Inquilab Logo Happiest Places to Work

سبزپَری اور امجد

Updated: September 30, 2023, 12:30 PM IST | Ishtiaq Ahmed | Mumbai

امجد ایک پیارا بچہ تھا۔ بڑوں کا ادب کرتا تھا۔ ایک دن باغ میں اس کی ملاقات سبز پَری سے ہوتی ہے۔ امجد اور سبز پَری دوست بن جاتے ہیں اور روزانہ باغ میں ملتے ہیں۔ ایک دن پَری باغ میں نہیں آتی، کیوں؟ وجہ جاننے کے لئے پڑھئے کہانی:

Photo. INN
تصویر:آئی این این

امجد بہت پیارا گول مٹول سا لڑکا تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اپنا سبق فرفر سناتا تو اُستاد بہت خوش ہوتے۔ گھر میں اپنی امی کے کاموں میں مدد کرتا تو وہ خوش ہو کر اسے اپنے سینے سے چمٹا لیتیں ۔ شام کو اس کے ابّا جان گھر آتے تو وہ دوڑ کر ان سے لپٹ جاتا۔ غرض ہر کوئی اس سے پیار کرتا تھا کیونکہ وہ ماں باپ کا کہنا مانتا تھا۔ ان کا ادب کرتا تھا۔ 
 ایک دن وہ باغ کی سیر کرنے گیا۔ جس وقت وہ باغ میں پہنچا، دُور دُور تک کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف پھول کھلے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پھر پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔ جیسے کوئی بڑا سا پرندہ پھڑپھڑاتا ہو۔ امجد ڈر گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا لیکن کوئی پرندہ اسے نظر نہ آیا۔ ابھی وہ حیران ہی ہو رہا تھا کہ ایک بار یک سی آواز سنائی دی:
’’پیارے پیارے منے۔ تم حیران ہو کر چاروں طرف کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
 امجد نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا لیکن دور اور نزدیک اسے کوئی نظر نہ آیا۔ 
 آواز پھر آئی: ’’تم بہت اچھے ہو اور بہت پیارے ہو کیونکہ تمہاری عادتیں بہت اچھی ہیں ۔‘‘ امجد ڈرنے لگا کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں ۔ آخر اس نے ہمت کر کے پوچھا، ’’تم کون ہو؟ مجھے تو یہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘
 ’’میں تمہاری دوست ہوں ۔ تم اپنے ماں باپ کا کہنا مانتے ہو، اسکول کا کام وقت پر کرتے ہو۔ کسی کو دُکھ نہیں دیتے، کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ گندے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتے۔ تم امجد ہو نا؟‘‘
 ’’ہاں ، میں امجد ہوں مگر تم کون ہو؟‘‘
 ’’مَیں .... مَیں ایک پری ہوں ۔ مَیں ایک سبز پری ہوں۔‘‘
 ’’سبزپری؟‘‘ امجد نے حیران ہو کر کہا۔
 ’’ہاں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
 ’’مگر تم مجھے نظر کیوں نہیں آتیں ؟‘‘
 ’’ایسا ہو سکتا ہے، لیکن تمہیں اس کے لئے ایک وعدہ کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ تم کسی سے میرا ذکر نہیں کرو گے۔‘‘
 ’’مَیں وعدہ کرتا ہوں ۔‘‘
 اسی وقت پھر ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پیروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ دوسرے ہی لمحے سبزپری اُڑتی ہوئی اس کے پاس آکر رک گئی۔ اس کا سارا جسم سبز تھا، صرف بال کالے تھے۔
 ’’تو تم ہو سبزپری....‘‘ امجد نے کہا۔
 ’’ہاں ! اور میں تمہاری دوست ہوں ۔‘‘
 ’’کیا تم مجھے ہر روز اس جگہ ملنے آیا کروگی؟‘‘ ’’ہاں اور تمہارے لئے اچھے اچھے پھل بھی لایا کروں گی۔‘‘ پری نے کہا۔
 ’’اس کی کیا ضرورت ہے، ابا جان مجھے ہر روز پھل لا کر دیتے ہیں ۔‘‘
 ’’پرستان میں پھلوں کے لاکھوں درخت ہیں ۔ وہ تمہارے ہاں کے پھلوں سے زیادہ مزے دار ہوں گے۔‘‘
 ’’اچھا! پھر تو میں ضرور کھاؤں گا۔‘‘
 ’’اور میں تو تمہارے لئے آج بھی لائی ہوں ۔ یہ دیکھو.....‘‘
 امجد نے پری کے ہاتھ میں دو سیب دیکھے۔ یہ بالکل سرخ تھے۔ امجد نے ان میں سے ایک لے کر کہا، ’’ایک تم کھاؤ۔‘‘
 دونوں سیب کھانے لگے۔
 ’’پری باجی، یہ سیب تو واقعی بہت مزے کا ہے۔‘‘ امجد خوش ہو کر بولا۔
 ’’کل میں تمہیں پرستان کا کیلا کھلاؤں گی۔ اچھا اب مَیں چلتی ہوں ۔‘‘
 ہوا کا جھونکا امجد کے چہرے سے ٹکرایا اور پری غائب ہوگئی۔ 
 دوسرے دن وہ ٹھیک وقت پر باغ میں پہنچ گیا۔ آج یہاں کچھ اور لوگ بھی ٹہل رہے تھے۔ اس نے سوچا، شاید ان لوگوں کی موجودگی میں پری نہ آئے۔ لیکن جونہی وہ اس درخت کے نیچے پہنچا، ہوا کا جھونکا آیا اور پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
 ’’پری باجی! یہ دوسرے لوگ تمہیں دیکھ لیں گے۔‘‘ امجد نے گھبرا کر کہا۔
 ’’مَیں انہیں نظر نہیں آؤں گی۔‘‘
’’اچھا! یہ تو بڑے مزے کی بات ہے۔‘‘
 ’’مَیں تمہارے لئے دو کیلے لائی ہوں ۔‘‘ 
 امجد نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں دو لمبے لمبے سبز رنگ کے کیلے تھے۔ دونوں نے ایک ایک کیلا کھایا۔
 دن یونہی گزرتے رہے۔ وہ ہر روز پری سے ملتا رہا۔ ایک دن وہ پری سے ملنے کے لئے گھر سے نکلا۔ کچھ دُور ہی چلا ہو گا کہ سڑک پر ایک بوڑھی عورت کھڑی دکھائی دی۔ اس کے پیروں کے پاس ایک گٹھری پڑی تھی۔
 ’’بیٹا! ذرا یہ گٹھری تو اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو۔‘‘ وہ بولی۔
امجد رک گیا۔ اس نے بڑھیا کو غور سے دیکھا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی۔ امجد کو اس پر رحم آگیا۔ وہ گٹھری اٹھانے کے لئے جھکا ہی تھا کہ اسے سبزپری کا خیال آگیا، اس نے سوچا اگر مجھے دیر ہوگئی تو پری چلی جائے گی اور میں مزے دار آڑو کھانے سے رہ جاؤں گا۔ آج پری نے آڑو لانے کا وعدہ کیا تھا۔
 وہ بڑھیا سے بولا، ’’بوڑھی اماں ! مجھے ایک ضروری کام ہے، اس لئے میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ باغ میں وہ سیدھا اس درخت کے نیچے آیا لیکن آج نہ کوئی ہوا کا جھونکا آیا، نہ پروں کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ وہ گھبرا گیا۔
 پریشان ہوکر بولا، ’’پری باجی! آج تم کہاں ہو؟ دیکھو تمہارا دوست آگیا ہے۔ وہ تمہیں پکار رہا ہے۔‘‘
 اس نے خاموش ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ پری کا دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ دو تین مرتبہ اس نے پری کو پکارا، لیکن کوئی بھی جواب نہ ملا۔ اب تو اس کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب پری نہ آئی تو وہ اداس ہو گیا اور گھر لوٹ آیا۔
 ساری رات اسے نیند نہ آئی۔ وہ سوچتا رہا۔ آج پری کیوں نہیں آئی۔ میں نے تو اس کے متعلق کسی کو بتایا بھی نہیں ۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو گئی ہو شاید اسے بخار ہوگیا ہو۔ یا پھر نزلہ زکام نہ ہوگیا ہو۔ ہو سکتا ہے اسے ٹھنڈ لگ گئی ہو اور نمونیا ہو گیا ہو۔
رات بھر وہ سوچتا رہا پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوسرے دن وہ پھر مقررہ وقت پر باغ میں پہنچ گیا، لیکن پری اس دن بھی نہ آئی۔ پھر تین دن اسی طرح گزر گئے۔ چوتھے دن اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا اٹھے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مایوس ہوگیا۔ 
 عین اسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا، پروں کی آواز آئی۔ وہ خوش ہوگیا۔ اس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ دوسرے ہی لمحے پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
 ’’پری باجی! تم چار دن کہاں رہیں ؟‘‘ اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔ 
 ’’مَیں تم سے ناراض ہوں ۔‘‘ پری بولی۔
 ’’کیوں پری باجی! میں نے تو کسی سے آپ کا ذکر تک نہیں کیا۔‘‘
 ’’یہ ٹھیک ہے، لیکن کیا تم جانتے ہو، اس دنیا میں سب سے بڑی نیکی کیا ہے۔ دوسری کے کام آنا۔ اس دنیا کے سردار پیارے نبی حضرت محمدﷺ بھی دوسروں کے کام آیا کرتے تھے۔ وہ بوڑھی عورتوں کا بوجھ خود اٹھا لیا کرتے تھے، اور تم .... تم نے چند آڑوؤں کی خاطر اس بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی۔‘‘
 ’’اوہ!‘‘ امجد کے منہ سے نکلا۔ اب اسے پری کے نہ آنے کی وجہ معلوم ہوئی۔
 ’’جب میں نے دیکھا کہ تم نے بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی تو میں تم سے ناراض ہوگئی اور اس لئے تمہارے پاس نہیں آئی۔‘‘
 ’’پری باجی! مجھے معاف کر دو مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ اب ایسی غلطی مجھ سے کبھی نہیں ہوگی۔ میں ہمیشہ دوسروں کے کام آؤں گا۔ غریبوں ، یتیموں اور بوڑھوں کے کام آؤں گا۔‘‘ امجد بولا۔
 ’’شاباش! اب ہم پھر دوست ہیں ۔ میں تمہیں بتاؤں ، وہ بڑھیا میں ہی تھی اور تمہارا امتحان لینا چاہتی تھی۔‘‘ امجد سبزپری کی بات سن کر حیران رہ گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK