اور تہذیب کا کوئی ادارہ محض فرد کی کاوش کا مرہون منت نہیں ہے، اس میں قوم کی زندگی کا دل دھڑکنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: July 27, 2025, 12:10 PM IST | Syed Ehtisham Husain | Mumbai
اور تہذیب کا کوئی ادارہ محض فرد کی کاوش کا مرہون منت نہیں ہے، اس میں قوم کی زندگی کا دل دھڑکنا چاہئے۔
ادب کو تہذیبی زندگی سے متعلق کرنے کے سلسلہ میں جو اصل دشواری پیش آتی ہے اور جس کا اظہاربہت سے لوگ کھل کر نہیں کر سکتے، یہ ہے کہ عام طور پر ادب کو محض فرد کی خیال آرائیوں اور شخصی تصورات کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں آرٹ میں انفرادیت کی بحث کے علاوہ فرد اور جماعت کے تعلق کی بحث بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ادیب کی انفرادی خواہشات اور خیالات کو کسی قوم یا ملک کے مجموعی تہذیبی تصوارت کا جز کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ادبیات کا بڑا حصہ افراد کی کاوش فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اور اعلیٰ درجہ کی تخلیق میں ادیب اور فن کار کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے لیکن جس بات کو نظرانداز کر دینے سے یہ مسئلہ الجھن پیدا کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ بہت سے نقاد اور مفکر فرد اور جماعت میں کشمکش کو لازمی چیز تسلیم کرتے ہیں۔
چنانچہ تحلیل نفسی کی عمارت کا بڑا حصہ اسی مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان سماج کے ساتھ مجبوراً تعاون کرتا ہے، ورنہ اس کی انفرادیت تو سماج سے بالکل الگ ہی رہنا چاہتی ہے۔ یہی خیال دوسری الجھنوں تک لے جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک طرف تو انسانی فطرت کو بعض جبلتّوں کا مجموعہ قرار دے دیا جاتا ہے جو بدل نہیں سکتیں اور دوسری طرف یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی سماجی نظام میں افراد کو بہ حیثیت فرد کے مسرت حاصل کرنے اور اپنی جائز خواہشات پوری کرنے کا موقع مل ہی نہیں سکتا۔ یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو انسانی فطرت غیرتغیرپزیر ہے اور نہ سماج فرد کا دشمن ہے، اس لئے وہ ادیب جو اپنی انفرادیت کو سماج کے عام مفاد سے الگ لے جاکر اپنی خواہشات اور اپنے افکار کو لوگوں پر لادنا چاہتا ہے، وہ گویا تہذیب کی ان اقدار کی مخالفت کرتا ہے جنہیں انسانوں کی عام جدوجہد نے صدیوں کی صبر آزما گھڑیوں کے بعد جنم دیا ہے اور اسے انسان کے مستقبل پر بھروسہ نہیں ہے بلکہ وہ اس اندھی جبلت کا وکیل ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ ان عقائد کے ساتھ کوئی ادیب انسانوں کے تہذیبی ارتقاء کا قائل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کے یہاں ادب اور تہذیب کے تعلق کی جستجو فضول ہوگی کیونکہ اس کی وہ انفرادیت جو سماجی زندگی سے صرف اپنی یا اپنے چند ہم خیالوں کی بات منوانے کے لئے برسرپیکار ہے، عام تہذیبی زندگی کا جز کبھی نہ بن سکےگی۔ اچھا ادیب اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی اپنی ادبی جدوجہد کو سماج کے عام مفاد کے کام میں لاتا ہے اور اپنے خیالات کے پردے میں اجتماعی خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ادب ایک تہذیبی عمل ہے اور تہذیب کا کوئی ادارہ محض فرد کی کاوش کا مرہون منت نہیں ہے۔ اس میں قوم کی زندگی کا دل دھڑکنا چاہئے۔
قدیم ادبیات میں اخلاق، انسان دوستی، محبت اور فن کے مخصوص تصورات تھے جو اچھی تصانیف کی قیمت متعین کرنے میں مدد دیتے تھے، وہ تصورات اس زمانے کی معاشی، اقتصادی اور معاشرتی زندگی سے ہم آہنگ تھے اور انہیں اسی نظام نے پیدا کیا تھا جس کی بنیاد زراعتی پیداوار، اس کے پیدا کرنے کے طریقوں اور اس پر قبضہ رکھنے کی صورتوں پر تھی لیکن مختلف اسباب اور ارتقائی و انقلابی اثرات کی وجہ سے انسان کا علم، ذہن، انداز نظر اور تہذیبی تصورات کے متعلق اس کا نقطۂ نظر بدلا۔ تبدیلی کا یہی مفہوم ہے کہ مادی حالات کے بدل جانے سے انسان کا شعور بھی بدلتا ہے، اب جو قدریں پیدا ہوں گی ان میں نیاپن ہوگا، وسعت ہوگی، انسان کی طاقت پر بھروسہ ہوگا اور فطرت کے متعلق خیالات بدلے ہوئے ہونگے لیکن اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ محبت کی جگہ نفرت، اخلاق کی جگہ بداخلاقی یا انسان دوستی کی جگہ انسان دشمنی پیدا ہو گئی۔
کیا ادب خارجی زندگی کے بدلنے میں مدد دیئے بغیر محض داخلی کیفیات کی تبدیلی سے تہذیبی خدمت انجام دے سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب پر اس بات کا انحصار ہے کہ ادب کس طرح قومی زندگی کے بدلنے اور اسے مالا مال کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟ یہ دور جدید کا اہم ترین فلسفیانہ مبحث ہے کہ انسانی شعور مادی حالات کا عکس ہے یا مادی حالات انسان کے ذہن کی پیداوار ہیں اور یہ تصور پرست فلسفہ بھیس بدل بدل کر انسان کو بھٹکا رہا ہے کہ انسانی ذہن تغیر کا سب سے بڑا آلہ ہے لیکن جس نے بھی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور فلسفیانہ افکار کی تاریخ پڑھی ہے، اسے یقین ہو جائےگا کہ گو انسان ہی اپنی ضرورت یا ضرورت کے احساس کے ماتحت مادی تغیر پیدا کرتا ہے لیکن اسی مادی تغیر کے ذریعہ اس کا شعور بدلتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ضمیر میں انقلاب آ جائے اور دنیا کا نقشہ بدل جائے۔ ذرائع پیداوار میں تغیر انسان کے عمل کی راہیں بدلتا اور اس کے غوروفکر کے طریقے متعین کرتا ہے، اس پر فلسفیانہ انداز میں بھی بحث کی جا سکتی ہے، تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو زیادہ آسانی سے ذہن نشین کرائےگا۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں فکر اور شعور کی اہمیت کا انکار مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی پیدائش اور طریق عمل کا سوال ہے اور جس حیثیت سے بھی دیکھا جائے، یہ معلوم ہوگا کہ انسانی شعور عام معاشی و معاشرتی تغیرات کی رو میں بدلتا اور نئی راہوں پر گامزن ہوتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو ادب کا کام بھی یہی رہ جاتا ہے کہ وہ انسانی شعور کو وسیع تر کرے لیکن یہ نہ بھول جائے کہ انسانی شعور خارجی حالات کے بدلنے سے بدلتا ہے، کسی مصنف کے کہہ دینے یا کسی فن کار کے ظاہر کر دینے سے نہیں بدلتا، یوں ادب تہذیب کی بقاء اور ارتقاء میں شریک ہو جاتا ہے۔
ہمیشہ سے زیادہ اس وقت ادب اور ادیب آزمائش میں مبتلا ہیں کیونکہ جنگ کے خطرات کی وجہ سے تہذیب کی بقاء خطرے میں ہے۔ غیرمعمولی مادی ارتقاء کی وجہ سے یہ زمانہ غیرمعمولی امکانات کا حامل ہے۔ کہیں یہ مادی ارتقاء انسان دوستی، امن اور انسانی بہبودی کے کام لایا جا رہا ہے اور کہیں اس کے برعکس طبقاتی مفاد کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ادیبوں کو اپنی راہ منتخب کرنا اور قومی زندگی کے ان تہذیبی عناصر کو ابھارنا ہے جو تہذیب کو بچانے میں معاون ہوں گے۔ یہ فیصلہ ان حقائق کی روشنی میں کرنا ہوگا جو تاریخ فراہم کرتی ہے اور جس سے منھ موڑکر ادیب محض کھوکھلی انفرادی خواہشات کا ترجمان بن کر رہ جائےگا اور اس کے الفاظ ان کروڑوں سینوں میں دھڑکن پیدا نہ کر سکیں گے جو امن اور ارتقا، بقائے انسانی اور بقائے تہذیب کیلئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے ادب قومی رہتے ہوئے بھی انسانی تہذیب کا جز بن جاتا ہے اور ہر اعلیٰ ادبی کارنامہ تہذیب عالم کے خزانے میں جگہ پاتا ہے۔
(ذوق ادب اور شعور میں شامل مضمون سے)