹۱؍سال کی عمر میں ہوا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK