ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف نتیش کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ ان کے اتحادیوں نے بھی اب ان پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ریاست میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے قتل نے اتحاد کی شبیہ کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور اب جنگل راج کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی ہے۔
یہ شاید پہلا موقع ہے جب نتیش کمار کے اتحاد ی ہی اب ان پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔
چند دن قبل بہار میں این ڈی اے کی بڑی اتحادی ’راشٹریہ لوک جنتا دل‘ کے لیڈر اوپیندر کشواہا نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو مشورہ دیا ہے کہ اب انہیں ’جے ڈی یو‘ کی باگ ڈور چھوڑ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور پارٹی دونوں کی باگ ڈور زیادہ عرصے تک اپنے ہاتھ میں رکھنا ان کیلئے مناسب نہیں ہوگا۔ اگرچہ کشواہا نے واضح طور پر نتیش کے بیٹے نشانت کمار کا نام ان کے جانشین کے طور پر نہیں لیا، لیکن انہوں نے انہیں ’نئی امید‘ کے طور پر ضرور بیان کیا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نتیش این ڈی اے سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے، بی جے پی لیڈروں کی طرح وہ بھی اس سوال سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم ان کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ این ڈی اے نتیش کی قیادت میں الیکشن لڑے گی۔ این ڈی اے کی ایک اور اتحادی لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ انتخابات میں این ڈی اے کی قیادت ایک مضبوط لیڈر کے ہاتھ میں ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نتیش کی قیادت کو لے کر این ڈی اے کے اتحادیوں میں بے چینی ہے۔ زمینی رپورٹس اور سروے بھی بتا رہے ہیں کہ نتیش کی مقبولیت میں تیزی کے ساتھ کمی آ رہی ہے۔ تو اس کا یہ مطلب نکالا جائے کہ بہار میں این ڈی اے آہستہ آہستہ اپنی بنیاد کھو رہی ہے اور اس کے مقابل عظیم اتحاد کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے؟
’انڈیا‘ اتحاد کا’بھارت بند‘ بھلے ہی کئی ریاستوں میں زیادہ کامیاب نہ ہوا ہو، لیکن اس کا اثر بہار میں زیادہ نظر آیا۔ ’بہار بند‘ اور’چکا جام‘ فوراً بڑے احتجاج میں تبدیل ہو گئے تھے۔ سڑکیں بلاک کردی گئی تھیں اور جگہ جگہ پر ٹائر جلا کر مظاہرے بھی کئے گئے تھے۔ حکومت کی لیبر پالیسی کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج ایک موثر سیاسی آلہ بن گیا۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی قیادت میں عظیم اتحاد نے انتخابی شفافیت اور ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی کے معاملے پر شدید حملے کئے ہیں۔ چونکہ کانگریس اور آر جے ڈی کارکن سڑکوں پر تھے، اسلئے بہار بند موثر رہا۔ بہار میں ۲۰۲۰ءکے اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کے حکومت بنالینے کے باوجودہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ووٹ شیئر اور سیٹوں دونوں کے لحاظ سے عظیم اتحاد اس سے بس تھوڑا ہی پیچھے تھا۔
این ڈی اے کے دونوں شراکت دار، بی جے پی اور جے ڈی یو کے پاس ایک مضبوط تنظیمی نیٹ ورک ہے۔ وہ اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں اور غیر یادو او بی سی ووٹوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس اتحاد میں خواتین کا بھی گہرا دخل ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کو۳۵؍ فیصد ریزرویشن دینے کے نتیش کمار کے اعلان نے اس حمایت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے باقاعدہ بجلی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر، شراب بندی اور سماجی بہبود کی اسکیموں کی بنیاد پر، این ڈی اے خود کو حکومت کیلئے ایک موزوں اتحاد کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاستی سطح پر اس اتحاد میں قیادت کا بحران ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف نتیش کمار کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ ان کے اتحادیوں نے بھی اب ان پر سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ریاست میں امن و امان خراب ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونےوالے قتل نے اتحاد کی شبیہ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ این ڈی اے کے اتحادیوں کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگرچہ انہوں نے۲۰۲۰ء کے انتخابات کے بعد حکومت بنائی ہے، لیکن یہ بہت کم ووٹوں کے فرق سے ممکن ہوا۔ ایک غلطی بھی ان کےراستے میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
دوسری طرف، عظیم اتحاد میں شامل آر جے ڈی اور کانگریس اقلیت اور او بی سی، خاص طور پر مسلم اور یادو ووٹ بینک پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تیجسوی یادو تیزی سے اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے ایک مقبول امیدوار کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور ملازمت کیلئے ہجرت جیسے بنیادی مسائل پر ان کی اپیل غریب طبقے پر موثر اثر ڈالتی نظر آتی ہے۔ پھر بھی، اگر مہاگٹھ بندھن کے اتحادیوں کے درمیان سیٹوں پر کوئی سمجھوتہ ہو بھی جائے، تب بھی اس شراکت داری کی طاقت غیر متوازن اور بکھری ہوئی رہے گی۔ اس اتحاد میں کانگریس کو ایک کمزور کڑی کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی موجودہ انتخابی حیثیت سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پچھلے الیکشن میں وہ۷۰؍ میں سے صرف۱۹؍ سیٹیں جیت سکی تھی۔ آر جے ڈی کو لالو پرساد یادو کے دور حکومت میں بہار پر’جنگل راج‘ کا کلنک اٹھانا ہے۔ خاص طور پر بوڑھے ووٹروں کے ذہنوں میں پرانی تصویر ابھی تک مدھم نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس تصویر کشی میں میڈیا کا بڑا دخل ہے۔
پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی بہار میں بھلے ہی ایک بڑی پارٹی کے طور پر اپنی جگہ نہ بنا سکی ہو، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے خاص طور پر نوجوان اور شہری ووٹروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ پرشانت کشور کی صاف ستھری شبیہ، ذات پات کی سیاست سے دوری اور ’گورننس سب سے پہلے‘ کی پالیسی پر زور ان کی پارٹی کو اس الیکشن میں ایک نئی شروعات دے رہا ہے۔ انتخابات میں صرف تین ماہ باقی ہیں اسلئے ہر جماعت، ہر اتحاد اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کیلئے تیار ہے۔ اب تو یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس بار بازی کس کے ہاتھ لگتی ہے۔