Inquilab Logo

انوکھا روزہ

Updated: March 09, 2024, 12:23 PM IST | Azra Parveen | Mumbai

لے دے کر ثمینہ کے دل میں کسی کا خوف تھا تو وہ ایک چچا کی شخصیت تھی۔ ان کی بات نہ ماننے کی ہمت اس میں نہ تھی۔ ویسے وہ ان کی دلچسپ باتوں کو دل سے پسند بھی کرتی تھی۔ اشرف کے والد نے اپنی بھابھی سے وعدہ کرنے کو تو کر لیا مگر ابھی تک انہیں اس کے سمجھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اصل میں وہ کسی اچھے موقع کی تلاش میں تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’اشرف!‘‘ ’’ہوں....‘‘ ’’بتا دو نا، تم نے تو تنگ کر دیا۔ کتنی دیر سے پریشان کر رہے ہو۔‘‘ ثمینہ نے عاجزی سے کہا۔ ’’عجیب ہو؟ کہا نا، مَیں تم سے کچھ نہیں لوں گا۔ پھر تم مجھ سے کتنی چھوٹی ہو۔ مجھے تحفہ دیتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئے گی؟‘‘ اشرف نے اپنی بزرگی جتائی۔ ’’بہت اچھا دادا جان! مگر بہتر یہی ہے کہ آپ اس چھوٹے بڑے کے پھیر میں نہ پڑیں۔ بس خاموشی سے اپنی پسند بتا دیجئے تاکہ مَیں یہاں سے دفان ہوجاؤں۔‘‘ ثمینہ نے شوخی سے کہا۔ ’’اگر تمہیں دینے لینے کا ایسا ہی ارمان ہے تو جو تمہاری مرضی آئے وہ لے آؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا مجھے ہر چیز پسند ہے۔‘‘ اشرف پیچھا چھڑا کر بھاگا۔ ثمینہ بہت دیر سے اس کی جان کو آئی ہوئی تھی۔ ثمینہ بھی مسکراتی ہوئی اٹھ گئی وہ اس وقت خلافِ معمول اشرف سے بہت خوش تھی ورنہ اشرف کے اس طرح پیچھا چھڑانے پر وہ اس کی جان کو آجاتی۔
 ثمینہ اشرف کی تایا زاد بہن تھی۔ آج اشرف کی سالگرہ تھی۔ اس تقریب میں شریک ہونے کیلئے وہ اشرف کے گھر چار دن سے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی۔ اس وقت وہ ریشمی پھولدار فراک میں بہت بھلی لگ رہی تھی، بالکل چینی کی گڑیا۔
 اشرف سے اس کی ذرا نہ بنتی تھی۔ اشرف بہت ہی سنجیدہ طبیعت کا تھا۔ بڑوں کا ادب اور ان کا حکم ماننا اس کا پہلا فرض تھا۔ ثمینہ ٹھہری چنچل اور شریر ضد میں بھی اپنی مثال نہیں رکھتی تھی۔ کوئی بات من میں سما جائے تو ادھر کی دنیا اُدھر ہوجائے مگر اپنی ضد سے باز آنا اس نے نہ سیکھا تھا۔
 ثمینہ گھر میں اکیلی تھی اس لئے ماں اور دادی کی بے حد چہیتی تھی۔ بچپن میں وہ اس کی ہر جا و بے جا خواہش بلا چون و چرا پوری کر دیتے تھے۔ مگر اب وہ اپنی بات منوانے کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ اپنی مرضی کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتی تھی۔ ماں باپ اب بہت پریشان تھے۔ بچپن کی ڈالی ہوئی عادت اتنی پختہ ہو جائے گی، انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ وہ ثمینہ کے ہر وقت کے بے جا مطالبوں، ضد اور شرارتوں سے بے حد عاجز آچکی تھیں۔ مگر ان کی سمجھ میں اس کی اصلاح کی کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔
 آخر ایک دن ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ وہ سیدھی اشرف کے والد کے پاس آئیں۔ لے دے کر ثمینہ کے دل میں کسی کا خوف تھا تو وہ ایک چچا کی شخصیت تھی۔ ان کی بات نہ ماننے کی ہمت اس میں نہ تھی۔ ویسے وہ ان کی دلچسپ باتوں کو دل سے پسند بھی کرتی تھی۔ اشرف کے والد نے اپنی بھابھی سے وعدہ کرنے کو تو کر لیا مگر ابھی تک انہیں اس کے سمجھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اصل میں وہ کسی اچھے موقع کی تلاش میں تھے۔ آج ان کے لڑکے اشرف کی سالگرہ تھی۔ انہوں نے سوچا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا۔ لہٰذا انہوں نے ثمینہ کو اس وقت گھیر لیا جب وہ کہیں جانے کی تیاری میں مصروف تھی۔
 ’’کیوں بھئی ثمینہ باجی کہاں چلیں۔‘‘ ’’چچا جان! امی کے ساتھ ذرا بازار تک جا رہی ہوں!‘‘ ثمینہ نے جلدی جلدی جوتے کے فیتے کستے ہوئے جواب دیا۔ ’’اب یہ بھی بتا دو، بازار سے کیا لینے جا رہی ہو۔‘‘ چچا جان نے مسکرا کر دوسرا سوال جڑ دیا۔ ’’کچھ نہیں.... بس ایسے ہی۔‘‘ ’’خیر نہ بتاؤ۔ مگر ہمیں پتہ ہے جو تم ہم سے چھپا رہی ہو۔‘‘ چچا جان معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے، ’’کہو تو بتا دوں کہ بڑی بی اشرف کیلئے کوئی تحفہ خریدنے جا رہی ہیں۔‘‘ ’’ارے آپ کو کیسے پتہ چلا، مَیں نے ابھی امی کو بھی نہیں بتایا۔‘‘ ثمینہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اشرف سے اسے اُمید تھی کہ اس نے اُن سے اپنی بات چیت کا ذکر ان سے نہ کیا ہوگا۔ ’’بس یہ نہ پوچھو۔ تمہیں پتہ نہیں ہم اُڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں۔‘‘ چچا جان اپنی آواز میں رعب پیدا کرکے بولے پھر ذرا راز دارانہ لہجہ میں پوچھا، ’’ہاں اب تو بتا دو کیا لینے جا رہی ہو؟‘‘
 ’’اشرف سے تو مَیں نے بہت پوچھا۔انہوں نے کچھ بتایا ہی نہیں۔ ویسے مجھے پتا ہے کہ اشرف کو ٹافیاں بہت پسند ہیں۔ اسی کا ڈبہ لینے جا رہی تھی۔‘ ثمینہ نے بھولے پن سے جواب دیا۔ ’’اور اگر اشرف کی طرف سے میں تم سے کوئی فرمائش کروں تو پوری کرو گی؟‘‘ چچا جان ثمینہ کو غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’ضرور... ضرور۔‘‘ ثمینہ خوش ہوگئی۔ ’’آپ ہی بتا دیجئے۔ ان نواب صاحب سے تو میں پوچھتے پوچھتے ہار گئی۔ مگر انہیں نہ بتانا تھا نہ بتایا۔‘‘ ’’لیکن ثمینہ باجی میں بھی ایسی آسانی سے نہیں بتاؤں گا۔ پہلے پورا کرنے کا وعدہ کرو۔‘‘ چچا جان مسکرا کر بولے۔ ’’آپ بتایئے تو سہی مَیں ضرور پورا کروں گی۔‘‘
 ’’اچھا ایسی بات ہے تو آؤ۔‘‘ چچا جان نے خواہ مخواہ حیرت ظاہر کی اور اسے لے کر اپنے کمرے میں آئے جہاں ثمینہ کی دو سہیلیاں پروین اور شاہین بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر خاموش ہوگئیں۔ چچا جان اپنے پلنگ پر بیٹھ گئے اور اپنے پاس ہی ثمینہ کو بٹھا لیا۔
 ’’ہاں چچا جان بتایئے نا۔‘‘ ثمینہ نے اکتا کر اس خاموشی کو توڑا جو چچا جان کے سوچنے سے پیدا ہوگئی تھی۔ ’’اچھا بھئی سنو! میری صرف اتنی سی خواہش ہے کہ اشرف کے سالگرہ کے تحفہ میں تم مجھ سے ایک روزہ رکھنے کا وعدہ کر لو۔‘‘
