Inquilab Logo

موٹوؤں کا گھر

Updated: September 09, 2023, 12:17 PM IST | Ramlal | Mumbai

پپو کے گھر کے سبھی لوگ بہت موٹے تھے۔ اتفاق سے صرف پپو دبلا پتلا تھا۔ اس بات کا اسے بے حد افسوس تھا مگر اس کے گھر والے اس کے دبلے پن سے بے حد خوش تھے۔ پپو موٹا ہونے کیلئے خوب کھانے لگا، پھر آگے کیا ہوا؟ یہ جاننے کیلئے پڑھئے دلچسپ کہانی:

Photo. INN
تصویر:آئی این این

یہ صرف اتفاق کی بات ہے کہ پپو کے گھر کے سب ہی لوگ موٹے تھے۔ نہ صرف موٹے بلکہ بہت زیادہ موٹے۔ اُس کے پاپا، اُس کی ممی، اُس کی دادی، اُس کے دادا، اُس کے دونوں بھائی بہن یعنی شیٹی اور کنو کے بھی ایک جیسے ڈیل ڈول تھے۔ چھوٹے سے گھر کے آدھے درجن لوگوں کے اس قدر موٹا ہونے کی وجہ سے وہ گھر کسی سنیما کی طرح ہمیشہ ’ہاؤس فُل‘ نظر آتا تھا۔ اگر وہاں کوئی شخص دبلا پتلا تھا تو وہ تھا پپو۔
 اُس گھر میں صرف پپو کیوں دُبلا پتلا تھا، اُس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن وہ سب بے حد خوش تھے کہ اُن کی فیملی کا ایک ممبر تو دبلا پتلا ہے۔ اس لئے وہ سب پپو سے بہت پیار کرتے تھے۔ نہ صرف پیار کرتے تھے بلکہ اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے تھے کہ کہیں پپو ان کی طرح موٹا نہ ہو جائے۔ اسی لئے پپو کی خوراک کا خاص خیال رکھا جاتا۔ اس کے کھانے پینے کی چیزوں میں کبھی کسی ایسی چیز کو استعمال نہ ہونے دیا جاتا جس سے اس کے ذرا سا بھی موٹا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہو۔ گھر کا ہر آدمی پپو پر کڑی نگاہ رکھتا تھا کہ وہ کہیں بھولے سے بھی کوئی ایسی ویسی چیز نہ کھا بیٹھے۔ وہ سمجھتے تھے اُن کے موٹے خاندان کا نام یہی دھان پان پپو روشن کرے گا۔
 پپو جب دس سال کا ہوگیا تو وہ بہت کمزور سا لڑکا تھا۔ بالکل چھڑی کی طرح پتلا۔ اسے اپنے دُبلے ہونے کا احساس ہر وقت ستاتا وہ بہت اداس رہنے لگا۔ پہلے تو وہ اپنے اردگرد اتنے سارے موٹے موٹے دادا، دادی، ممی، ڈیڈی اور دونوں بھائی بہنوں کو دیکھ دیکھ کر خوب ہنسا کرتا تھا۔ لیکن اب ان ہی لوگوں کے درمیان وہ خود کو اجنبی سمجھنے لگا، جیسے وہ سب اُسے کسی اور گھر سے چرا کر اپنے یہاں لے آئے ہوں۔ اگرچہ وہ سب اُس سے ہر وقت پیار دلار ہی کرتے تھے، لیکن پپو کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ اُسے اپنے قبضے میں رکھے رہنے کے لئے ہی اُس کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کرتے ہیں اور وہ اس کے کھانے پینے، آنے جانے پر اس لئے پہرہ بٹھاتے ہیں۔ وہ کہیں بھاگ نہ جائے۔ وہ جب اتنا زیادہ دُبلا پتلا رہے گا تو بھاگ بھی کیسے سکے گا؟
