آصف پانچویں جماعت کا ایک ہونہار طالب علم تھا۔ اس میں سب باتیں اچھی تھیں لیکن ایک کمزوری بہت بڑی تھی۔ اسے جو کام بتایا جاتا وہ ذرا سی دیر میں بھول جاتا، چاہے وہ کام کتنا ہی اہم کیوں نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کھیل کود اور دوسری چیزوں میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔
آصف پانچویں جماعت کا ایک ہونہار طالب علم تھا۔ اس میں سب باتیں اچھی تھیں لیکن ایک کمزوری بہت بڑی تھی۔ اسے جو کام بتایا جاتا وہ ذرا سی دیر میں بھول جاتا، چاہے وہ کام کتنا ہی اہم کیوں نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کھیل کود اور دوسری چیزوں میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ اس کی امی اسے کچھ خریدنے کے لئے بازار بھیجتیں اور وہ پارک میں جا کر دوستوں کے ساتھ کھیل میں لگ جاتا۔ امی کا بتایا ہوا کام بھی اسے یاد نہ رہتا۔ جب وہ خالی ہاتھ گھر واپس لوٹتا تو خوب ڈانٹ پڑتی۔
آج بھی آصف روزانہ کی طرح صبح سویرے اٹھ گیا اور اسکول کے لئے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آبیٹھا۔ اس کی امی نے اس کا اسکول بیگ کھولا اور اس میں ایک لفافہ رکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹے آصف! دیکھو اس لفافے کو آج ہی پوسٹ کر دینا۔‘‘
’’جی امّی جان! ضرور۔‘‘ آصف نے جواب دیا۔
وہ ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی امی کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ امّی نے اسکول کا بیگ اس کی پیٹھ پر لٹکا دیا اور اسے دعائیں دینے کے بعد کہا،
’’بیٹے آصف! لفافہ پوسٹ کرنا مت بھولنا۔ اس میں تمہارے شاہد چچا اور ان کے لڑکے ببلو کو چھٹیوں میں یہاں آنے کے لئے لکھا ہے۔‘‘
آصف خوشی سے اچھل پڑا، ’’واہ امّی جان! آپ نے کتنی اچھی خبر سنائی۔ ببلو ہمارے گھر آئے گا تو مَیں اس کے ساتھ خوب کھیلا کروں گا۔‘‘
دروازے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے امی کو یقین دلایا، ’’مَیں لفافہ ضرور پوسٹ کر دوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ خدا حافظ!‘‘
آصف کا اسکول گھر سے بہت دور تھا، اس لئے وہ بس سے اسکول جایا کرتا تھا۔ آج بھی وہ گھر کے قریب والے بس اسٹاپ سے بس میں سوار ہوا۔ بس میں ایک بھی سیٹ خالی نہ تھی۔ آصف آگے کی طرف بڑھتا گیا اور ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے لگے ہوئے ڈنڈے کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا.... اور خیالوں میں کھو گیا۔ اب اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ چلتے وقت امی نے اسے کوئی اہم کام سونپا تھا۔
ٹھیک اسی وقت پیچھے کی سیٹ سے اٹھ کر ایک ادھیڑ عمر کی عورت آصف کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور اس سے بولی، ’’مجھے اگلے اسٹاپ پر اترنا ہے۔ بیٹے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
آصف نے اسے اپنا نام بتایا۔ اس عورت نے مسکرا کر کہا، ’’تم بڑے پیارے بچّے ہو۔ یاد ہے نا! تمہیں ایک لفافہ پوسٹ کرنا ہے؟‘‘
اس عورت کا اسٹاپ آیا اور وہ نیچے اتر گئی۔ آصف بہت حیران تھا۔ نہ جانے یہ عورت کون تھی؟ اسے کیسے معلوم ہوا کہ میرے پاس پوسٹ کرنے کے لئے ایک لفافہ ہے۔ لیکن وہ خوش بھی تھا کہ اس عورت نے اسے لفافے کے بارے میں یاد دلایا۔
بس دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ آصف سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے میں محو ہوگیا اور لفافے کا خیال پھر اس کے ذہن سے نکل گیا۔ اتنے میں پیچھے سے ایک بوڑھا آدمی اٹھا اور آصف کے پاس آکر پوچھنے لگا، ’’بیٹا، تم کہاں پڑھتے ہو؟‘‘
’’نیشنل اسکول میں انکل!‘‘
’’بہت خوب۔ تم بہت اچھے لڑکے ہو۔ لیکن دیکھو لفافہ پوسٹ کرنا مت بھولنا۔ اچھا مَیں اترتا ہوں۔‘‘
بوڑھا آدمی اپنے اسٹاپ پر اتر گیا۔ آصف کو تعجب ہو رہا تھا کہ بوڑھے انکل کون تھے؟ اور ان کو لفافہ پوسٹ کرنے والی بات کیسے معلوم ہوئی؟
بس پھر روانہ ہوئی۔ آصف دوبارہ آس پاس کے نظاروں میں گم ہوگیا اور لفافے والی بات اس کے ذہن سے نکل گئی۔ اتنے میں ایک نوجوان طالب علم جس کے ہاتھ میں کتابیں تھیں اس کے قریب آیا اور آصف سے کہنے لگا، ’’میرا کالج آرہا ہے۔ مَیں اگلے اسٹاپ پر اتر جاؤں گا۔ تم لفافہ پوسٹ کرنا بھول تو نہیں جاؤ گے؟‘‘
اسٹاپ آنے پر وہ طالب علم بھی بس سے اتر گیا۔ بس دوبارہ چل پڑی۔ آصف کے ذہن میں بار بار یہی سوال ابھر رہا تھا کہ آخر اس عورت، بوڑھے انکل اور نوجوان طالب علم کو کیسے معلوم ہوا کہ میرے پاس کوئی لفافہ ہے جسے پوسٹ کرنا ہے۔ وہ سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ اگلے اسٹاپ پر بس رُکی۔ کنڈکٹر نے آواز لگائی، ’’نیشنل اسکول۔‘‘
آصف بس سے اترا۔ اسکول تک پہنچنے کے لئے اسے تھوڑی دور پیدل چلنا تھا مگر وہ اسکول کی طرف نہیں گیا۔ سڑک کے کنارے سرخ لیٹر بکس تھا۔ وہ لیٹر بکس کے پاس پہنچا، کاندھوں سے لٹکا ہوا بیگ اتار کر کھولا، لفافہ نکالا اور بکس میں ڈال دیا۔
لفافہ پوسٹ کرنے کے بعد وہ بہت سکون محسوس کر رہا تھا۔ وہ بیگ بند ہی کر رہا تھا کہ اس کی نظر بیگ کی پشت پر پڑی اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ بیگ پر کاغذ کا ایک ٹکڑا چپکا ہوا تھا جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی:
’’مہربانی کرکے اس بچّے کو یاد دلا دیجئے کہ اسے آج ایک لفافہ پوسٹ کرنا ہے۔‘‘