Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی جے جے کار، مخالفین کی بھی مجبوری بن گئی

Updated: July 27, 2025, 12:31 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

عظیم مفکر، رہنما اور قائد ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنی مشہور کتاب ’اینی ہلیشن آف کاسٹ‘ میں واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ ذات پات ایک ایسا سماجی ناسور ہےجس سے نہ صرف انسانیت کی توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ملک میں جمہوریت کی روح کے بھی خلاف ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

گزشتہ صدی کی قدآور شخصیتوں کا تصور کریں تو ایک پوری کہکشاں نظر آتی ہے۔ اگر حالات پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے گنتی کے چند شخصیات کا انتخاب کیا جائے تو اُن میں ڈاکٹر امبیڈکر یقیناً شامل ہوں گے۔ موت کے۶۸؍ برس بعد بھی ان کا نام ’جے بھیم‘ کے نعروں میں گونجتا ہے۔ لیفٹ، رائٹ اور سینٹر سب پر انھوں نے کھل کر تنقید کی لیکن تینوں کے پاس آج اُن سے عقیدت جتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ بابا صاحب کی جئے جئے کار کرنا، اُن سے شدید نفرت کرنے والوں کی بھی مجبوری بنی ہوئی ہے۔ 
ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر(۱۹۵۶۔ ۱۸۹۱ء) اُس وقت کے ایک اچھوت خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ آدم کے کسی بھی بیٹی یا بیٹے کیلئے ’اچھوت‘ ہونا یا کہلایا جانا دراصل انسانیت کی تذلیل ہے۔ امبیڈ کر نے کروڑوں انسانوں کو اس ذلت سے نجات اور برابری کا مقام دلانے کیلئے ساری زندگی جدوجہد کی۔ ۱۹۳۶ ءمیں پنجاب کی ایک تنظیم ’جات پات توڑک منڈل‘ نے امبیڈکر کو اپنے اجلاسِ عام کی صدارت کیلئے مدعو کیا اور خطبہ صدارت پیشگی طور پر ارسال کرنے کی گزارش کی۔ منتظمین اُس کے انقلابی مندرجات سے اتفاق نہیں کر سکے لہٰذا اس جلسے میں یہ تقریر ادا نہیں ہوئی۔ ’اینی ہلیشن آف کاسٹ‘ (ذات پات کا قلع قمع) کے عنوان سے امبیڈکر نے اسے کتابی شکل میں شائع کیا جو ہندوستانی سماجی انصاف کی جدوجہد کا سنگِ میل بن گئی۔ ہندوستان میں سماجی نابرابری کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوئی بھی کوشش اس کتاب کے بغیر ناممکن ہے۔ 
امبیڈکر کا مقدمہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہے: ذات پات کا نظام محض ایک سماجی درجہ بندی نہیں بلکہ ایک اخلاقی گناہ ہے۔ امبیڈکر کے نزدیک، ذات پات ایک ایسا جال ہے جس میں طبقات کی کمتری اور برتری کا تصور موجود ہے۔ یہ تفریق نہ صرف معاشرتی بلکہ مذہبی طور پر بھی مقدس سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر ذات پات کو ایک ایسا سماجی ناسور قرار دیتے ہیں جو نہ صرف انسانیت کی توہین ہے بلکہ ملک میں جمہوریت کی روح کے بھی خلاف ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس نظام نے کروڑوں انسانوں کو محض پیدائش کی بنیاد پر ’اُونچا‘ یا’نیچا‘ بنا دیا ہے، جو سراسر ظلم ہے۔ 
امبیڈکر کھلے عام ہندو مذہبی کتابوں کی اخلاقی حیثیت کو رد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب تک شاستروں کو چیلنج نہیں کیا جاتا، ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ امبیڈکر نے اپنی تقریر میں یہ نکتہ واضح کیا کہ ذات پات کا یہ نظام صرف سماجی روایت نہیں بلکہ دھرم شاستروں جیسے منو سمرتی اور ویدوں کی پشت پناہی سے چل رہا ہے۔ ان کتابوں میں طبقاتی تفریق کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے بلکہ اُسے ایک الٰہی نظام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ 
وہ آریہ سماج اور دوسرے اصلاحی گروہوں پر بھی تنقید کرتے ہیں جو ذات پات کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑے بغیر اس میں ریفارم چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک، یہ اصلاحات سطحی اور ناکافی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف بالکل واضح تھا کہ ہندو معاشرے کو صرف معمولی اصلاحات سے بدلا نہیں جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک مذہب کے بنیادی نظریات پر چوٹ نہیں لگائی جائے گی، اس وقت تک ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ 
ڈاکٹر امبیڈکر نے مہاتما گاندھی کے ساتھ نظریاتی اختلافات کا اظہار کیا۔ گاندھی جی چھوا چھوت کے خلاف تو تھے لیکن وہ ورنا وِیَوَستھا کے قائل تھے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ورنا ویوستھا دراصل محنت اور مختلف پیشوں اور تقسیم کار کی بنیاد پر سماج کوچار طبقوں میں درجہ بند کرنے کا ایک قدیم نظام ہے لیکن ایک ورن سے دوسرے ورن میں منتقل نہ ہوسکنے کی آزادی پر دھرم شاستروں کا قدغن لگا ہے۔ امبیڈکر نے ورن ویویستھا اور ذات کے باہمی تعلق کو کھول کھول کر بیان کیا۔ یہ روایتی ہندو فکر پر ایک کاری ضرب تھی۔ 
ذات پات کا نظام محض محنت کی تقسیم نہیں بلکہ محنت کشوں کی تقسیم ہے۔ یہ فرق امبیڈکر کی فکر کا جوہر ہے۔ اس مسئلے کو وہ، کارل مارکس کے مقابل ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک معاشی استحصال سے پہلے ذہنی اور مذہبی استحصال کو چیلنج کرنا ضروری ہے۔ اُنہوں نے دلتوں، مظلوموں اور پسے ہوئے طبقات کو پیغام دیا کہ وہ تعلیم حاصل کریں، منظم ہوں، اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔ 
امبیڈکر کے مطابق سماجی اصلاح کے بغیر سیاسی اصلاح ایک فریب ہے۔ وہ کانگریس پارٹی پر تنقید کرتے ہیں کہ اس نے آزادی کے نام پر برہمنوں کو اقتدار تھمانے کا سامان کیا۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر ذات پات کے ڈھانچے کو چیلنج نہ کیا گیا تو جمہوریت صرف عددی اکثریت کے ظلم کا دوسرا نام بن جائے گی۔ وہ سیاسی جمہوریت سے پہلے سماجی جمہوریت کو لازم سمجھتے تھے، جو آزادی، مساوات اور اخوت پر مبنی ہو۔ انہوں نے اپنی فکر کو بعد میں بدھ مت کے فلسفے سے جوڑا، جس میں مساوات، کرما اور عقل کی تلقین کی گئی ہے۔ اُنہوں نے بدھ دھرم کو ذات پات کے خلاف ایک روحانی ہتھیار کے طور پر اختیار کیا۔ 
امبیڈکر نے مکمل اخلاص اور پوری طاقت سے اس جگہ ضرب لگائی جہاں لگائی جانی چاہئے تھی۔ اپنے لوگوں کو بھی واضح راہ دکھائی۔ ۱۹۳۶ء میں وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ شاستروں کا مکمل انکار کرکے ہندو دھرم ترک کرنا ہی بنیادی حل ہے۔ اس حل پر عمل انھوں نے ۱۹۵۶ء میں کیا۔ لاکھوں دلتوں کے ساتھ ہندو دھرم ترک کرکے بدھ مت اختیار کرلیا۔ 
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ ایک ایسا انقلابی واقعہ ثابت ہوتا جو ملک سے ذات پات کو اس طرح تہ و بالا کردیتا جیسا کہ امبیڈکر کا خیال تھا۔ کیا ایسا ہوا ؟ باباصاحب کی عظمت اور اُن کی تحریک کے دلی قدردان ہونے کے باوجود اس مبصر کو جومنظر دکھائی دیتا ہے وہ کسی قدر مایوس کن ہے۔ آئینی تحفظات اور قانونی اقدامات کے باوجود اونچ نیچ اور ذات کی سوچ ذہنوں میں پیوستہ ہے۔ 
شیڈولڈ کاسٹ کا بڑا طبقہ باباصاحب کے ساتھ نو بودھ ہوا لیکن بہت سی ذاتیں آبائی دھرم میں اپنی پست حیثیت کے ساتھ باقی رہیں۔ آج ان کا موازنہ ضروری ہے۔ دونوں کو ریزرویشن کا زبردست فائدہ ملا۔ اس سے معاشی خوشحالی ضرور آئی۔ اعلیٰ عہدوں پر جو لوگ پہنچے انہیں تھوڑی بہت عزت و توقیر بھی حاصل ہو جاتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان لوگوں کو آئینی تحفظات کے باوجود کیا وہ سماجی برابری حاصل ہوئی جس کی اُمید بدھ مت اختیار کرتے وقت بابا صاحب کو تھی؟ راقم الحروف نے بحرِ تفکر میں غوطہ زنی کی۔ ساحل پر پہنچ کر سانسوں کو درست کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا نہیں ہوا۔ 
ہندوستان میں پہلے سے ایسی کوئی بدھسٹ کمیونٹی موجود نہیں تھی جس کی اپنی کوئی اعلیٰ سماجی حیثیت ہو اور جو اُن لاکھوں لوگوں کو اپنے اندر جذب کر اُن کی حیثیت کو رفعت بخشتی۔ پھر تہذیبی اعتبار سے اِن دلتوں کے رہن سہن، ظاہری شناخت اور رسوم ورواج میں ایک نظر آنے والا انقلاب ضروری تھا جو منو وادی برہمنیت کو صبح و شام سوچنے پر مجبور کرتا۔ مذہب ترک کردیا لیکن تہذیبی اعتبار سے ہندو معاشرے کا ایک ضمیمہ بن کر رہنے سے وہ عزت احترام کیسے حاصل ہوگا۔ یہ مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ۱۹۵۰ء کے دہائی میں جو دلت عیسائی ہوئے، اُن کی موجودہ نسلوں کا سماجی رتبہ کیا ہے۔ کچھ جن کو ہم نے دیکھا، اپنے ہم مذہب مسیحیوں کے ساتھ شیر و شکر نظر آئے۔ 
امبیڈکر کے بعد، دلت تحریک کئی بارمنظم ہوئی اور منتشر بھی۔ امبیڈکروادیوں کا ایک طبقہ نظریاتی جنگ میں آج بھی مصروف ہے۔ طلبہ تحریکوں، پروفیسروں اور سماجی کارکنوں کی شکل میں یہ لوگ اکیڈمک بحث مباحثوں اور احتجاجی مظاہروں میں مشغول رہتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کئی دھڑوں اور مختلف ناموں سے موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ مہاراشٹر میں کبھی دلت پنتھرس نے ہلچل مچائی تھی۔ کیڈر پر مبنی تنظیم بام سیف نے بی ایس پی کو جنم دیا تھا۔ کانشی رام نے ایک جوڑی بش شرٹ پینٹ کے ساتھ پورے ملک کی خاک چھانی۔ کچھ عرصے تک بی ایس پی نے حیرتناک سیاسی کمالات دکھائے لیکن آج خاتمے کے قریب ہے۔ آج مختلف ناموں سے کئی امبیڈکروادی پارٹیاں براہ راست یا بلواسطہ اُنھیں لوگوں کی آلہ کار بنی ہوئیں ہیں جن کی بالا دستی کو باباصاحب نے جھٹلایا تھا۔ امبیڈکر خانوادے کے داماد اور دلت مفکر آنند تیل تومبڑے نے حال ہی میں آئکونوکلاسٹ یعنی بُت شکن کے عنوان سے باباصاحب کی ایک فکر انگیز سوانح شائع کی ہے۔ افسوس کہ اسی بُت شکن کو آج ’پرم پوجیہ‘ بنا دیا گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK