اِن دِنوں بڑی طاقتوں میں سب سے زیادہ کھینچا تانی ’’ریئر اَرتھ‘‘ کیلئے ہورہی ہے۔ ریئر ارتھ ہے کیا؟ کیا یہ واقعی ریئر (کمیاب) ہے اور اگر ہے تب بھی کیا یہ زمین کے ایسے حصے ہیں جہاں پر انسانی قدم نہ پڑے ہوں
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اِن دِنوں بڑی طاقتوں میں سب سے زیادہ کھینچا تانی ’’ریئر اَرتھ‘‘ کیلئے ہورہی ہے۔ ریئر ارتھ ہے کیا؟ کیا یہ واقعی ریئر (کمیاب) ہے اور اگر ہے تب بھی کیا یہ زمین کے ایسے حصے ہیں جہاں پر انسانی قدم نہ پڑے ہوں
اِن دِنوں بڑی طاقتوں میں سب سے زیادہ کھینچا تانی ’’ریئر اَرتھ‘‘ کیلئے ہورہی ہے۔ ریئر ارتھ ہے کیا؟ کیا یہ واقعی ریئر (کمیاب) ہے اور اگر ہے تب بھی کیا یہ زمین کے ایسے حصے ہیں جہاں پر انسانی قدم نہ پڑے ہوں ؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ریئر ارتھ کو نام بھلے ہی ریئر ارتھ (کمیاب زمین) دیا گیا ہو مگر یہ زمین کا کوئی حصہ نہیں بلکہ زمین سے نکلنے والی وہ دھاتیں ہیں جو بہت قیمتی ہیں اور ماضی میں ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی آج کے دور میں ہے اور آئندہ ہوگی۔ ریئر ارتھ اُن ۱۷؍ دھاتوں کو کہتے ہیں جن کے اپنے الگ الگ نام ہیں مگر چونکہ یہ کیمیائی طور پر ہم مزاج ہیں اس لئے انہیں ایک ہی نام دے دیا گیا ہے ریئر ارتھ۔ ان میں شامل دھاتوں میں سے چند کے نام یہ ہیں : اسکینڈیم، یوٹریم، لینتھانائڈس، سیریم، نیوڈائمیم، یوروپیم، ٹربیم، ہولمیم، اِربیئم، تھولیم اور دیگر۔ ان میں سے اکثر دھاتیں کئی گھریلو اشیاء کی مینوفیکچرنگ کیلئے لازمی ہیں مثلاً ٹی وی، لائٹ بلب یا آوَن۔ دورِ جدید کی مصنوعات مثلاً الیکٹرک کاریں یا لیزر، پیس میکر، ایکس رے مشین، ایم آر آئی مشین،موبائل فون، فائبر آپٹک کیبل، مائیکرو ویو آلات بنانے میں بھی ان دھاتوں کا استعمال لازمی ہوتا ہے حتیٰ کہ فائٹر جیٹ، جیٹ انجن، سیمی کنڈکٹر، راکٹ، نیوکلیائی ری ایکٹر اور گائیڈیڈ میزائل بنانا ہو تب بھی ان دھاتوں کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ریئر اَرتھ کی پوری دُنیا میں کتنی مانگ ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل بتادیں کہ انہیں ریئر (کمیاب) کہا تو جاتا ہے مگر یہ کمیاب نہیں ہیں البتہ یہ روئے زمین پر بکھری ہوئی ہیں اس لئے ان کا تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے اور شاید اسی لئے ریئر نام دیا گیا ہے۔
جن ملکوں میں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں اُن میں سرفہرست نام چین کا ہے۔ ان دھاتوں کے معلوم ذخائر کا سب سے زیادہ ۳۸؍ فیصد حصہ چین کے پاس ہے، اس کے بعد ویتنام (۱۹؍ فیصد)، برازیل (۱۹؍ فیصد)، روس (۱۰؍ فیصد)، ہندوستان (۶؍ فیصد)، آسٹریلیا (۴؍ فیصد)، امریکہ (ایک فیصد) اور بقیہ ملکوں کے پاس ۴؍ فیصد ذخائر پائے جاتے ہیں ۔ یہ منظرنامہ سامنے رکھئے اور چین اور امریکہ کی کبھی دوستی کبھی دشمنی کے حالیہ واقعات کے بارے میں خیال کیجئے تو معلوم ہوگا کہ دیگر اسباب کے علاوہ اِن دو ملکوں کے درمیان پائی جانے والی رنجش کا ایک سبب ریئر ارتھ کا ذخیرہ بھی ہے۔ ریئر اَرتھ کی سپلائی کے معاملے میں چین کا ہمارے ساتھ بھی کوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے۔ ا س نے مختلف بہانوں سے ریئر ارتھ میگنٹ کی سپلائی منجمد کردی ہے۔ ابھی کل ہی کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے صدر راجیو میمانی نے کہا کہ چین کے اس طرز عمل کی وجہ سے ہندوستانی آٹو انڈسٹری کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
سوال یہ ہے کہ چین ہمارے ساتھ بھی ایسا کیوں کررہا ہے؟ اس لئے کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان کی خود انحصاری بڑھے یعنی بیشتر مصنوعات کیلئے بیجنگ پر اس کا انحصار کم ہو۔ واضح رہنا چاہئے کہ چین صرف ہمارے ساتھ ایسا نہیں کررہا ہے، اس نے امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی آنکھیں دکھائی ہیں ۔ دو روز قبل برسیلز میں یورپی یونین کی فارین پالیسی چیف سے چینی وزیر خارجہ نے ملاقات کی تب اُن سے بہ اصرار کہا کہ بیجنگ، ریئر ارتھ کی سپلائی پر پابندی سے گریز کرے مگر کیا چین مان جائیگا؟ یہ مشکل سوال ہے کیونکہ نفسا نفسی تو ہر طرف ہے۔