Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بہروپیا فرشتہ

Updated: September 22, 2023, 2:43 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب ٹی ایس آرتھر کی شہرۂ آفاق کہانی ’’این اینجل اِن ڈِزگائز‘‘ An Angel in Disguiseا اُردو ترجمہ

Photo. INN
تصویر:آئی این این

سُستی، بددیانتی اور بے رحمی نے اپنا کام کر دیا تھا، اور ایک مردہ ماں اپنے بدحال بچوں کے درمیان ٹھنڈی پڑی تھی۔ وہ اپنی دہلیز ہی پر گر گئی تھی اور اپنے خوفزدہ بچوں کی موجودگی ہی میں فوت ہوگئی تھی۔ موت ایک خطرناک حقیقت ہے جس سے کسی کا بھی بچنا ناممکن ہے۔ گاؤں کے تقریباً ہر مرد، عورت اور بچے کی طرف سے اس ماں کو حقارت، طعنے اور ملامت ملی تھی مگر اب جب موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا تو طعنے کی جگہ رحم نے لے لی۔ پڑوسی عجلت میں پرانی جھوپڑی میں آنے لگے۔ اس جھوپڑی نے ماں اور اس کے بچوں کو گرمی اور سردی میں برائے نام ہی تحفظ فراہم کیا تھا۔ بعض پڑوسیوں کے پاس کفن تو کچھ نے تین بچوں کیلئے کھانا لانا ضروری سمجھا تھا۔ ان میں سب سے بڑا لڑکا جان تھا جس کی عمر ۱۲؍ سال تھی۔ وہ گاؤں کے کسی کسان کے کھیتوں میں کام کرکے اپنا پیٹ پال سکتا تھا۔ کیٹ، دس سا ل کی ایک ہوشیار لڑکی تھی جسے اگر کوئی اچھا خاندان اپنا لے تو وہ ضرور شہرت حاصل کرے گی لیکن سب سے چھوٹی میگی بہت بیمار تھی۔ دو سال پہلے ایک کھڑکی سے گرنے کے بعد اس کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی اور تب سے وہ بستر ہی پر پڑی تھی۔ 
’’بچوں کاکیا کرنا ہے؟‘‘ سب سے اہم سوال یہی تھا۔ ہر گاؤں والے کے ذہن میں یہی سوال گونج رہا تھا۔ مردہ ماں تو منوں مٹی تلے دب جائے گی لیکن بچوں کا کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ 
اس معاملے پر غور و خوض اور اپنی بیوی سے گفتگو کرنے کے بعد کسان جونز نے کہا کہ وہ جان کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔ مسز ایلس نے کیٹ کا انتخاب کیا تاکہ گھر کے کاموں میں وہ ان کی مدد کرسکے۔ 
مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ’’مَیں میگی کو اپنانا چاہتا ہوں ۔‘‘ لوگوں کی ترس بھری نگاہیں اس پر پڑ رہی تھیں لیکن اسے اپنانے کی غرض سے کوئی آگے نہیں آ رہا تھا۔ محلے کی ماؤں نے میگی کے میلے کپڑے بدل دیئے۔ اس کی اداس آنکھیں اور صبر آزما چہرے نے بہت سے دلوں کو چھو لیا لیکن کوئی بھی ایک ایسی لڑکی کو اپنانے کیلئے آگے نہیں بڑھا جو دائمی مرض میں مبتلا تھی۔ 
’’اسے کسی یتیم خانے میں داخل کردیا جائے۔‘‘ جب لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ میگی کے ساتھ کیا کیا جائے تو ایک سخت دل آدمی نے کہا، ’’ اس کے نہ ہونے سے کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ 
’’یتیم خانہ ، ایک بیمار اور لاچار بچے کیلئے خطرناک جگہ ہے۔‘‘ ایک شخص نے جواب دیا۔
’’یتیم خانہ ہمارے بچوں کیلئے خطرناک جگہ ہوسکتی ہے لیکن اس بچی کیلئے یہ ایک مثبت جگہ ثابت ہو گی۔ اسے صاف ستھرا رکھا جائے گا۔ صحت بخش کھانا دیا جائے گا۔ وہاں ڈاکٹر ہوگا جو اس کی دیکھ بھال کرے گا۔‘‘ 
بات تو صحیح تھی لیکن کچھ لوگوں کو تسلی پھر بھی نہیں ہوئی۔ تدفین کیلئے اگلے دن کا انتخاب کیا گیا۔ قبرستان سے لوٹتے وقت جونز نے جان کا ہاتھ تھام لیا۔ لوگوں کے دل اب بھی موم نہیں ہوئے تھے۔ سبھی کو یہی محسوس ہورہا تھا کہ اس نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ 
مسز ایلس نے تینوں روتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’چلو، اپنی بہن کو الوداع کہو۔‘‘ 
کچھ لوگ جلدی سے باہر نکل گئے، کچھ نے میگی کی طرف دیکھا، اور کچھ نظر ڈالنے سے پرہیز کرتے رہے۔ پھر ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ 
ٹوٹی پھوٹی جھوپڑی کی دہلیز سے کچھ آگے لکڑی کے پہئے بنانے والا جو تھامسن تھا، اس نے لوہار کی بیوی سے کہا، جو جھوپڑی سے نکلنے والی آخری عورت تھی اور تیزی سے باہر آرہی تھی، ’’اسے چھوڑنا ظلم ہوگا۔‘‘ 
’’پھر اسے یتیم خانے میں چھوڑ آتے ہیں ۔ اسے وہیں جانا پڑے گا۔‘‘ لوہار کی بیوی یہ کہتے ہوئے جلدی جلدی باہر نکل گئی۔ 
کچھ دیر تک تھامسن یونہی کھڑا رہا۔ وہ میگی کو دیکھ کر کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر وہ بھی دروازے سے نکل گیا۔ میگی نے بڑی دقت سے خود کو اٹھا کر بستر سے لگایا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں ۔ اس کی پُرامید آنکھیں ٹوٹے ہوئے دروازے پر جمی تھیں جہاں سے سبھی ایک ایک کرکے نکل گئے تھے۔ اچانک اس کے چہرے پر دہشت کے آثار نمایاں ہوگئے۔ 
’’مسٹر تھامسن!‘‘ اس نے چیخ کر کہا، ’’مجھے یہاں اکیلا مت چھوڑو!‘‘
جو تھامسن ایک سخت انسان نظر آتا تھا۔ لکڑی کے پہئے بنابناکر اس کے ہاتھ پاؤں سخت ہوگئے تھے۔ گاؤں بھر میں اس کی کرختگی اور سختی مشہور تھی لیکن اس کا دل نرم تھا۔ اسے بچے بہت پسند تھے۔ جب اس کی دکان پر بچے آتے تو وہ گھنٹوں ان کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا۔ بچوں سے اسے خوشی ملتی تھی۔ 
’’نہیں ، ڈیئر،‘‘ وہ دروازے پر نمودار ہوا اور نرم آواز میں جواب دیا۔ پھر میگی کے بستر قریب گیا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگا، ’’تمہیں یہاں تنہا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔‘‘ پھر اُس نے میگی کو ایک صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹا اور اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر کھیت پار کرنے لگا جس کی دوسری طرف اس کا گھر تھا۔ اس کا گھر بہت کشادہ نہیں تھا لیکن میگی کی پرانی اور ٹوٹی پھوٹی جھوپڑی کے مقابلے میں کافی بہتر تھا۔ 
جو تھامسن کی بیوی بے اولاد تھی۔ اس کی بدمزاجی پورے گاؤں میں مشہور تھی۔ پڑوسی اس سے ڈرتے تھے۔ اس نے مکان کی کھڑکی سے تھامسن کو چھوٹا گیٹ کھول کر اندر آتے دیکھا اور تیزی سے باہر آئی، پھر سختی سے سوال کیا ، ’’تم نے کیا اٹھا رکھا ہے؟‘‘ 
تھامسن نے محسوس کیا کہ بیمار بچی نے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے جکڑ لیا ہے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی آنکھوں میں التجا تھی۔ بیوی نے راستہ چھوڑ دیا۔ تھامسن نے پہلی منزل کے چھوٹے سے کمرے میں میگی کو ایک صاف بستر پر لٹا دیا۔ 
 پھرآہستگی سے دروازہ بند کرکے اپنی سخت مزاج بیوی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
’’تم اس بیمار بچی کو گھر لائے ہو؟‘‘ مسز تھامسن کے لہجے میں غصہ اور حیرت تھی۔ 
’’میرے خیال میں خواتین کے دل بعض اوقات بہت سخت ہوجاتے ہیں ،‘‘ تھامسن نے کہا۔ عام طور پر وہ اپنی بیوی سے بحث نہیں کرتا تھا لیکن شاید آج وہ بیوی سے کھل کر بات کرنے کے موڈ میں تھا۔ 
’’عورتوں کے دل سخت ہوتے ہیں مگر مردوں کے دلوں کے مقابلے میں پھر بھی نرم ہوتے ہیں ۔‘‘ 
 تھامسن نے غصے سے کہا ’’کاش! ایسا ہی ہوتا۔ جنازے میں موجود ہر عورت نے بیمار بچی کے چہرے سے نظریں پھیر لیں اور جب مردہ ماں قبرستان کی طرف چلی گئی تو سبھی نے اسے پرانی جھوپڑی میں اکیلا چھوڑ دیا۔ ایسے ہوتے ہیں عورتوں کے نرم دل؟‘‘
’’جان اور کیٹ کہاں ہیں ؟‘‘ مسز تھامسن نے اپنے شوہر کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال کیا۔ 
’’کسان جونز نے جان کو اور مسز ایلس نے کیٹ کو ساتھ لے لیا لیکن اس بیمار بچی کو کوئی بھی اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ وہاں موجود ہر شخص کہہ رہا تھا کہ اسے یتیم خانے میں بھیج دو۔‘‘ 
’’تو تم نے اسے جانے کیوں نہیں دیا۔ تم اسے یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘ بیوی نے پھر سوال کیا۔ 
’’وہ یتیم خانے تک خود نہیں جاسکتی،‘‘ تھامسن نے اکتاہٹ سے جواب دیا۔ 
’’تو پھر اسے وہیں لے جاتے۔ یہاں کیوں لے آئے؟‘‘ بیوی نے پھر سوال کر دیا۔
’’کیونکہ مَیں احمقوں کی طرح وہاں نہیں جانا چاہتا۔ پہلے کوئی سرپرست جاکر وہاں سے اجازت نامہ حاصل کرتا ہے، پھر بچے کو داخل کیا جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر تم کب جاؤگے؟‘‘ بے صبری سے اگلا سوال پوچھا گیا۔’’کل۔‘‘ تھامسن کا جواب تھا۔
’’اسے کل تک کیوں ٹال دیا ؟ فوراً جاؤ۔‘‘ 
’’جین،‘‘ تھامسن نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا، ’’مَیں کبھی کبھی بائبل پڑھتا ہوں جس میں چھوٹے بچوں کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ کیا تمہیں نہیں یاد کہ مسیح نے کس طرح ان حواریوں کو ڈانٹا تھا جو بچوں پر شفقت نہیں کرتے تھے ۔ مسیح نے بچوں کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا، اور انہیں برکت قرار دیا؛ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بچوں کو کوئی ایک پیالہ پانی بھی پلائے گا تو اسے اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔اب اس غریب بچی کو ایک رات کیلئے اپنے پاس رکھنا، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کی زندگی کو صرف ایک رات کیلئے آرام دہ بنانا ہمارے لئے ایک چھوٹی سی بات ہے۔‘‘
مضبوط اور سخت مزاج نظر آنے والے شخص کی آواز بھراگئی، اس نے اپنا سر پھیر لیا تاکہ اس کی آنکھوں میں نمی نظر نہ آئے۔ مسز تھامسن نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اس کے دل میں ایک نرم گوشہ ضرور بن گیا تھا۔ 
’’اس کی طرف شفقت سے دیکھو، جین! اس سے نرمی سے بات کرو،‘‘ تھامسن نے کہا۔ ’’اس کی مردہ ماں کے بارے میں سوچو، اور اس کی تنہائی، درد، دکھ کے بارے میں سوچو جو اسے پوری زندگی ہوگا۔‘‘ تھامسن کے دل کی نرمی نے اس کی زبان فصیح کردی تھی۔ 
