راجیش طوفان کی طرح اُس ٹوٹے پھوٹے مکان میں داخل ہوا اور چلّایا، ’’ماں، ماں مَیں پاس ہوگیا! مَیں اوّل آیا ہوں ماں۔‘‘
’’اوہ! میرے بیٹے!‘‘ کہتے ہوئے راجیش کی ماں باورچی خانے سے نکل آئی۔ اس نے اپنے لاڈلے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔
راجیش ہمیشہ فرسٹ آتا تھا۔ آج اس نے چوتھا درجہ پاس کر لیا تھا۔ وہ غریب ماں باپ کا لڑکا تھا۔ اسکول کی طرف سے اس کی فیس معاف کر دی گئی تھی۔ لیکن بس میں اسکول آنے جانے، اسکول کی پوشاک وغیرہ کا بھی تو خرچ ہوتا ہے نا! راجیش ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا تھا جہاں پوشاک وغیرہ پر بہت دھیان دیا جاتا ہے۔ اس اسکول میں پڑھائی بھی بہت اچھی ہوتی تھی، اس لئے راجیش کے لئے پتاجی نے اپنا پیٹ کاٹ کر اسے وہیں داخل کرایا تھا۔
راجیش کے پتاجی کسی سیٹھ کے یہاں منیم تھے۔ کافی پرانی نوکری تھی، لیکن انہیں تنخواہ زیادہ نہیں ملتی تھی۔ مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، لیکن تنخواہ جوں کی توں تھی۔ وہ لوگ گھر گرہستی کے خرچ میں زیادہ سے زیادہ کمی کرتے، پھر بھی گاڑی بڑی مشکل سے چلتی بلکہ کبھی کبھی تو رک ہی جاتی۔ راجیش کی بڑی خواہش تھی کہ وہ خود بھی کوئی کام کرے، دو، چار، دس روپے جو بھی ہوسکے کمائے اور اپنے پتاجی کی مدد کرے۔ راجیش اپنے پتاجی کا بھی اتنا ہی لاڈلا تھا جتنا ماں کا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا لاڈلا بیٹا اتنی کچی عمر میں ہی کام دھام شروع کر دے۔ اس لئے راجیش دل مسوسے بیٹھا تھا۔
راجیش فرسٹ پاس تو ہوگیا، لیکن اس کی فکر اور بڑھ گئی۔ اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’ماں، پانچویں درجے سے تو میری پوشاک وغیرہ کا خرچ اور بڑھ جائیگا۔ مجھے ٹائی لگانا پڑے گی، بوٹ پہننے ہوں گے، بوٹ پر روز پالش بھی کرنی ہوگی۔‘‘
ماں نے بڑھ کر پھر اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں، ’’تجھے ابھی سے فکر ہونے لگی میرے لال۔‘‘
’’ہاں ماں.... اور مَیں چاہتا ہوں کہ....‘‘ وہ کہتے کہتے چپ ہوگیا۔
’’کیا بیٹے؟‘‘
’’اب مجھے نہ روکنا۔ مَیں کہیں چھوٹا موٹا کام کر لوں گا۔ آج کل ایسا کام بھی کہاں ملتا ہے۔ مَیں نے ایک اخبار والے سے بات کر لی ہے۔‘‘ راجیش نے پہلی بار اپنی ماں کو بتایا، ’’صبح اور شام کو میں اس کے اخبار بانٹ آیا کروں گا۔ ہر مہینے مجھے وہ دس روپے دے گا۔‘‘
’’لیکن بیٹا اس سے روز تیرے کئی گھنٹے برباد ہوجائینگے۔ تجھے لکھنے پڑھنے کیلئے کافی وقت نہیں ملے گا۔ پھر تو ہر سال اپنے درجے میں اوّل کیسے آئے گا؟‘‘ یہ سن کر راجیش بھی سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ ماں کو تکتا رہا، پھر اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، ’’ماں مَیں رات کو دیر تک جاگا کروں گا۔ ہر رات جاگوں گا اور پڑھوں گا۔ اس طرح دیکھ لینا، مَیں کام بھی کروں گا اور اوّل بھی آؤں گا۔‘‘
ماں نے ٹالنے کے لئے کہہ دیا، ’’تیرے پتا جی رات کو آئیں گے ان سے بات کر دیکھنا۔‘‘
’’اچھا ماں۔‘‘ راجیش نے کہا اور کھیلنے کے لئے چلا گیا۔ راجیش کھیل کر لوٹا تو اسکے پتا جی واپس آچکے تھے۔ ماں انہیں یہ خوشخبری سنا چکی تھی کہ ہمارا بیٹا اس سال بھی اوّل آیا ہے۔ ہندی، انگریزی اور حساب میں تو اسے بہت ہی اچھے نمبر ملے ہیں۔ پتاجی نے راجیش کو پیار سے گود میں بٹھا لیا، موقع دیکھ کر راجیش نے وہی اخبار بانٹنے والی بات چھیڑی۔ پتا جی سنجیدہ ہوگئے اور کچھ نہیں بولے۔
’’کیوں پتا جی آپ منع تو نہیں کریں گے؟‘‘ راجیش نے انکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
پتاجی ابھی سوچ رہے تھے کہ جواب کیا دیں کہ اتنے میں ایک انجان آدمی گھر میں داخل ہوا۔ پتاجی اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے استقبال کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے، ’’فرمایئے؟‘‘ اس آدمی کو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ راجیش کی ماں بھی وہاں آکھڑی ہوئیں۔ راجیش کی آنکھیں تو اس آدمی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ہی۔ آدمی آگے بڑھا۔ اس نے راجیش کو گود میں لے لیا اور بہت پیار سے کہا، ’’راجیش ورما تم ہی ہو نا؟‘‘
’’جی ہاں، یہ میرا بیٹا ہے لیکن....؟‘‘ راجیش کے پتا آگے بڑھتے ہوئے بولے، ’’لیکن آپ کون ہیں؟‘‘ ’’میرا نام لالہ ہربنس لال ہے۔‘‘ آدمی مسکراتے ہوئے بولا، ’’شاید آپ نے میرا نام سنا ہو.... اخباروں میں وہ اشتہار نکلتا ہے نا، حکیم لالہ ہربنس لال کا؟‘‘
’’جی ہاں! جی ہاں!‘‘
’’وہ مَیں ہی ہوں۔‘‘
’’اوہ....! خوش قسمتی ہماری۔ کہئے کیسے آنا ہوا اس غریب کی کٹیا میں؟‘‘ راجیش کے پتاجی تو جیسے پانی پانی ہوگئے۔
لالہ ہربنس لال کا نام سچ مچ بہت اونچا تھا۔ ان سے علاج کرانے لوگ دور دور سے آتے تھے اور منہ مانگی فیس دیتے تھے۔ لالہ ہربنس لال مسکرانے لگے اور بولے، ’’میرا بیٹا راجیش کے ساتھ ہی پڑھتا ہے۔ اسی نے بتایا کہ راجیش درجے میں اوّل آتا ہے۔‘‘
اپنی تعریف سن کر راجیش کچھ شرما کر نیچے دیکھنے لگا۔ راجیش کے پتاجی کی چھاتی گز بھر پھول گئی، ’’ہاں!‘‘ انہوں نے کہا، ’’مجھے اپنے بیٹے پر ناز ہے۔ آپ بیٹھئے نا!‘‘
لالہ ہربنس لال کرسی پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے، ’’مَیں نے سوچا کیوں نہ راجیش کے گھر ہو آیا جائے۔‘‘ ’’اوہ، آپ نے سچ مچ بہت مہربانی کی۔ راجیش کی ماں ذرا لالہ جی کے لئے شربت تو بنانا۔‘‘ راجیش کے پتا جی بولے۔
ماں رسوئی گھر میں چلی گئی۔ راجیش بھی اس کیساتھ جانے لگا، لیکن لالہ ہربنس لال نے اسے روک لیا اور اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔ اسکے ماتھے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرا بیٹا یہ بھی کہہ رہا تھا کہ آپ لوگوں کو.... روپیوں پیسوں کے معاملے میں ہمیشہ دقت رہتی ہے۔‘‘
راجیش کے پتا کو شرم سی محسوس ہوئی۔ وہ سمجھ نہ پائے کہ لالہ ہربنس لال نے یکایک یہ ذکر کیسے چھیڑ دیا۔ وہ چپ رہے۔ لالہ جی آگے بولے، ’’دیکھئے میری بات کا کوئی اور مطلب نہ نکالئے گا۔ لیکن میری دلی خواہش ہے کہ میں آپکے بیٹے کی پڑھائی لکھائی کا پورا خرچ اپنے ذمہ لے لوں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں لالہ جی؟‘‘ راجیش کے پتا جی کو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔
’’سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ لالہ ہربنس لال کی مسکراہٹ اسی طرح قائم تھی، ’’مَیں نہ صرف راجیش کی پڑھائی لکھائی کا خرچ اٹھاؤں گا بلکہ اسے ہر مہینے پچاس روپے بھی دوں گا۔‘‘
’’اوہ! لیکن.... لیکن....‘‘
’’آپ بیکار ہی ہچکچا رہے ہیں ورما جی۔‘‘ لالہ جی نے راجیش کے پتا جی کی آنکھوں میں سیدھے دیکھتے ہوئے کہا، ’’مجھے بھگوان نے اتنا کچھ دیا ہے کہ میرے لئے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ راجیش جیسے ہونہار لڑکے کی مدد کرکے مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
راجیش کی ماں شربت لے کر وہاں آچکی تھی۔ لالہ جی نے اپنی پیشکش نئے سرے سے راجیش کی ماں کے سامنے رکھی تو وہ بھی اپنے کانوں پر یقین نہ کرسکی۔ راجیش کے پتاجی سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے پوچھ لیا، ’’لیکن آپ جو ہر مہینے راجیش کو دیں گے، اس کے بدلے میں راجیش کو آپ کی کیا خدمت کرنی ہوگی، یہ بھی بتا دیجئے۔ بالکل مفت تو ہم کچھ لینے کے نہیں۔‘‘
’’اوہ! آپ کی بات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا ہے۔‘‘ لالہ جی نے کہا، ’’لیکن اصلیت یہ ہے کہ آپکی اس بات کا اندازہ میں نے پہلے سے ہی لگا لیا تھا اور میں نے اسکا علاج بھی سوچ لیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’آپ کو معلوم ہوگا کہ مَیں نے ایک چورن بنایا ہے جس کے کھانے سے یادداشت بڑھتی ہے۔ میں اسکے اشتہار کا ایک نیا طریقہ آزمانا چاہتا ہوں۔ اس میں مجھے راجیش کی مدد درکار ہوگی۔‘‘
’’مَیں تیار ہوں۔‘‘ راجیش فوراً بول اُٹھا، ’’کہئے مجھ سے کیسی مدد چاہئے؟‘‘ ’’تم مجھے لکھ کر دو کہ تم یادداشت بڑھانے والا چورن کھایا کرتے ہو۔‘‘ لالہ جی نے اپنی اصلی بات اب ظاہر کی، ’’میں تمہارے فوٹو کے ساتھ چھاپوں گا کہ جو بھی طالبعلم اس چورن کا استعمال کرے گا اس کی یادداشت راجیش ورما جیسی تیز ہو جائے گی۔‘‘
راجیش کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دے۔ نہ اس کے ماں باپ ہی کچھ کہہ پائے۔ ان کی جھجک کو لالہ جی نے فوراً سمجھ لیا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے، ’’آپ لوگ سوچ لیجئے۔ سوچنے کے لئے کافی وقت دے رہا ہوں۔ دس بارہ دن میں جب بھی آپ چاہیں میری کوٹھی پر آکر ملیں۔‘‘ راجیش کی پیٹھ ایک بار اور تھپتھپا کر لالہ جی باہر چلے گئے۔ راجیش نے آنکھوں میں سوال لئے ہوئے ماں کی طرف دیکھا، پھر پتا کی طرف۔
’’بیٹے کیا سوچتے ہو تم؟‘‘ پتا جی نے راجیش ہی کی رائے پہلے جاننی چاہی۔ ماں کی سوالیہ آنکھیں بھی راجیش پر آ ٹکیں۔
ایک دم راجیش کا چہرہ تمتما اُٹھا اور وہ بولا، ’’پتا جی کیسی عجیب بات ہے! کیا چورن کھانے سے کسی کا دماغ بڑھ سکتا ہے؟ پھر تو سب نے چورن لے لے کر میرے جتنے نمبر پا لئے ہوتے۔‘‘
’’بیٹے نمبر تو ملتے ہیں محنت سے، پڑھائی سے۔‘‘ ماں نے کہا۔
’’پھر مَیں کیسے لکھ کر دے سکتا ہوں کہ مَیں چورن کھاتا ہوں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دماغ بکا کرتے ہیں اور کوئی بھی بازار میں جا کر انہیں خرید سکتا ہے، ہوشیار بن سکتا ہے۔ نہیں نہیں، مَیں اس طرح اپنے ایمان کو نہیں بیچ سکتا۔‘‘ راجیش کی آواز میں جوش تھا، ’’مَیں ابھی جاتا ہوں لالہ جی کے پاس....‘‘ اور راجیش دوڑ کر باہر نکل گیا۔
لالہ جی پیدل ہی جا رہے تھے، اس لئے زیادہ دور نہیں پہنچے تھے۔ راجیش ہانپتا ہوا ان کے پاس پہنچا، ’’لالہ جی مجھے.... مجھے آپ کی بات منظور نہیں ہے، قطعی نہیں۔‘‘
اور فوراً ہی لالہ جی نے راجیش کو گود میں اٹھا لیا، ’’شاباش! بیٹے مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔‘‘
’’کیا؟‘‘ راجیش کو یقین ہی نہیں آیا۔
لالہ ہربنس لال مسکراتے ہوئے بولے، ’’ہاں راجیش بیٹے میں تو تیرا امتحان لے رہا تھا۔ تو اپنے اسکول کے امتحان میں ہی نہیں، میرے امتحان میں شاندار طریقے سے پاس ہوگیا ہے۔ اگر تو نے میری بات مان لی ہوتی تو مَیں تجھے ایک پائی بھی نہ دیتا.... لیکن بات نہ مان کر تو نے ایک بے مثال کام کیا ہے۔ اب تجھے اپنی پڑھائی لکھائی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ تیرا سارے خرچ کا ذمہ اب میں لے رہا ہوں۔ سمجھے؟ بدلے میں روز میرے لڑکے کو پڑھا دیا کرنا۔‘‘
راجیش مچھلی کی طرح تڑپ کر لالہ ہربنس لال جی کی گود سے اتر گیا اور خوشی سے چلّاتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ وہ اس خوشخبری کو جلد سے جلد اپنے ماں باپ کو سنانا چاہتا تھا۔ لالہ ہربنس لال بھی ہنستے ہوئے راجیش کے ہی گھر کی سمت بڑے بڑے ڈگ بھر رہے تھے۔