فیضان اپنے آبائی گاؤں سے چند سال پہلے ہی قریبی شہر میں منتقل ہوا تھا۔ مگر اب بھی اسے اپنےگاؤں کی یاد ستاتی تھی۔ لیکن تعلیم حاصل کرکے مستقبل سنوارنا بھی بہت ضروری تھا۔
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 12:21 PM IST | Ismail Suleman | Jalgaon
فیضان اپنے آبائی گاؤں سے چند سال پہلے ہی قریبی شہر میں منتقل ہوا تھا۔ مگر اب بھی اسے اپنےگاؤں کی یاد ستاتی تھی۔ لیکن تعلیم حاصل کرکے مستقبل سنوارنا بھی بہت ضروری تھا۔
فیضان اپنے آبائی گاؤں سے چند سال پہلے ہی قریبی شہر میں منتقل ہوا تھا۔ مگر اب بھی اسے اپنےگاؤں کی یاد ستاتی تھی۔ لیکن تعلیم حاصل کرکے مستقبل سنوارنا بھی بہت ضروری تھا۔ اس شہر میں سب کچھ تھا مگر وہ خلوص، سادگی، اپنائیت اور فرصت نہیں تھی۔ شہری بچے کبھی اس کے سادہ لب و لہجے کا مذاق اڑاتے، اس کے بھولے پن، سادہ لباس و بالوں کی تراش خراش پر فقرے کستے، طعنے مارتے، تنقید کرتے تو کبھی اس کے غلط تلفظ کا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ سب کچھ برداشت کرتا تھا کیونکہ اُسے پڑھنا اور آگے بڑھنا تھا۔ اسی لئے وہ اپنے نئے ساتھیوں کی سبھی زیادتیوں کو صبر سے برداشت کرکے اپنی اعلیٰ ظرفی و عمدہ اخلاق کا عملی نمونہ پیش کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اچھے اخلاق کا حامل ہونا انسان کے لئے نہایت ضروری ہے۔ وہ پڑھائی میں بہت سنجیدہ تھا۔ اسکول کے ٹائم ٹیبل کی طرح اُس نے اپنا ذاتی ٹائم ٹیبل بنا کر اسٹڈی ٹیبل کے سامنے چسپاں کر رکھا تھا تاکہ وہ اس پر سختی سے عمل کرسکے۔ صبح نیند سے بیدار ہونے سے لے کر رات سونے تک ہر گھنٹے کا حساب اس ٹائم ٹیبل میں تھا۔ یکسوئی، منصوبہ بند طریقہ سے پڑھائی کرنے اور محنتی ہونے کی وجہ سے اس کا شمار اسکول کے مثالی طلباء میں ہونے لگا تھا۔ اس کا ہم جماعت شاکر بھی ایک ہونہار طالب علم تھا مگر وہ تھوڑا لالچی تھا۔ وہ اپنے دوستوں کی ضرورت کے وقت مدد کرنے میں دلچسپی تو لیتا مگر بدلے میں اُن سے کچھ نہ کچھ ضرور وصول کر لیا کرتا تھا۔ دوستوں کے گھر کام پورا کرنے، پروجیکٹ مکمل کرنے، ڈرائنگ میں رنگ بھرنے اور دیگر كاموں میں مدد کرنے کے بدلے ان سے کبھی چاکلیٹ تو کبھی پینسل، ربر، شاپنر یا قلم لئے لیا کرتا تھا۔
شاکر اور فیضان کی دھیرے دھیرے دوستی ہوگئی۔ جب یہ دوستی گہری ہوگئی تو ایک دن فیضان نے نہایت عاجزی و انکساری سے شاکر سے گزارش کی کہ تم جو اپنے ہم جماعت دوستوں کی مدد کے بدلے اجرت کے طور پر کچھ نہ کچھ چیزیں لیتے ہو یہ عادت غلط ہے۔ اس کے بجائے تم اپنے ساتھیوں سے کوئی ایسی صلاحیت یا ہنر سیکھو جس میں وہ مہارت رکھتے ہوں۔ شاکر نے اس بہترین مشورے پر فوراً عمل کرنا شروع کر دیا۔ اس نے رفیق سے زبانی حساب حل کرنا سیکھا۔ شاہد سے اردو لغت کا استعمال جبکہ ساجد سے ڈرائنگ بنانا سیکھا۔ اس طرح دھیرے دھیرے اس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا چلا گیا۔ اسی دوران پہلے یونٹ ٹیسٹ کا رزلٹ جوابی پرچوں کے ساتھ کلاس میں تقسیم کیا گیا اور طلباء کو سرپرستوں کی دستخط لے کر واپس جمع کرنے کی ہدایت دی گئی۔ جب شاکر، کے نام کا اعلان کیا گیا تو کوئی جواب نہیں مل سکا۔ شاکر کلاس سے غیر حاضر جو تھا۔ فیضان نے اپنے ٹیچر سے گزارش کی کہ وہ یہ پرچہ شاکر تک پہنچا دے گا۔ اور اس کے سرپرست کی دستخط لینے کے بعد پرچہ اسکول میں واپس جمع بھی کر دے گا۔ مزيد کچھ دنوں تک جب شاکر مسلسل غیرحاضر رہا تو فیضان کو تشویش ہوئی۔ فیضان نے اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے اس بات کی جانکاری لی کہ شاکر اسکول کیوں نہیں آرہا ہے؟ تو اسے پتہ چلا کہ پڑوسی کے ایک بچے سے اس کا کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا سزا کے طور پر شاکر کے گھر والوں نے اسے بس کا خرچ دینا بند کر دیا تھااور روزانہ کھیتوں میں کام کرنے کے لئے لے کر جا رہے تھے۔ اس لئے وہ اسکول نہیں آپا رہا تھا۔ چھٹی کے دن فیضان یونٹ ٹیسٹ کے پرچے ساتھ لے کر شام میں اس کے گھر گیا اور اس سے ملاقات کی۔ جب فیضان کو اپنے ساتھی کی بے بسی کا علم ہوا تو اسے بہت رنج ہوا۔ اس نے شاکر کو دلاسہ دیا اور بولا، ’’ہمت سے کام لو میں اپنے طور پر کوشش کرتا ہوں۔‘‘ پھر وہ اپنے ساتھ جو مراٹھی اور انگریزی کا پرچہ ساتھ لایا تھا وہ لے کر شاکر کے گھر والوں سے ملا، ان کو پرچہ دکھاتے ہوئے بولا کہ، ’’دیکھو شاکر کو یونٹ ٹیسٹ میں مراٹھی اور انگریزی مضمون میں پوری کلاس میں اول پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ اگر آپ نے اُسے آگے پڑھنے نہیں دیا تو اس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‘‘ پھر دوستوں کی مدد سے سیکھی ہوئی صلاحتیں اور ہنر کے متعلق بھی بتایا۔ شاکر کے گھر والے غریب اور کم تعلیم یافتہ تھے۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ہمارا بیٹا شہری سطح کے بچوں کی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کر رہا ہے تو وہ سب بہت خوش ہوئے۔ فیضان نے ان سے گزارش کی کہ وہ شاکر کو اسکول بھیجیں۔ فیضان کی اس بات کو سبھی گھر والوں نے منظور کر لیا۔ شاکر پھر سے نئے عزم اور نئی امنگ کے ساتھ اسکول جانے لگا اور دل سے اپنی پڑھائی میں جٹ گیا۔ اس طرح فیضان کی عقلمندی اور حکمت سے شاکر کا تعلیمی سلسلہ رکنے سے بچ گیا۔