Inquilab Logo Happiest Places to Work

بولتا ہوا گنبد

Updated: May 17, 2025, 3:11 PM IST | Qazi Sabiha | Ahmednagar

احمد آج اسکول سے واپس آتے ہوئے بے حد خوش تھا۔ استاد نے کلاس میں گول گنبدوں اور ان میں آواز کی خاصیتوں پر روشنی ڈالی تھی، اور یہ بات احمد کو بہت حیرت انگیز لگی تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

احمد آج اسکول سے واپس آتے ہوئے بے حد خوش تھا۔ استاد نے کلاس میں گول گنبدوں اور ان میں آواز کی خاصیتوں پر روشنی ڈالی تھی، اور یہ بات احمد کو بہت حیرت انگیز لگی تھی۔
 گھر پہنچتے ہی اس نے اپنے چاچو سے سوالات شروع کر دیئے، جو ہمیشہ سائنسی باتوں کو دلچسپ انداز میں سمجھاتے تھے۔
 احمد: ’’چاچو! استاد نے بتایا کہ گول گنبدوں میں آواز گونجتی ہے لیکن یہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟‘‘
 چاچو نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ بہت شاندار سوال ہے، احمد۔ بیٹھو، میں تمہیں تفصیل سے سمجھاتا ہوں۔‘‘
 چاچو نے ایک کاغذ اور پینسل اٹھائی اور گنبد کا خاکہ بنایا۔
 چاچو، ’’جب ہم کوئی آواز پیدا کرتے ہیں تو وہ ہوا میں ارتعاش کے ذریعے سفر کرتی ہے۔ یہ ارتعاش لہروں کی صورت میں چاروں طرف پھیلتا ہے، جنہیں ہم ’آواز کی لہریں‘ کہتے ہیں۔ گنبد کی گول شکل ان لہروں کو منعکس کرتی ہے۔‘‘
 احمد، ’’انعکاس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘‘
 چاچو، ’’انعکاس وہ عمل ہے جس میں کوئی چیز، جیسے آواز یا روشنی، کسی سطح سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہے۔‘‘
 چاچو نے ایک گیند دیوار سے مار کر دکھائی، جو واپس احمد کی طرف آئی۔
 چاچو، ’’دیکھو، گیند دیوار سے ٹکرا کر واپس آگئی۔ بالکل اسی طرح، آواز کی لہریں بھی گنبد کی سطح سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں۔ لیکن گنبد کی گول شکل کی وجہ سے یہ لہریں مرکز (focal point) پر مرکوز ہو جاتی ہیں، جس سے آواز گونجتی ہے۔‘‘
 احمد، ’’مرکز کیا ہوتا ہے؟‘‘
 چاچو، ’’مرکز وہ جگہ ہے جہاں گنبد کی سطح سے منعکس ہونے والی تمام آواز کی لہریں جمع ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر تمہاری آواز صاف اور گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔‘‘
 احمد، ’’یہ انعکاس کس اصول پر ہوتا ہے؟‘‘
 چاچو، ’’انعکاس کا اصول کہتا ہے:
وقوع ہو نے کا زاویہ = منعکس ہونے کا زاویہ
 جب آواز کی لہریں گنبد کی سطح سے ایک خاص زاویے پر ٹکراتی ہیں تو وہ اسی زاویے پر واپس آتی ہیں، لیکن گنبد کی گولائی انہیں مرکز کی طرف موڑ دیتی ہے۔‘‘
 احمد نے دلچسپی سے پوچھا، ’’کیا دنیا میں ایسی کوئی جگہ ہے جہاں میں یہ خود دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
 چاچو، ’’ہاں، احمد! دنیا میں کئی مشہور گنبد ہیں، جیسے ہندوستان کے بیجاپور کا ’گول گنبد‘۔ وہاں سرگوشی بھی گنبد کے دوسری طرف سنائی دیتی ہے۔ حیدرآباد کا چار مینار بھی اسی خاصیت کے لئے مشہور ہے۔‘‘
 اگلے دن احمد اور چاچو قریبی تاریخی مسجد کے گنبد میں گئے۔
 احمد گنبد کے نیچے کھڑا ہو کر بولا، ’’چاچو، یہاں میری آواز کتنی گونج رہی ہے!‘‘
 گنبد کی بازگشت نے اس کی آواز دہرائی: ’’گونج رہی ہے... رہی ہے... ہے...‘‘
 چاچو، ’’یہی گنبد کی خاصیت ہے۔ آواز یہاں کی دیواروں سے بار بار ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے، اور گنبد کی گولائی اسے بار بار دہراتی ہے۔ اسی لئے تمہاری آواز زیادہ گونج دار لگ رہی ہے۔‘‘
 احمد، ’’تو کیا یہ گونج موسیقی یا تقریر کیلئے فائدہ مند ہوتی ہے؟‘‘
 چاچو، ’’بالکل، یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہ دربار اور مساجد میں گنبد بنواتے تھے۔ اس سے تقریریں اور موسیقی زیادہ صاف اور دور تک سنائی دیتی تھیں۔ آج بھی کانفرنس ہالز اور اوپیرا ہاؤسز میں یہی اصول استعمال ہوتے ہیں۔‘‘
 احمد نے گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر مختلف آوازیں نکالیں اور ان کی بازگشت کو سنا۔
 وہ پرجوش ہو کر بولا، ’’یہ تو جادو کی طرح لگتا ہے!‘‘
 چاچو نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ جادو نہیں، سائنس ہے۔ گنبد کی شکل اور انعکاس کا اصول مل کر یہ خاصیت پیدا کرتے ہیں۔‘‘
 اس دن احمد نے نہ صرف گنبد کی ساخت کو سمجھا بلکہ عملی طور پر آواز کے انعکاس اور بازگشت کا تجربہ بھی کیا۔ وہ خوشی سے بولا، ’’اب میں گول گنبد اور ایسی دوسری جگہوں پر جا کر ان باتوں کو خود دیکھنے کا انتظار نہیں کرسکتا!‘‘
 چاچو نے کہا، ’’یاد رکھو احمد بیٹا! سائنس ہمیشہ نئے سوالات اور تجربات کے لئے دروازے کھولتی ہے۔‘‘
 یہ دن احمد کیلئے یادگار بن گیا، اور اس نے گنبدوں کی خاصیتوں کو ہمیشہ کیلئے یاد رکھ لیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK