Inquilab Logo Happiest Places to Work

زیرو ناٹ آؤٹ

Updated: July 19, 2025, 2:22 PM IST | Mushtaq Ahmed Yousufi | Mumbai

اس کہانی میں ایک کرکٹ میچ کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

پروگرام کے مطابق کرکٹ میچ ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہئے تھا مگر امپائر کا کوٹ اِستری ہو کر دیر سے آیا، اِسی لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق کھیل شروع کرنے کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔ پندرہ منٹ کے بعد یہ طے پایا کہ جو ٹیم ’ٹاس‘ ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدار روپیہ کھنکا، تالیاں بجیں، رومال لہرائے اور مرزا کَسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔ ہم نے دعا دی، ’’خدا کرے تم واپس نہ آؤ۔‘‘ مصیبت اصل میں یہ تھی کہ مخالف ٹیم کا لمبا تڑنگا بالر (خدا جھوٹ نہ بلوائے) پورے ایک فرلانگ سے ٹہلتا ہوا آتا، یکبارگی جھٹکے کے ساتھ رُک کر کھنکارتا، پھر نہایت تیزی سے گیند پھینکتا۔ اِس کے علاوہ حالانکہ وہ صرف دائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا مگر گیند بائیں ہاتھ سے پھینکتا تھا۔ مرزا کا خیال تھا کہ اُس بے ایمان نے یہ چکرا دینے والی صورت انتظاماً بنا رکھی ہے۔ لیکن ایک مرزا ہی نہیں کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ گیند کیسے اور کہاں پھینکے گا، بلکہ اس کی صورت دیکھ کر کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتا کہ اللہ جانے پھینکے گا بھی یا نہیں۔
 مرزا کے کھیلنے کا انداز یہ تھا کہ وہ بیٹ کو پوری طاقت کے ساتھ گوپھن کی طرح گھمائے جا رہے تھے۔ تین اووَر اِسی طرح سے خالی گئے اور گیند کو ایک دفعہ بھی بیٹ سے ہم کنار ہونے کا موقع نہ ملا۔ مرزا کے مسکرانے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ رَن نہ بننے کی بڑی وجہ بالر کی نالائقی سے زیادہ مرزا کے پینترے تھے۔ وہ اپنا وکٹ ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ وہ کرتے یہ تھے کہ اگر گیند اپنی طرف آتی دیکھتے تو صاف ٹل جاتے لیکن گیند اگر ٹیڑھی آتی تو اُس کے پیچھے بیٹ لے کر نہایت جوش و خروش سے دوڑتے۔ کپتان نے بہتیرا اشاروں سے منع کیا، مگر وہ دو دفعہ گیند کو باؤنڈری لائن تک چھوڑنے گئے۔ ایک اووَر میں بالر نے گیند ایسی کھینچ ماری کہ مرزا کے سَر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی) نکلی اور ٹوپی اُڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں میں جا پڑی۔ جب امپائر نے مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہوچکی تھی۔
 اِس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کر کھیلے کہ اُن کی ٹیم کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی اُن کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اُسے رن بنانے کی پُر زور دعوت دیتے اور جب وہ تین بٹے چار بچ طے کر لیتا تو اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ ڈھکیل کر اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہوگیا۔ جب مرزا نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں اور کپتان کا اِسی طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے سختی سے تنبیہ کر دی کہ خبردار! اب مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے۔
 لیکن مرزا نے آخری وکٹ تک ایک بھی رن بنا کر نہیں دیا۔ اِس کے باوجود اُن کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا، اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے، مگر وہ سب آؤٹ ہوگئے۔ اِس کے برعکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ ’زیرو ناٹ آؤٹ‘ بتاتے تھے۔
 ’ناٹ آؤٹ!‘ اور یہ بڑی بات ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK