Inquilab Logo

کرشمہ!

Updated: March 16, 2024, 11:24 AM IST | Wali Muhammad Qazi | Thane / Mumbra

یہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس کا واقعہ ہے۔ جب جاوید ویسٹرن ریلوے لائن پر بسے جوگیشوری کے قرب میں ایک خستہ عمارت کی دوسری منزل میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہ کر اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس کا واقعہ ہے۔ جب جاوید ویسٹرن ریلوے لائن پر بسے جوگیشوری کے قرب میں ایک خستہ عمارت کی دوسری منزل میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہ کر اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا۔ پڑھائی میں وہ کافی ذہین ہونے کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں بی اے کی امتحان میں اُس نے نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ جاوید بہت کم بولتا تھا، مگر جب بولنے کی نوبت آجاتی تو شائستگی کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسی گفتگو کرتا کہ سامنے والا غور سے سننے پر آمادہ ہوجاتا۔ والد صاحب حامد میاں جو ہائی کورٹ میں چپراسی کی حیثیت سے ملازم تھے، عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھ لینے کے بعد اُنہیں سبکدوشی کا پروانہ مل گیا۔ لیکن کچھ دن پہلے اپنے اُس جج کی سفارش سے جن کی خدمت کے لئے وہ کئی سال سے معمور تھے، جاوید کیلئے ہائی کورٹ میں کلرک کی نوکری پکی کرلی۔ اور حامد میاں کے سبکدوشی کے بعد چند ہی دنوں میں جاوید کا تقرر ہو کر وہ اپنی خدمات کو انجام دینے لگا۔
 دو تین سال کب گزر گئے جس کا پتہ ہی نہ چلا۔ جاوید اپنی ہمہ گیر ترقی کے لئے محنت و لگن سے کام کررہا تھا۔ لیکن گزشتہ چند مہینوں سے وہ اپنے دائیں ہاتھ میں شدید درد محسوس کررہا تھا۔ اور اُس ہاتھ کو اوپر اُٹھانا اور مذید اُس سے روزمرہ کے کام لینا دشوار ہوگیا تھا۔ اس حالت میں ایسا نہیں کہ جاوید نے اپنے علاج میں کوئی کسر چھوڑی۔ ممبئی میں اوپیراہاؤس اور دیگر مقامات میں رہنے والے نامور اور شہرت یافتہ ڈاکٹروں سے علاج کرتا رہا۔ اُس زمانے میں ایم آر آئی کا وجود نہیں تھا۔ صرف ایکس رے سے جسم کے اندرونی حالات کی تشخیص کی جاتی تھی۔ غرض ڈاکٹروں نے اسے ’’فروزن شولڈر‘‘  قرار دیا۔ مگر کئی دوائیاں کھانے کے بعد اور اُس کی کچھ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے باوجود جاوید کو افاقہ نہیں ہوا۔
 آج اِتوار کا دن تھا۔ کسی کام کیلئے دوپہر ہوتے ہی گھر سے چل پڑا۔ اور ممبئی سینٹرل جانے کے لئے جوگیشوری اسٹیشن پر ٹرین میں سوار ہوگیا۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے آج ٹرین میں مسافروں کی تعداد کافی کم تھی۔ اور ہر روز ملنے والی کوفت و ذہنی اذیت سے مسافر آزاد تھے۔ جاوید کو بھی بیٹھنے کے لئے نشست مل گئی۔ تھوڑی دیر بعد اندھیری اسٹیشن آگیا۔ اور ٹرین رُک جانے پر ایک نورانی چہرے والے بزرگ جن کے سر پہ عمامہ باندھا ہوا تھا، اسی ڈبے میں سوار ہوگئے۔ چلئے ہم اُنہیں بابا کہیں گے۔ اندر آتے ہی اُنہوں نے آواز لگائی’’دس روپے کا سوال ہے۔ صرف دس روپیہ، ایک پیسہ بھی کم نہیں لوں گا۔‘‘ سارے مسافر اُنہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ مگر کسی کی دس روپے دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اور کیسے ہوسکتی؟ کیونکہ اُس زمانے میں دس روپے کی قیمت ایک ہزار روپے کی قدر سے کم نہ تھی۔ اٹھنی یا ایک روپیہ جیب میں رہنے سے ہر فرد خود کو وقت بادشاہ تسلیم کرتا تھا۔ اور یہ بادشاہت حقیقت پر مبنی تھی کہ ان چھوٹے سکوں سے ڈھیر ساری چیزیں خریدی جاسکتی تھی۔ اور ہوٹل میں دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کھایا جاسکتا تھا۔
 بہرکیف، جاوید کے دل میں اُنہیں دس روپے دینے کا خیال پیدا ہوگیا۔ ویسے دو روز پہلے اُسے تنخواہ ملی تھی، جو چالیس روپے سے زیادہ نہیں تھی۔ آج اُس میں سے بیس روپے اُس کے پینٹ کے بائیں پاکیٹ میں محفوظ تھے۔ جب سے جاوید کا ہاتھ درد کی شدت میں مبتلا ہوگیا، تب سے وہ اپنے اکثر کام بائیں ہاتھ سے ہی کررہا تھا۔ اس لئے آج بھی اُس نے اپنا پرس بائیں جیب میں ہی رکھا تھا۔ اور بائیں ہاتھ سے اپنا پرس نکال کر دس روپے کی نوٹ بابا جی کے سامنے اُسی ہاتھ سے پکڑ کر دی۔ باباجی نے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھ کر اُسے کہا، ’’سیدھے ہاتھ میں رکھ کر دے۔‘‘جیسے ہی جاوید نے سیدھے ہاتھ میں نوٹ کو سنبھال کر اُن کی جانب بڑھائی۔ باباجی نے فوراً نوٹ اُس کے ہاتھ سے کھینچ کر اُس ہاتھ کو ایک زور دار جھٹکا دیا۔ اچانک اس حرکت سے جاوید تلملا اُٹھا اور اُس نے چیخ ماری۔ دریں اثناء بابا جی اگلے اسٹیشن پر اُتر کر چلے گئے۔ تھوڑا وقت گزر جانے کے بعد جاوید نے محسوس کیا کہ اُس کے ہاتھ کا درد غائب ہوچکا ہے۔ اور اب وہ آسانی کے ساتھ نقل و حرکت کر رہا ہے۔ آج ساٹھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ جاوید اب اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوکر زندگی کے آخری ایام گذار رہا ہے۔ مگر آج تک متاثرہ ہاتھ میں اُسے کبھی تکلیف کا احساس نہ ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK