ایک معذور بچّے کی کہانی جو دوسروں کے لئے مثال ہے۔
EPAPER
Updated: May 24, 2025, 1:58 PM IST | Syed Iqbal Amrohvi | Mumbai
ایک معذور بچّے کی کہانی جو دوسروں کے لئے مثال ہے۔
ہمارا اسکول دو منزلہ عمارت میں تھا۔ نچلی منزل پر پانچویں اور چھٹی جماعت کے دو دو ڈویژن، پرنسپل صاحب کا آفس اور اسکول کا دفتر تھا۔ پہلی منزل پر ساتویں اور آٹھویں کے دو، دو دویژن اور سائنس کی تجربہ گاہ تھی۔ دوسری منزل پر نویں کے دو اور دسویں کے دو ڈویژن، اساتذہ کا کمرہ اور کمپیوٹر لیب تھی۔
گرمی کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھلا تو نئے بچوں کا داخلہ شروع ہوا۔ آٹھویں کلاس میں ایک ایسے بچے نے داخلہ لیا جس کی دونوں ٹانگوں پر پولیو کا اثر تھا۔ ایک ٹانگ تو بالکل ہی ناکارہ تھی لیکن دوسری ٹانگ میں تھوڑی بہت قوت تھی۔ مگر بیساکھیوںکے بغیر چل نہیں سکتا تھا۔
ایک دن پرنسپل صاحب معائنے کے لئے زینے چڑھ کر پہلی منزل پر آنے لگے۔ اُن کے سامنے وہی لڑکا بیساکھیوں کے سہارے نہایت تکلیف سے زینے چڑھ رہا تھا۔ پرنسپل صاحب نے آفس میں آکر چپراسی سے کہا، ’’جا کر دیکھو، اس معذور لڑکے نے کس کلاس میں داخلہ لیا ہے؟‘‘ چپراسی نے آکر بتایا کہ وہ آٹھویں ب میں اس سال داخل ہوا ہے اور اُس کا نام حامد ہے۔
پرنسپل صاحب نے آٹھویں ب اور پانچویں ب کے اساتذہ کو بلایا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ اس سال اپنی کلاسوں کے کمرے آپس میں بدل لیں۔ کل سے آٹھویں ب کے طلبہ نچلی منزل پر چلے جائیں گے اور اُن کے کمرے میں پانچویں ب کے طلبہ بیٹھیں گے۔ ہر اسکول میں عام طور پر اِس اصول کی پابندی کی جاتی ہے کہ اونچی جماعتیں اوپری منزل پر ہوتی ہیں لیکن ایک معذور بچے کی خاطر پرنسپل صاحب نے اس اصول کو بدل دیا۔
ماسٹر صاحب کلاس میں آئے۔ انہوں نے حامد کو اپنے پاس بلایا اور اس سے ہمدردی سے باتیں کیں۔ اس کے بعد طلبہ کو بتایا کہ ان کی کلاس کل سے نچلی منزل پر اس کمرے میں بیٹھے گی جس میں اس وقت پانچویں ب بیٹھا کرتی ہے۔ آٹھویں کلاس کے طلبہ کو یہ ہدایت کچھ اچھی نہیں لگی۔ ان میں سے کچھ کو ایسا لگا جیسے انہیں اچانک آٹھویں جماعت سے پانچویں میں بھیج دیا گیا ہو۔ کچھ لڑکوں نے حامد کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ ایک لڑکے نے اُس سے کہہ بھی دیا کہ، ’’تم کو زینہ چڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے یہ آرڈر نکالا گیا ہے۔‘‘ حامد نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
درمیانی وقفے میں حامد نے پرنسپل صاحب کے نام ایک خط لکھا اور اپنے استاد کو دکھایا۔ کلاس ٹیچر نے خط پڑھا، حامد کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر سوچ میں ڈوب گئے۔ وہ بڑی الجھن میں تھے کہ لڑکا اسکول میں نیا ہے۔ اسے پرنسپل صاحب کے مزاج کا بالکل اندازہ نہیں، پتہ نہیں وہ اس خط کا کیا اثر لیں گے۔ پھر کچھ سوچ کر حامد سے کہا، ’’تم کلاس میں بیٹھو۔‘‘ اور خود خط لے کر پرنسپل صاحب کے پاس چلے گئے۔
وقفہ ختم ہوا۔ استاد جماعت میں آئے تو انہوں نے بتایا کہ پرنسپل صاحب نے جماعت کو نچلی منزل پر لے جانے کا آرڈر واپس لے لیا ہے۔ ان کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ پرنسپل صاحب خود جماعت میں آگئے۔ کچھ بچوں نے سوچا کہ اب حامد پر مصیبت آنے والی ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر ایک سوالیہ نشان تھا۔ پرنسپل صاحب نے وہ خط حامد کو واپس کیا۔ خود کرسی پر بیٹھ گئے اور حامد سے کہا، ’’تم خود یہ خط جماعت کے سامنے پڑھو تاکہ ان کو بھی معلوم ہو کہ تم نے کیا لکھا ہے۔‘‘
حامد نے خط پڑھنا شروع کیا:
محترم پرنسپل صاحب، السلام علیکم!
مَیں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری معذوری کو دیکھتے ہوئے آٹھویں جماعت کو نچلی منزل پر لے جانے کا حکم دیا ہے اور اس طرح مجھے زینے چڑھنے کی تکلیف سے بچانے کی کوشش کی۔ مَیں آپ کی اِس ہمدردی کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے لیکن آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ اپنے حکم پر نظرثانی کریں تو مجھ پر احسان ہوگا۔
میں نہیں چاہتا کہ میری یہ معذوری مجھے عام لوگوں سے الگ کر دے۔ میں اپنی کمزوری کے ساتھ جینا چاہتا ہوں، بالکل ان لوگوں کی طرح جو بیساکھیوں کے محتاج نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بیساکھیاں زندگی بھر میرا ساتھ نہیں چھوڑیں گی اس لئے میں نے انہیں اپنے جسم کا حصہ سمجھ لیا ہے۔ میں بڑے ادب کے ساتھ آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی مجھے اس احساس کے بوجھ سے آزاد کر دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب مجھے ان کے ساتھ رہنے کی عادت پڑ جائے گی۔ مہربانی فرما کر مجھ پر رحم کھانے کے بجائے میری ہمت بڑھایئے تاکہ میں اس کمزوری کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکوں۔ میں نے یہ خط لکھنے کی جسارت کی ہے، اس کی معافی چاہتا ہوں۔
آپ کا شاگرد، حامد
جماعت: ہشتم ب
حامد خط ختم کر چکا تو پرنسپل صاحب کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے لئے وہ یہ بھول گئے کہ وہ پرنسپل ہیں۔ انہوں نے تالی بجا کر حامد کی ستائش کی۔ اسی لمحے بے ساختہ استاد کے ہاتھ بھی تالی بجانے کے لئے حرکت میں آگئے اور ساتھ ہی پوری جماعت تالیوں کے شور سے گونج اٹھی۔ پرنسپل صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں کہا، ’’حامد! میں تمہارے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں۔‘‘ کلاس ٹیچر بھی آبدیدہ ہوگئے۔ پرنسپل صاحب نے فرمایا، ’’آٹھویں کلاس کے اِس طالب علم کے بلند حوصلے سے میں بہت خوش ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بچہ بہت ترقی کرے گا۔‘‘ انہوں نے حامد کے سَر پر ہاتھ پھیرا، دعائیں دیں اور جماعت سے رخصت ہوگئے۔
دوسرے دن سے حامد جب بھی بیساکھیوں کے سہارے اوپر چڑھتا یا نیچے اترتا طلبہ اس کے لئے راستہ بنا دیتے تاکہ کسی کا دھکا وغیرہ لگنے سے وہ گِر نہ پڑے۔ حامد اس طرح ہمت اور حوصلے سے ترقی کرتا رہا اور ایک بہت مشہور ڈاکٹر بن گیا۔ وہ اپنی مصنوعی ٹانگ بنوانے کیلئے فرانس گیا جہاں اسے مصنوعی ٹانگ لگا دی گئی اور وہ عام لوگوں کی طرح چلنے لگا۔ اس نے مصنوعی ٹانگیں بنانے میں بڑی مہارت حاصل کی۔ ملک کے مشہور ڈاکٹروں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ زندگی بھر معذوروں کی خدمت کرتا رہے گا۔