 یہی سوچ کر پپو نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب وہ بھی موٹا بن کر رہے گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اُس سے یہ بات کسی طرح برداشت نہیں ہوتی تھی کہ گھر کے سارے لوگ تو پانچ کلو سے لے کر بیس بیس کلو وزن کی خوراک روزانہ ڈکار جائیں، لیکن اُسے ڈھائی سو گرام سے بھی کم کھانے کو دیا جائے۔ وہ اب کسی نہ کسی طرح موقع پا کر اُن کی خوراک کا تھوڑا تھوڑا حصہ چرا کر کھا جاتا۔ شروع شروع میں تو کسی کو پتہ نہ چلا، لیکن جب وہ دھیرے دھیرے موٹا ہونے لگا تو گھر کے سب لوگ چوکنے ہوگئے۔ وہ سمجھ گئے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
 یہ گڑ بڑ کیسی تھی، کوئی بھی نہ جان سکا۔ پپو اُن سب لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوں پر ایسی صفائی سے تھوڑا تھوڑا ہاتھ مارتا تھا کہ وہ اس کی چوری پکڑ ہی نہیں سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کو یہ شک ہونے لگا کہ پپو اسکول میں جا کر کچھ نہ کچھ آلتو فالتو کھا لیتا ہے۔ اگرچہ اس کے ٹیچروں کو سخت ہدایت کی جاچکی تھی کہ ان کے پپو کو کوئی بھی چیز کھانے پینے کے لئے نہ دی جائے۔ یوں بھی پپو جس اسکول میں پڑھتا تھا وہاں دور دور تک کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے ٹھیلوں کا نام نشان تک نظر نہیں آتا تھا اور پپو کے ڈیڈی خود ہی روزانہ اسے اپنی موٹر میں بٹھا کر اسکول میں چھوڑ آتے تھے اور وہاں سے لے کر آتے تھے۔
 اتنی احتیاط اور کڑے پہرے کے باوجود پپو بھی اپنے گھر والوں کی طرح موٹا ہونے لگا تو اُسے اسکول بھیجنا بند کر دیا گیا۔ اُسے گھر پر ہی آکر پڑھانے کے لئے ایک ٹیچر کا انتظام کر لیا گیا تاکہ وہ چوری سے کھا پی نہ سکے۔ ٹیچر کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ وہ بھی بہت ہی دبلا پتلا ہو تاکہ اُس کا اثر پپو بھی قبول کرسکے۔
جس کمرے میں پپو کیلئے پڑھنے لکھنے کا انتظام کیا گیا تھا وہاں چاروں طرف دیواروں پر چھوٹی چھوٹی، بڑی خوبصورت تختیاں لگی ہوئی تھیں جن پر لکھا تھا:
 موٹا ہونا انسان کا سب سے بڑا عیب ہے۔
موٹے آدمی کا ساری دُنیا مذاق اُڑاتی ہے۔
موٹے آدمی کی عقل بھی موٹی ہوتی ہے۔
اگر تم ہمالیہ کی سے اونچی چوٹی پر پہنچنا چاہتے ہو تو کبھی موٹے نہ بنو۔
پپو اس قسم کی نصیحتیں پڑھ پڑھ کر سوچ میں ڈوب جاتا۔ اب اُسے کھانے پینے کی چیزیں چرانے کا کوئی موقع نہیں مل پاتا تھا۔ اس وجہ سے اُس کا من بہت دکھی رہتا تھا۔ ایک روز اس کے ٹیچر نے اُسے کھویا ہوا دیکھ کر سمجھایا، ’’پپو دل لگا کر پڑھو۔ پڑھ لکھ کر تم بہت بڑے آدمی بن سکوں گے۔‘‘
 پپو نے بڑی حیرانی سے پوچھا، ’’سر! میں پڑھ لکھ کر کتنا بڑا آدمی بن سکوں گا؟‘‘
 اُس کے ٹیچر نے جواب دیا، ’’جج، پرنسپل، سائنسداں، ڈاکٹر یا....‘‘ ’’یا کیا سر؟‘‘ پپو نے بڑی معصومیت سے پھر پوچھا۔
 اس کے ٹیچر نے سوچ سوچ کر بتایا، ’’ایک بہت بڑا شاعر یا فوج کا کمانڈر یا ہوائی جہاز کا پائلٹ یا سمندری جہاز کا کپتان بھی!‘‘ یہ سن کر پپو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بولا، ’’سر، مَیں پڑھ لکھ کر بہت بڑا موٹا آدمی نہیں بن سکتا؟‘‘
 یہ سن کر اُس کا ٹیچر تو خاموش رہ گیا لیکن اسکے سارے گھر والے جو دروازے کے پاس ہی کھڑے اُن کی باتیں سن رہے تھے فوراً اندر آگئے اور پپو کے گرد گھیرا ڈال کر بڑے پیار سے اس سے پوچھنے لگے: ’’پپو بیٹے! تم آخر موٹا کیوں بننا چاہتے ہو؟‘‘
 ’’پپو، میرے پاس آؤ۔ دیکھو مَیں تو موٹی ہونے کی وجہ سے زیادہ چل بھی نہیں سکتی۔‘‘ اس کی دادی بولیں۔
 پپو کے ڈیڈی کہنے لگے، ’’مجھے بہت موٹا ہونے کی وجہ ہی سے فوج کی نوکری سے جلدی ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں تم میری طرح موٹے کبھی نہ بننا۔‘‘
 اُس کی ممی نے اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا، ’’مجھے موٹی ہونے کی وجہ سے کوئی کبھی اپنے گھر نہیں بلاتا۔‘‘
 اب اُس کے بھائی شیٹی کی باری تھی۔ وہ آگے بڑھ کر کہنے لگا، ’’میرے ساتھ اسکول میں کوئی بھی نہیں کھیلتا۔ سب مجھ کو موٹا ہونے کی وجہ سے ہنستے ہیں۔‘‘ اُس کی بہن کنو نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا، ’’میری سہیلیوں نے میرے طرح طرح کے نام رکھ چھوڑے ہیں۔ کوئی مجھے ٹن ٹن کہتی ہے اور کوئی موٹی بھینس!‘‘
 پپو ان کی باتیں سن کر رو پڑا۔ روتے روتے بولا، ’’مگر مَیں کیا کروں؟ مجھے بہت زور کی بھوک لگتی ہے۔ میرا سارا حصہ تو تم لوگ چٹ کر جاتے ہو۔‘‘
 یہ سن کر پہلے تو وہ سب بالکل چپ ہوگئے، لیکن پھر سر ہلا کر کہنے لگے، ’’نہیں، نہیں پپو، ہم تو اپنا اپنا ہی حصہ کھاتے ہیں۔ جتنا حصہ تمہیں ملنا چاہئے وہی تو تمہیں دیتے ہیں۔‘‘
 ’’نہیں! نہیں! نہیں!‘‘ پپو روتے روتے پیر پٹخ کر چیخ پڑا، ’’ہم سب آپس میں بانٹ کر کھائیں تو ہم میں سے کوئی بھی بہت زیادہ موٹا یا پتلا نہیں ہوگا اور مَیں پھر کبھی کھانا چوری بھی نہیں کروں گا۔‘‘
 شیٹی اور کنو جو اپنے دادا، دادی اور ممی و ڈیڈی سے ذرا کم ہی موٹے تھے، پپو کی بات سن کر اس کے ساتھ جا کر کھڑے ہوگئے اور اپنے ہاتھ اٹھا کر بولے، ’’پپو ٹھیک کہتا ہے۔ ہم سب مل بانٹ کر کھائیں تو کوئی بھی کسی دوسرے سے موٹا نہیں ہوسکے گا۔‘‘
 اب تو بچوں کے دادا، دادی اور ماں باپ چپ کھڑے رہ گئے۔ کچھ دیر تک وہ سوچتے رہے۔ پھر اپنی ہار مان کر وہ دھیرے دھیرے اپنے بچوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے، ’’ہم آئندہ ایسا ہی کریں گے جیسا کہ تم کہتے ہو۔‘‘
 یہ سن کر بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK