Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’بلبل کشمیر ‘‘ کےلقب سےمشہور حبہ خاتون شاعرہ اور گیت کار تھیں

Updated: May 03, 2025, 3:47 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

انہوں نےکشمیری ادب میں گیت لکھنے کی بنیاد رکھی، کشمیری شاعری میں غزل کی ترویج کا کارنامہ بھی انجام دیا، ان کے کلام میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔

Habba Khatoon was also fluent in Persian, but chose Kashmiri for poetry. Photo: INN
حبہ خاتون کوفارسی پر بھی عبور حاصل تھا، مگر شاعری کیلئے کشمیری زبان ہی کا انتخاب کیا۔ تصویر: آئی این این

حبہ خاتون(Habba Khatoon) کا شمار کشمیری زبان کے ناموَر شعراء میں ہوتا ہے۔ انہیں ’’بلبل کشمیر ‘‘(The Nightingale of Kashmir) بھی کہا جاتا ہے۔قدرت نےانہیں ذوقِ شاعری کے علاوہ حُسن و جمال اور غیر معمولی ذہانت سے بھی نوازا تھا۔ان کا اصل نام’’ زون‘‘ یا زن تھا (کشمیری زبان میں زوٗن چاند کو کہتے ہیں)، یہ ایک کشمیری نام ہے۔ روایات کے مطابق انہیں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے زون کہا جاتا تھا۔ 
 حبہ خاتون ۱۵۵۴ءمیں سری نگر سے۴۰؍ کلومیٹردُور، ضلع پلوامہ کے گائوں چندن ہارمیں پیدا ہوئی تھیں۔ان کے والد عبدل یا عابدی راتھر اور والدہ جانم کسان تھیں۔زمانے کی روش کے برعکس دونوں نے حبہ خاتون کی تعلیم کی طرف خصوصی توجّہ دی ۔انہوں نے گاؤں کے مولوی سے پڑھنا لکھنا سیکھا تھا۔حبہ خاتون کی شادی برادری کے ترکھان، عزیز جہاں راتھر سے ہوئی۔ حبہ کے سسرال والے اس شادی سے خوش نہیں تھے ۔ وہ انہیں آسیب زدہ تصوّر کرکے ان پر ظلم کرتے تھے۔اسی دوران حبہ خاتون کی ملاقات ایک بزرگ شیخ مسعود سے ہوئی، تو انہوں نے حبہ کو ’’کشمیر کی ملکہ‘‘ بننے کی نوید سُنائی اور اُسے اپنا نام زون سے بدل کر حبہ خاتون رکھنے کی تجویز دی۔ بلا آخر یہ بے جوڑ شادی اپنے انجام کو پہنچی اور زون واپس اپنے والدین کے گھر آگئیں۔اب زون اپنے نئے نام ’’حبہ خاتون‘‘ سے پکاری جانے لگی تھی۔وہ وقت بھی جلد ہی آگیا جب ان کی دوبارہ شادی کشمیر کے بادشاہ یوسف شاہ چک،جو اُن دِنوں کشمیر کے تخت کا وارث شہزادہ تھے، سے ہوگئی۔اس طرح وہ کشمیر کی ہونے والی ملکہ بن کر یوسف شاہ کے محل میں چلی گئیں۔
 حبہ خاتون کو فارسی پر بھی عبور حاصل تھا مگر شاعری کیلئے کشمیری زبان ہی کا انتخاب کیاجس سے علاقائی ادب کو فروغ ملا۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’بلبل کشمیر‘‘بھی کہا جاتا ہے۔اُن کا بیش تر کلام گائوں کی عام عورت کی مشکلات اور معاشرے کی پیدا کردہ گھٹن ہی کے اردگرد گھومتا ہے۔تبصرہ نگاروں کے نزدیک حبہ خاتون نے کشمیری ادب میں جہاں گیت لکھنے کی بنیاد رکھی وہیں کشمیری شاعری میں غزل کی ترویج کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ نیز، راگ راست کشمیری بھی انہی کی ایجاد ہے۔ درباری زندگی تک ان کے کلام میں زیادہ صوفیانہ رنگ موجود نہ تھا مگر اپنےشوہر کے انتقال کے بعد کلام میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہوگیا۔
 حبہ خاتون گیت کار اور موسیقار دونوں حیثیت سے شہرت رکھتی ہیں۔ ان کی طویل نظمیں ’’وزن‘‘ گیتوں میں شامل  ہیں جو کشمیری شاعری کی مقبول صنف ہے۔ لیکن ان کی مقبولیت کا سبب ان کی غزلیں ہیں۔ انہیں موجودہ کشمیری غزل کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر حبہ خاتون کی شاعری۱۶؍ ویں صدی کی نمائندہ شاعری ہے۔ سادگی و سلاست کے باوجود زبان و بیان پر فارسی شاعری کا اثر غالب ہے۔ان کی شاعری میں عصری آگہی کا بھرپور عکس پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
 مغل بادشاہ اکبر کے ذریعے کشمیری بادشاہ اور حبہ خاتون کے شوہر یوسف چک کو ایک منصوبے کے تحت قید کرلیا۔گرفتاری کے کچھ عرصے بعد یوسف شاہ کو رہائی تو مل گئی مگر کشمیر واپس جانے کی اجازت نہ ملی اور ان کا جلا وطنی ہی میں انتقال ہو گیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد حبہ نے شاہانہ ماحول کو خیر باد کہا اور دریائے جہلم کے کنارے ایک کُٹیا میں رہنے لگی،جہاں ۲۰؍ برس رہنے کے بعد ۱۶۰۹ء میں وہ خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ ان کا مزارسری نگر کے قریب واقع ایک گاؤں میں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK