Inquilab Logo Happiest Places to Work

مختصر کہانی: کھویا ہوا پیسہ

Updated: May 17, 2025, 3:01 PM IST | Dr. Bano Sartaj | Mumbai

گاندھی جی کا معمول تھا کہ جہاں بھی تقریر کرتے، وہاں تقریر کے بعد عوام سے چندہ کی اپیل کرتے۔ اُن کی تقریر اور اپیل سے متاثر ہو کر لوگ کھلے ہاتھوں سے چندہ دیتے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

گاندھی جی کا معمول تھا کہ جہاں بھی تقریر کرتے، وہاں تقریر کے بعد عوام سے چندہ کی اپیل کرتے۔ اُن کی تقریر اور اپیل سے متاثر ہو کر لوگ کھلے ہاتھوں سے چندہ دیتے۔ امیر لوگ تو بڑی بڑی رقمیں دیتے، غریب سے غریب شخص بھی اپنی بساط بھر چندہ دیتا.... جتنا جس سے بن پڑتا، چاہے وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو، چندہ دینے میں خوشی محسوس کرتا۔
 ایک مرتبہ چندہ میں دیا گیا ایک پیسہ گاندھی جی کے ہاتھ سے زمین پر گر پڑا۔ باپو جھک کر پیسہ تلاش کرنے لگے۔ ادھر چندہ دینے والوں کی بھیڑ میں کھلبلی مچ گئی۔ ہر شخص چندہ دینے میں جلدی کر رہا تھا۔ گاندھی جی سنجیدگی سے پیسہ تلاش کر رہے تھے۔ کسی نے کہا، ’’باپو! ایک پیسہ کی حقیقت ہی کیا ہے؟ آپ ہم سے اور پیسے لے لیں مگر ایک پیسے کے لئے اتنے ہلکان نہ ہوں۔ ہم لوگ زیادہ پیسہ دے کر کھوئے ہوئے پیسے کی تلافی کر دیں گے۔‘‘
 گاندھی جی بدستور پیسہ تلاش کرتے رہے۔ اب تو وہ نیچے بیٹھ گئے تھے اور چاروں طرف ہاتھ پھیلا کر فرش پر پیسہ تلاش کر رہے تھے۔ بس ایک لمحہ رکے اور لوگوں کی طرف دیکھ کر بولے، ’’جنتا کے چندہ میں دیئے گئے پیسوں کی حفاظت کرنا میرا راشٹریہ دھرم ہے، میرا فرض ہے۔ کھویا ہوا یہ پیسہ قوم کی دولت ہے۔ وہ مجھے امانت کے طور دیا گیا ہے۔ مجھے میرا فرض نبھانے دیں۔‘‘
 گاندھی جی کا جواب سن کر لوگ عش عش کرنے لگے، ان کے ساتھ پیسہ ڈھونڈنے لگے۔
 آخرکار باپو نے پیسہ ڈھونڈ کر ہی دم لیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK