ایک قصبے میں دو دست فاروق اور کمال رہتے تھے۔ دونوں ہی بہت سست اور کاہل تھے۔ سب انہیں نکھٹو کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے۔ سارا سارا دن پڑے سوتے رہتے تھے۔
EPAPER
Updated: April 13, 2024, 1:44 PM IST | Waniya Shah | Mumbai
ایک قصبے میں دو دست فاروق اور کمال رہتے تھے۔ دونوں ہی بہت سست اور کاہل تھے۔ سب انہیں نکھٹو کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے۔ سارا سارا دن پڑے سوتے رہتے تھے۔
ایک قصبے میں دو دست فاروق اور کمال رہتے تھے۔ دونوں ہی بہت سست اور کاہل تھے۔ سب انہیں نکھٹو کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے۔ سارا سارا دن پڑے سوتے رہتے تھے۔ ایک دن جب کھانے کو کچھ نہ ملا تو فاروق نے کہا کہ، ’’ہمیں شہر جاکر کوئی کام کرنا چاہئے ورنہ غربت کے ہاتھوں بھوکے مرجائیں گے‘‘
کمال نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ جب اہل محلہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ خوب ہنسے۔ یہ کاہل یہاں کچھ نہ کرسکے تو شہر جاکر کیا کام کریں گے۔ دونوں نے ان کی باتوں کو نظر انداز کیا اور دوسرے دن شہر کے لئے روانہ ہوگئے۔ پیسے تو ان کے پاس تھے نہیں، لہٰذا پیدل ہی چلنا شروع کیا اور جنگل کے راستے کو منتخب کیا تاکہ راستہ مختصر ہوسکے۔ ابھی وہ وہاں سے گزر ہی رہے تھے کہ انہیں ایک تھیلی نظر آئی۔ انہوں نے اسے اٹھا کر کھولا تو حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے کیونکہ اس میں سونے کے سکے تھے۔
فاروق نے تجویز دی کہ ’’ہم انہیں بیچ کر کوئی کاروبار کریں گے اور خوب دولت کمائیں گے۔‘‘ کمال کسی سوچ میں غرق تھا پھر اچانک تھیلی دبوچ کر بولا.… یہ تھیلی میری ہے، مجھے ملی ہے۔ میں اپنی بقیہ زندگی آرام سے گزاروں گا اور خوشی سے ناچنے لگا۔ ارے میں تو امیر ہوگیا، بھئی امیر ہوگیا۔ ’’کمال تم ایسا مت کہو، ہم امیر ہوگئے ہیں۔‘‘ فاروق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ’’نہیں… نہیں تم اس کے حصہ دار نہیں، یہ تھیلی میری ہے۔‘‘ یہ سن کر فاروق خاموش ہوگیا، اس نے محسوس کرلیا تھا کہ دولت ملتے ہی اس کا گہرا، جگری دوست بدل گیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خود غرضی اس نے پڑھ لی تھی۔ کمال نے فاروق کو پیچھے چھوڑا اور خود تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ ڈاکوؤں نے اسے گھیر لیا اور دونوں کو پکڑ کر درختوں کے ساتھ رسیوں سے باندھ دیا اور سونے کے سکّے ملنے پر خوب خوش ہوئے۔
کمال نے کہا ’’مجھے چھوڑ دو، تم نے مال تو لے ہی لیا ہے، اب ہمیں جانے دو۔‘‘ ڈاکوؤں نے کہا، ’’ایسے کیسا ہوسکتا ہے کہ تمہیں چھوڑ دیں۔ اب تو تم گئے جان سے گئے، صبح تمہیں مار دیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سونے چلے گئے۔ کمال نے کہا بھائی! ہم تو برے پھنسے، تم ہی کچھ کرو میرے دوست ورنہ صبح ہم مار دیئے جائیں گے۔
فاروق نے کہا، ’’تم تو بڑے خود غرض اور ہوشیار بن رہے تھے۔ جب تھیلی ملی تو صرف تمہاری تھی، تم امیر ہوگئے تھے، فائدہ ہوا تو صرف تمہارا اور نقصان ہوا تو ہم دونوں کا… یہ کیسی دوستی ہے؟ آج سے تم میرے دوست نہیں۔‘‘ اتفاق سے ایک ڈاکو پانی پینے کے لئے اٹھا تو اس نے ان دونوں کی ساری باتیں سن لیں۔ اسے فاروق پر ترس آیا اور اس نے چپکے سے اس کے ہاتھ، پاؤں میں بندھی رسیاں کھول دیں اور بھاگ جانے کو کہا۔ کمال نے گڑگڑایا اس سے اپنے ہاتھ، پاؤں کھولنے کو کہا مگر ڈاکو نے ایک زور دار ہاتھ اس کے منہ پر جڑ دیا اور کہا، ’’بے شک ہم ڈاکو ہیں، لوگوں کو لوٹتے ہیں مگر ہم میں ایکتا نہ ہو تو سب پکڑے جائیں۔ ہم مرتے دم تک دوستی نبھاتے ہیں۔ تمہارے سزا یہی ہے کہ صبح تمہیں قتل کردیا جائے۔ یہ کہہ کر وہ واپس سونے چلا گیا اور فاروق وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا کہ ’’جان بچی تو لاکھوں پائیں۔‘‘
پیارے بچو! اچھا دوست بھی اللہ کی نعمت ہے۔ دوستی ہمیشہ پُر خلوص اور بے غرض ہونی چاہئے۔ وقت پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں، یہ نہیں کہ مصیبت میں اپنے دوست کو اکیلا چھوڑ دیں۔