 ’’روزہ؟‘‘ ثمینہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ تو سمجھے ہوئے تھی کہ نہ معلوم چچا جان کون سی ایسی بات کہیں گے جو انہیں اس کے پورا ہونے کی توقع نہیں ہے مگر چچا جان نے کہی بھی تو کیا بات جو اس کی عین تمنا تھی۔ روزہ رکھنے کو تو اس کا بھی ایک مدت سے دل چاہتا تھا۔ گھر میں سب کو روزہ رکھتے دیکھتی تو خود بھی بے چین ہوجاتی۔ مگر بھوک کی برداشت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اگلے سال روزہ رکھنے کا سوچ کر دل کو تسلی دے لیتی تھی۔ اب اپنی مدت کی آرزو کو اس بہانے یوں پورا ہوتے دیکھ کر خوش ہوگئی۔ مگر اچانک ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا اور وہ پھر اداس ہوگئی۔ اس نے سوچا چچا جان نے محض اس کے ناراض نہ ہونے کی وجہ سے یہ بہانہ بنایا ہے۔ ورنہ وہ اتنی سی بات کے لئے اتنے نااُمید کیوں ہوتے۔ ’’نہ....‘‘ وہ بے یقینی سے بولی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
 ’’ارے تمہیں یقین نہیں آیا۔ چچا جان حیرت سے بولے اور پھر اسے بٹھا لیا۔ ’’واقعی مَیں تم سے روزہ ہی رکھنے کے لئے کہہ رہا ہوں۔‘‘
 ’’مگر چچا جان آج کل روزوں کے دن کہاں ہیں؟‘‘ ثمینہ کی سہیلی پروین نے پہلی بار مداخلت کی۔ وہ بڑی دلچسپی اور حیرانی سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ ’’اوہ!‘‘ تم لوگ رمضان شریف کے روزے سمجھ رہی ہو۔ مگر مَیں ان روزوں کے بارے میں نہیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ چچا جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’پھر کون سے روزے کی بات کر رہے ہیں؟‘‘ ثمینہ نے حیرت سے پوچھا۔ ’’تمہیں اس بات کا روزہ رکھنا ہے کہ ہمیشہ اپنے بڑوں کا کہنا مانو۔ وہ جو کہیں اسے تم ہر ممکن طریقے پر پورا کرو۔ خواہ وہ بات تمہیں بھلی لگے یا نہ لگے۔‘‘ ’’ارے!‘‘ تینوں پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ’’واقعی چچا جان بس اتنی سی بات تھی یا آپ مذاق کر رہے ہیں؟‘‘ ثمینہ نے حیرت اور بے یقینی کے ملے جلے لہجہ میں پوچھا۔
 ’’اگر تم نے میرے کہنے پر عمل کیا تو ساری دنیا میں چاند کی طرح چمکو گی۔ عزت، دولت، شہرت سب تمہارے غلام ہوں گے۔ اور یہ سب کچھ ایک بڑوں کا کہنا ماننے سے حاصل ہوگا۔ تمہیں نہیں معلوم تمہارے بزرگ جو کچھ بھی تم سے کہتے ہیں وہ صرف تمہاری بھلائی کیلئے کہتے ہیں۔ مارتے پیٹتے وقت، برا بھلا کہتے وقت بھی ان کی نظروں میں تمہاری بھلائی ہی ہوتی ہے۔ وہ ہر صورت میں تمہاری بھلائی چاہتے ہیں۔ ان کی باتوں پر ناراض ہونے اور برا ماننے کے بجائے ٹھنڈے دل سے سننا چاہئیں۔ ان کی ذرا ذرا سی باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ یہی معمولی معمولی باتیں تمہیں ترقی کے دوراہے پر لاکھڑا کریں گی۔ تمہیں ترقی کی راہ پر دیکھ کر وہ کتنا خوش ہوں گے اور جب وہ سب تم سے خوش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ خوش ہوگا۔ اس خوشی میں وہ تمہیں جو نہ دے دے وہ تھوڑا ہے۔‘‘
 ’’واقعی چچا جان آپ نے تو دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔‘‘ ثمینہ نے حیرت سے کہا۔
 ’’ہاں تو بتاؤ کیا ارادہ ہے؟‘‘
 ’’چچا جان! اب تو ہم یہ انوکھا روزہ رکھیں گے اور ضرور رکھیں گے۔ بس آپ دعا کیجئے کہ ہم اس میں بھول چوک نہ کرنے پائیں۔‘‘ تینوں نے اعلان کیا۔
 ’’آمین! خدا تمہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔‘‘ چچا جان نے کچھ اس انداز سے بزرگانہ انداز میں دعا دی کہ تینوں لڑکیاں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK