نسیمہ باجی گھڑی کی یہ حالت دیکھ کر بدھو میاں کو کوسنے لگیں گھڑی نہ ٹھیک ہونا تھی اور نہ سنبھلی۔ ہاں بدھو میاں کی خوب درگت بنی۔ شام کو ابّا جان نے ان کی ایسی مرمت کی کہ انہوں نے کئی دن تک اپنی کتاب ’’ہرفن مولا‘‘ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
EPAPER
Updated: December 16, 2023, 1:15 PM IST | Mayal Khairabadi | Mumbai
نسیمہ باجی گھڑی کی یہ حالت دیکھ کر بدھو میاں کو کوسنے لگیں گھڑی نہ ٹھیک ہونا تھی اور نہ سنبھلی۔ ہاں بدھو میاں کی خوب درگت بنی۔ شام کو ابّا جان نے ان کی ایسی مرمت کی کہ انہوں نے کئی دن تک اپنی کتاب ’’ہرفن مولا‘‘ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
یہ سب قصور اُس کتاب کا تھا جو بدھو میاں ایک کباڑی کی دکان سے دس پیسے میں خرید کر لائے تھے۔ کتاب کا نام تھا ’’ہرفن مولا‘‘ اس میں صابن بنانے سے لے کر ریڈیو اور گھڑی تک کی مرمت کرنے کے طریقے لکھے تھے، کتاب خرید کر بدھو میاں کو ایسا لگا جیسے انہیں کوئی خزانہ مل گیا ہو۔
گھر میں قدم رکھتے ہی انہوں نے پکار کر کہا، ’’اجی نسیمہ باجی! آپ کہاں ہیں ؟ دیکھئے مَیں آپ کے لئے کیا لایا ہوں ؟‘‘
نسیمہ باجی سمجھیں کہ بدھو میاں اُن کے لئے مٹھائی لائے ہیں ۔ امتحان پاس کرنے کی خوشی میں مٹھائی کھلانے کا وعدہ بھی انہوں نے کیا تھا، بے چاری بھاگتی ہوئی بدھو میاں کے پاس آئیں اور کہنے لگی، ’’احمد بھائی کے یہاں سے لایا ہے نا؟‘‘
’’نہیں باجی! یہ تو فضلو کباڑی کے یہاں سے ملی ہے۔‘‘ بدھو میاں نے پیکٹ کھولتے ہوئے کہا، ’’باجی....! یہ تو ایک ڈھیر کے نیچے دبی تھی اسے میری خوش قسمتی سمجھئے ورنہ ایسی قیمتی چیز بھلا کہاں ملتی ہے۔‘‘
نسیمہ باجی حیران ہو کر پوچھنے لگیں ، ’’اچھا! فضلو کباڑی اب مٹھائی بھی بنانے لگا۔‘‘
بدھو میاں نے باجی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’’باجی! آپ کو ہمیشہ کھانے پینے کی ہی سوجھتی رہتی ہے، بھلا فضلو کباڑی مٹھائی کیوں بیچنے لگا یہ تو ایک بڑے کام کی کتاب ہے۔‘‘ بدھو میاں نے یہ کہہ کر پیکٹ کھول دیا، ایک پھٹی پرانی کتاب سامنے تھی۔ اس پر لکھا تھا: ’’ہرفن مولا‘‘.... ’’اس کتاب کو پڑھئے اور لکھ پتی بن جایئے۔‘‘
باجی کا چہرہ اُتر گیا۔ جھنجھلاتے ہوئے بولیں ، ’’بھاڑ میں جائے فضلو کباڑی اور چولہے میں جائے اس کی کتاب۔ میں سمجھی تھی کہ امتحان پاس کرنے کی خوشی میں مٹھائی لائے ہوگے۔‘‘
’’اجی باجی! آپ بھی خوب ہیں ۔ ارے بھئی یہ کوئی معمولی کتاب نہیں ہے اس میں صابن بنانے کا طریقہ ہے۔ گھڑی اور ریڈیو بنانے کا طریقہ ہے۔ اس میں سب کچھ ہے باجی۔‘‘
نسیمہ باجی چڑ کر بولیں ، ’’بس بس رہنے دو۔ کہاں سے اٹھا کر لائے یہ ردّی کے ٹکڑے پھینکو اُسے.....‘‘
’’اجی نہیں باجی! آپ دیکھئے تو سہی میں کیا کیا نئی نئی چیزیں اس کتاب کی مدد سے بناتا ہوں ۔‘‘ باجی تو جھنجھلا کر باورچی خانے میں چلی گئیں اور بدھو میاں کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگے۔ ہر دو منٹ کے بعد کرسی پر اُچھل کر کہتے، ’’وہ مارا.... اب اچار اور مربّے خود ہی ڈالا کریں گے.... ارے واہ کوٹ اور پتلون سینا تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے.... اچھا منجن میں صرف یہی تین چیزیں ہوتی ہیں ۔ بھئی، واہ.... موم بتی صرف پانچ منٹ میں تیار ہوسکتی ہے.... اچھا مچھر مار تیل کا نسخہ یہ ہے....‘‘
ادھر نسیمہ باجی، باورچی خانہ میں بیٹھی سوچ رہی تھیں کہ کہیں بدھو میاں کا دماغ تو نہیں چل گیا ہے۔ دوسرے دن بدھو میاں نے باجی سے کہا، ’’باجی! آپ کی گھڑی ہر روز پانچ منٹ پیچھے ہو جاتی ہے نا.... لایئے، مَیں اسے ٹھیک کر دوں ....‘‘
’’رہنے دو۔‘‘ باجی بگڑ کر بولیں ، ’’تم کہاں کے گھڑی ساز ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے کل تک مَیں گھڑی ساز نہیں تھا لیکن آج ہوگیا ہوں ، آپ لایئے تو ذرا اپنی گھڑی۔‘‘ ’’نا، بابا! مَیں گھڑی نہیں دوں گی۔‘‘ نسیمہ باجی انکار کرتے ہوئے بولیں ۔
’’اجی، آپ تو خواہ مخواہ ڈر رہی ہیں ، بس پانچ منٹ کی ہی تو بات ہے۔ اگر ایک منٹ بھی پیچھے رہے تو میرا نام بدل دیجئے گا۔‘‘ بدھو میاں نے سینہ ٹھونک کر کہا۔
نسیمہ باجی کو بدھو میاں کی بات کا ذرا بھی اعتبار نہیں تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی گھڑی نہیں دی۔ بدھو میاں تو گھڑی کی مرمت کرنے کے لئے بے چین ہوئے جا رہے تھے۔ موقع کی تلاش میں لگے رہے۔ اتفاق سے باجی غسل کرنے کے لئے غسل خانہ میں گئیں ۔ گھڑی کو میز پر رکھ گئیں بس پھر کیا تھا بدھو میاں کو موقع مل گیا۔ وہ فوراً گھڑی کی مرمت میں لگ گئے۔ چاقو کی نوک سے گھڑی کو کھول دیا۔ گھڑی نازک تھی، سیکنڈ کی سوئی فرش پر گری اور پھر نہ ملی۔ منٹ کی سوئی نکال رہے تھے کہ دباؤ پڑنے سے وہ ٹوٹ گئی یہی حال دوسرے پُرزوں کا ہوا۔ سارے پُرزے بکھر گئے لیکن بدھو میاں ذرا نہ گھبرائے گھڑی کی مرمت کرنے میں لگے رہے۔ باجی جب غسل خانہ سے باہر آئیں تو گھڑی کی حالت دیکھ کر اپنا سر پیٹ کر رہ گئیں ۔
بدھو میاں بولے، ’’باجی! آپ بالکل نہ گھبرایئے۔ مَیں ابھی اس کے پُرزے ٹھیک کئے دیتا ہوں ، آپ ذرا کسی برتن میں پیٹرول لے آیئے۔ مَیں ان تمام پُرزوں کو اس میں رکھ دوں گا۔ دو چار منٹ میں یہ صاف ہو جائیں گے۔ پھر انہیں اپنی اپنی جگہ پر لگا دوں گا۔ جو پُرزے گم ہوگئے ہیں وہ بازار سے لا کر لگا دوں گا.... پھر دیکھے جو ایک سیکنڈ بھی پیچھے رہ جائے۔‘‘
نسیمہ باجی گھڑی کی یہ حالت دیکھ کر بدھو میاں کو کوسنے لگیں ۔ گھڑی نہ ٹھیک ہونا تھی اور نہ سنبھلی۔ ہاں بدھو میاں کی خوب درگت بنی۔ شام کو ابّا جان نے ان کی ایسی مرمت کی کہ انہوں نے کئی دن تک اپنی کتاب ’’ہرفن مولا‘‘ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
دو تین ہفتے کے بعد بدھو میاں کو پھر کچھ نئی چیزوں کے بنانے کا بھوت سوار ہوا۔ جھٹ انہوں نے الماری سے اپنی کتاب ’’ہرفن مولا‘‘ نکالی، اتفاق سے اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ بدھو میاں نے کتاب کھولی اور پڑھنا شروع کر دیا۔ عنوان تھا:
’’کوٹ اور پتلون کیسے سئیں .....‘‘
بدھو میاں کی بانچھیں کھل گئیں ، ’’وہ مارا.... آج ہی اپنی ایک پتلون بنائیں گے یہ کہہ کر وہ اٹھے باجی کے بکس سے گرم کپڑے کا ایک بڑا سا ٹکڑا نکالا، قینچی اور فیتہ لے کر بیٹھ گئے۔ کتاب دیکھ دیکھ کر پتلون کا کپڑا کاٹنے لگے۔ ابھی انہوں نے صرف کٹائی ہی کی تھی اسے مشین پر سینا باقی تھا کہ اچانک باجی گھر میں داخل ہوئیں بدھو میاں کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ پھیکی سی ہنسی کے ساتھ کہنے لگے، ’’باجی! یہ دیکھئے پتلون کا کپڑا کیسے کاٹا جاتا ہے۔‘‘ باجی غصہ ہوتی ہوئی بولیں ، ’’ہائے، میری ڈیڑھ سو روپے کی گھڑی کا ستیاناس تو کیا ہی تھا میری شال کا گرم کپڑا بھی خراب کر دیا۔‘‘
’’اجی نہیں باجی! وہ تو اس دن ذرا سی بھول ہوگئی۔ اس بار کوئی غلطی نہیں ہوگی۔ ہر حصہ کی کٹائی تین تین بار کتاب میں دیکھنے کے بعد کی ہے۔‘‘
باجی دانت پیستی ہوئی بولیں ، ’’اچھا ذرا دیکھوں تو بھلا، پتلون کی لمبائی کتنی رکھی ہے؟‘‘
’’لمبائی.... یہی بس ۴۴؍ انچ۔‘‘
’’ہائے اللہ! اتنی لمبی پتلون تم پہنو گے؟‘‘
’’لمبی کہاں ہے باجی! کتاب میں یہی لمبائی لکھی ہے۔‘‘ ’’لاؤ تو ذرا کتاب۔‘‘
’’کتاب پڑھنے کے بعد باجی کو سچ مچ غصہ آگیا۔ بگڑتے ہوئے بولیں ، ’’معلوم ہوتا ہے تمہاری عقل گھاس چرنے گئی ہے۔ ۴۴؍ انچ تو پڑھ لیا یہ نہیں پڑھا کہ یہ لمبائی اس آدمی کی پتلون کی ہے جس کا قد ۶؍ فٹ ہو اور تم تو ابھی ساڑھے تین فٹ کے ہو۔‘‘
بدھو میاں جھینپتے ہوئے بولے، ’’یہ پتلون تو مَیں ابّا جان کے لئے بنا رہا ہوں ۔‘‘
اس کے بعد کیا ہوا، مت پوچھئے، پتلون سلنا تھی اور نہ سلی۔ کپڑے کی بربادی ضرور ہوگئی۔
بدھو میاں کی وہ پٹائی ہوئی کہ خود ان کی اپنی پتلون ڈھیلی ہوگئی۔ دو تین مہینے تک تو انہوں نے کتاب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ لیکن ایک دن پھر شوق چرایا کہ کچھ بنایا جائے۔
انہوں نے اپنی کتاب ’’ہرفن‘‘ کو کھول کر پھر پڑھنا شروع کیا۔ ریڈیو مرمت کرنے کا بیان تھا۔ اتفاق سے اس دن بھی گھر میں کوئی نہیں تھا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے گھر کے ریڈیو کا پچھلا حصہ کھولا، جیسے ہی پیچکس نے ایک پُرزے کو چھوا، بدھومیاں کو زور سے کرنٹ کا جھٹکا لگا اور وہ اوندھے منہ فرش پر گر کر بے ہوش ہوگئے۔ جب انہیں ہوش آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اسپتال میں ایک بستر پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ گھر کے لوگ اور ان کے دوست ان سے پوچھ رہے ہیں ، ’’اب کیسی طبیعت ہے۔‘‘
پورا قصہ بتاتے ہوئے بدھو میاں نے کہا کہ ’’ریڈیو کھولنے سے پہلے انہوں نے پلگ کو الگ نہیں کیا تھا۔‘‘ بدھو میاں سے عہد لیا گیا کہ آئندہ وہ ایسی حرکتیں نہیں کریں گے۔ وہ اسپتال سے گھر لوٹے اور پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے ’’ہرفن مولا‘‘ کتاب فضلو کباڑی کو واپس کر دی۔