مسز تھامسن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی سے دروازہ کھول کر چھوٹے کمرے میں داخل ہوگئی۔
تھامسن نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔ اس نے دیکھا کہ جین کی کیفیت بدل گئی ہے، اور اس نے محسوس کیا کہ اسے بچی کے ساتھ کچھ دیر اکیلا چھوڑ دینا ہی بہتر ہوگا۔ چنانچہ وہ اپنی دکان پر چلا گیا جو گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ تھامسن شام تک کام کرتا رہا بلکہ آج اس نے زیادہ کام کیا تھا تاکہ جین کے سوالوں سے بچ سکے۔
شام میں جب اس نے گھر کا رخ کیا تو چھوٹے کمرے کی کھڑکیوں سے پھوٹنے والی روشنی وہ پہلی چیز تھی جس نے اسے سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ کھڑکی صاف نظر آرہی تھی۔ میگی لیٹی ہوئی تھی۔ لیمپ کی روشنی میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ مسز تھامسن بیڈ کے پاس بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھئے: بلبل اور گلاب (آسکر وائلڈ)

میگی اداس چہرہ لئے جین کی کسی بات کا جواب دے رہی تھی۔ تھامسن کے سینے سے ایک گہری سانس خارج ہوئی، جیسے اس کے دل پر سے کوئی بوجھ اٹھ گیا ہو۔گھر میں داخل ہونے کے بعد وہ چھوٹے کمرے کی طرف نہیں گیا بلکہ کچن میں آ گیا۔ برتنوں کی آواز سن کر جین کمرے سے نکل آئی۔ 
’’رات کا کھانا کب تک تیار ہوگا؟‘‘ تھامسن نے پوچھا۔’’جلد ہی۔‘‘ جین نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔ تھامسن اپنا ہاتھ منہ دھوکر چھوٹے کمرے کی طرف چلا گیا۔ بڑی اور روشن آنکھوں والی لڑکی نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تشکر اور التجا تھی۔ تھامسن کا سینہ خوشی سے پھول گیا۔ اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ اس نے پہلی بار بیمار بچی کو صاف ستھری حالت میں دیکھا تھا۔ وہ خوبصورت اور معصوم چہرے والی بچی تھی جو برسوں سے تکلیف میں مبتلا تھی۔ 
’’تمہارا نام میگی ہے؟‘‘ اس نے بیٹھتے ہی پوچھا اور اس کا نرم ہاتھ اپنے سخت اور کھردرے ہاتھوں میں لے لیا۔’’جی۔‘‘ ایک نحیف سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’کیا تم طویل عرصے سے بیمار ہو؟‘‘
’’جی ۔‘‘ اس کا لہجہ کتنا میٹھا تھا۔ 
’’کیا تم نے ڈاکٹر کو دکھایا؟‘‘ 
’’وہ کبھی کبھی آتا تھا۔‘‘
’’مگر حال ہی میں نہیں آیا، ہے نا؟‘‘’’ہاں ۔‘‘
’’کیا تمہیں کوئی تکلیف ہے؟‘‘’’ نہیں ۔‘‘
’’تمہیں آخری بار درد کب ہوا تھا؟‘‘ 
’’آج صبح میرے بازو میں درد ہوا تھا، اور جب آپ مجھے یہاں لے کر آئے تو میری کمر میں شدید درد ہوا تھا۔‘‘’’تمہیں کوئی اٹھائے یا حرکت دے تو تمہیں تکلیف ہوتی ہے؟‘‘ ’’جی ۔‘‘
‘’کیا تمہارے بازو میں ابھی درد ہے؟‘‘ 
’’نہیں ۔‘‘ 
’’کیا یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے؟‘‘
’’جی ؛لیکن جب سے میں اس نرم بستر پر ہوں مجھے کوئی تکلیف یا درد نہیں ہوا ہے۔‘‘ 
’’تمہیں نرم بستر اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’اوہ، ہاں ،بہت اچھا!‘‘ اس کی آواز میں تشکر کے ساتھ اطمینان بھی تھا۔
’’کھانا تیار ہے۔‘‘ جین نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔تھامسن نے اپنی بیوی کو دیکھا، پھر میگی کو۔ جین سمجھ گئی، کہنے لگی، ’’پہلے ہم کھالیتے ہیں ، پھر مَیں میگی کیلئے کچھ لے آؤں گی۔‘‘ 
مسز تھامسن نے اپنی طرف سے بے حسی ظاہر کرنے کی کوشش کی مگر شوہر نے اسے کھڑکی سے دیکھ لیا تھا، اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سرد مہری محض دکھاوا ہے۔ میز پر بیٹھنے کے بعد تھامسن انتظار کر رہا تھا کہ اس کی بیوی کچھ کہے۔ وہ اچانک مخاطب ہوئی، ’’تم اس بچی کے ساتھ کیا کروگے؟‘‘ ’’تم ہی نے کہا کہ اسے یتیم خانہ چھوڑ آؤں ۔‘‘ تھامسن نے ایسے جواب دیا جیسے اس کے سوال پر حیران ہو۔مسز تھامسن کچھ لمحوں کیلئے اپنے شوہر کی طرف عجیب نظروں سے دیکھتی رہیں ، پھر آنکھیں موند لیں ۔ کھانے کے دوران اس موضوع پر دوبارہ گفتگو نہیں ہوئی۔کھانے کے بعد مسز تھامسن نے ایک بریڈ ٹوسٹ کیا، اور اسے دودھ اور مکھن میں بھگو کر نرم کردیا۔ چائے کا ایک کپ رکھا، اور ٹرے لے کر میگی کی طرف گئی۔ چھوٹی بچی بھوکی تھی اس نے جلدی جلدی کھانا شروع کردیا۔ 
’’تمہیں کھانا پسند آیا؟‘‘ جین نے میگی سے سوال کیا۔ بچی نے کپ اپنے لبوں سے لگایا اور تشکر بھری آنکھوں سے جواب دیا۔ ان نظروں نے مسز تھامسن کے دل میں نئی زندگی پھونک دی۔ 
اس کے انسانی جذبات اچانک جاگ گئے۔
’’ہم اسے دو یا تین دن اپنے پاس رکھیں گے۔ وہ بہت کمزور اور بے بس ہے۔‘‘ اگلی صبح ناشتہ کی میز پر جین نے اپنے شوہر سے کہا۔
’’تمہیں پریشانی ہوگی۔‘‘ تھامسن نے اپنی بیوی کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ 
’’مجھے ایک یا دو دن کیلئے اس کی دیکھ بھال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ جین کی آواز میں عزم نمایاں تھا۔لیکن صرف ۲؍ دن نہیں بلکہ آئندہ ایک ہفتہ یا ایک مہینے میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جب مسز تھامسن نے بچی کو یتیم خانے بھیجنے کیلئے کہا ہو۔ جب تھامسن اس بارے میں پوچھتا تو وہ ہر مرتبہ کوئی نیا بہانہ بنادیتی۔ وہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ میگی کبھی یتیم خانے میں جائے۔ 
وہ ایک بیمار اور لاچار بچی تھی جو تھامسن جیسے پہیے بنانے والے ایک غریب شخص کی زندگی میں روشنی اور برکت لے کر آئی تھی۔ کافی عرصے سے یہ کنبہ اندھیرے اور مایوسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی بیوی نے جیسے خود سے محبت کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس ویرانی میں جین چڑچڑی اور بدمزاج ہوگئی تھی۔ اب اس بیمار بچی کی معصومیت اور مٹھاس نے جین کو چند دنوں ہی میں بدل دیا تھا۔ تھامسن کو اس کی کھوئی ہوئی خوش مزاج بیوی واپس مل گئی تھی جس میں محبت، صبر اور شکرگزاری تھی۔ اس نے بیمار لاچار بچی کو اپنی بانہوں میں بھرلیا تھا۔ تھامسن نے میگی کی زندگی بہتر بنانے کیلئے سخت محنت کی۔ خدا نے اس کی روزی میں خوب برکت دی، اور آج تھامسن اپنے قصبے کا امیر ترین شخص ہے۔ ایک بیمار، لاچار اور مایوس بچی کے روپ میں ایک فرشتے نے اس کے ویران مکان میں قدم رکھا تھا جس نے اس کے خوابوں کی تکمیل کی اور ان کی زندگیوں کو محبت کی کرنوں سے بھر دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK