ایسی کہانی جس میں نادانی میں کہا جھوٹ سچ ثابت ہوجاتا ہے۔
EPAPER
Updated: August 02, 2025, 1:43 PM IST | Jilani Bano | Mumbai
ایسی کہانی جس میں نادانی میں کہا جھوٹ سچ ثابت ہوجاتا ہے۔
یہ میرے بچپن کی بات ہے۔ ابّا ہمیں.... یعنی مجھے اور جمال کو بچّوں کی ایک رنگین فلم ’پل اینڈکو‘ دکھانے لے گئے تھے۔ جب ہم بس میں سوار ہوئے تو ہماری نظر میں ایک لڑکی پر جم گئیں جو ہماری ہی عمر کی ہوگی۔ وہ بے حد خوبصورت فراک پہنے ہوئے تھی اور اس کے ہاتھ میں تین رنگین غبارے تھے۔ بس میں کافی رش تھا۔ مگر غباروں کی کشش مجھے اور جمال کو لڑکی تک لے گئی۔ اس کے قریب پہنچ کر بھی بظاہر تو ہم بس سے باہر دوڑتے ہوئے بازاروں کی سیر کرتے رہے لیکن جب تیز ہوا سے اُڑ اُڑ کر اس کے رنگین غبارے ہمارے گالوں سے ٹکراتے تھے تو ہم انہیں چھوئے بغیر بھی نہ رہ سکے۔
’’تم لوگی؟‘‘ اس نے میرے جواب کا انتظار کئے بغیر ایک غبارہ مجھے تھما دیا۔ پھر ایک جمال کو بھی دیا۔ ’’مجھے نہیں چاہئے۔‘‘ مَیں نے اس کا غبارہ لوٹانا چاہا۔ ’’نہیں، لے لو۔‘‘ اس کے لہجے میں شہنشاہوں کی سی سخاوت تھی، ’’میرے پاس تو ابھی دس غبارے اور ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد ہی ہمارے درمیان سخت دوستی نما دشمنی ہوگئی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں تھے۔ افوہ.... کیا بتاؤں کہ وہ کتنی شیخی باز لڑکی تھی۔ وہ اپنی ماں کے موتیوں کے ہار سے لے کر اپنے ڈیڈی کی موٹر سائیکل تک پر اترا رہی تھی۔ کہنے لگی، ’’میرے پاس سات نئی فراکیں رکھی ہیں۔‘‘ پھر کہا، ’’میری گڑیا کا چھوٹا سا تو بنگلہ بھی ہے۔ اسکے اندر سچ مچ لائٹ جلتی ہے۔‘‘
پھر بولی، ’’میرے گڈے کے پاس ایک موٹر ہے۔ ایک تانگہ بھی ہے۔ کبھی کبھی وہ گھوڑے کی سواری بھی کرتا ہے۔‘‘
اس کے جھوٹ پر میری جان جل گئی۔ جی چاہا کہ ابّا سے اس کی شکایت کر دوں۔ مگر وہ بس کے آخری کونے میں بیٹھے اپنے کسی دوست سے زور دار بحث کر رہے تھے اور ہماری موجودگی کو بالکل فراموش کر چکے تھے۔
’’ہا.... بچاری کے گڈے کے پاس صرف ایک موٹر ہے۔ وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہوگی۔‘‘ مَیں نے اُسے چڑانے کے لئے جمال سے کہا۔ ’’ہاہاہاہا....‘‘ جمال بھی جھوٹ موٹ ہنسنے لگا۔
’’ہمارے گڈے کے پاس تو نئی تین کاریں ہیں۔‘‘ میں نے نہایت شان سے گپ ہانکی۔
’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘ اس نے پلکیں جھپکا کرکے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔
’’بھَوت دور....‘‘ مَیں نے بہت کو خوب لمبا کرکے بتایا تاکہ وہ ہمارا جھوٹ دیکھنے کو کبھی وہاں جانے کا تصور بھی نہ کرسکے۔
’’اور باجی اپنی گڑیوں کا تو ایک ننھا سا باغ بھی ہے اس میں اتنے ننھے ننھے سے سیب، انار، انگور سب لگا کرتے ہیں۔‘‘ جمال نے آنکھ کے اشارے سے مجھے تائید کرنے کو کہا۔
’’اچھا تمہاری گڑیا کے پاس مسہری بھی ہے؟‘‘ وہ ہم سے بے حد مرعوب ہوگئی۔ ’’آں ہاں....‘‘ ہم دونوں نے ساتھ ساتھ اقرار کیا۔ ’’اُوں جھوٹ....‘‘ وہ منہ بنا کر بولی۔ پھر بڑی عورتوں کی طرح دیدے مٹکا کے کہا، ’’اور اگر یہ جھوٹ ہوا تو؟‘‘ ’’تو ہمارے کان کاٹ لینا بس....؟‘‘
’’سوشیلا چلو اُترو۔‘‘ بس رُکی تو اس کے ڈیڈی نے پکارا۔ اور اس نے ایک جھپٹا مار کے اپنے غبارے ہم سے چھین لئے۔ اب ہم دونوں نے جو مڑ کے دیکھا تو ابّا غائب تھے۔ وہ غالباً ہماری موجودگی کو فراموش کرکے اپنے اسٹاپ پر اُتر گئے تھے۔ جی دھک سے رہ گیا۔ اب کیا ہوگا؟ ہم دونوں ایک سُر ایک تال میں سسک سسک کر رونے لگے۔
بس کے مسافر ہمارے اردگرد اکٹھے ہوگئے۔ کسی نے پولیس اسٹیشن پہنچانے کا مشورہ دیا کہ ابّا ڈھونڈ لیں گے۔ چند مسافر جو ہماری شرارتوں پر خار کھائے بیٹھے تھے، اب رونے پر مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
آخر سوشیلا کے باپ کو ہمارے یوں کلیجہ پھاڑ کے رونے پر ترس آگیا۔ انہوں نے بس کنڈیکٹر سے کہا کہ وہ ہمیں گھر تک پہنچا دے گا۔
رکشا میں بیٹھنے سے پہلے انہوں نے ہم تینوں کو آئس کریم کھلائی تو کچھ حواس ٹھیک ہوئے مگر آئس کریم ختم ہوتے ہی جمال کے آنسو پھر بہنے لگے.... مزید آئس کریم کی اُمید میں۔
سوشیلا بہت خوش تھی۔ کہنے لگی، ’’ڈیڈی ہم جمال کے ہاں شام تک رہیں گے۔‘‘ پھر مجھ سے کہا، ’’کیا تمہاری گڑیا کے باغ میں چھوٹی چھوٹی نارنگیاں بھی لگتی ہیں؟‘‘
یہ سُن کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ مَیں نے سہم کر جمال کو دیکھا۔ ابّا کے کھو جانے کا غم تو بہت تھا، مگر اب رکشا میں سڑکوں پر تفریح کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔ سوشیلا کے ڈیڈی کے لاکھ پوچھنے پر بھی ہم نہ بتا سکے کہ ہمارا گھر کون سے محلے میں ہے۔ ہم دونوں چپکے بیٹھے رہے۔ سوشیلا کے سامنے اپنی ناک تھوڑی کٹانا تھی۔ میری تو فکر کے مارے جان نکلی جا رہی تھی کہ کہیں گھر مل گیا تو وہ گڑیا کا بنگلہ اور گڈے کی تین کاریں کہاں سے دکھائیں گے۔
اِدھر سوشیلا کا یہ عالم کہ جہاں کہیں کوئی خوبصورت بنگلہ نظر آتا اور وہ اپنے ڈیڈی سے تالیاں بجا کر کہتی، ’’ڈیڈی یہی ہے رضیہ کا گھر۔‘‘
اُس کے ڈیڈی پُر امید نظروں سے ہمیں دیکھتے اور ہمارے انکار پر آگے بڑھ جاتے۔ راستے میں جتنے پولیس اسٹیشن ملے وہاں اتر کے سوشیلا کے ڈیڈی ہمارے کھو جانے کی اطلاع دیتے گئے۔
پھر مجھے اچانک ایک بہت بڑے بنگلے کے سامنے ابّا کھڑے نظر آئے اور ہم دونوں خوشی کے مارے چلّانے لگے۔
رکشا رُک گیا۔ ابّا بھی ہمیں دیکھ کر دوڑے۔ ادھر سوشیلا کے ڈیڈی اور سوشیلا بھی رکشا سے اتر گئے۔ ہم دونوں نے آنکھیں مل مل کر دیکھا کہ وہ سچ مچ کے ابّا ہیں اور ہمیں چمٹا چمٹا کر پیار کر رہے ہیں، سوشیلا کے ڈیڈی کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔
’’مَیں تو صاحب کے پاس آیا تھا ایک دن کی چھٹی کی درخواست لے کر، تاکہ بچوں کو ڈھونڈنے نکل سکوں۔‘‘ ڈیڈی کہہ رہے تھے۔ ہم دونوں ابھی تک خوب زور زور سے رو رہے تھے۔ اور ڈر رہے تھے کہ سوشیلا جو اس گھر کو ہمارا گھر سمجھے ہوئے ہے کہیں اندر جانے کی فرمائش نہ کرے۔ مگر ابّا خود ہی سب کو اندر لے گئے۔
ایک نہایت آراستہ کمرے میں ایک موٹا ادھیڑ سا آدمی صوفے پر لیٹا سگار پی رہا تھا۔ اس نے اُٹھ کر ہم سب کا استقبال کیا۔ ہمارے مل جانے پر کچھ خوشی کا اظہار بھی ہوا۔ سوشیلا کی آنکھیں حیرت کے مارے چمک رہی تھیں۔ وہ کمرے میں رکھی ہوئی جاپانی گڑیاں، کانسے کے اسٹیچو اور شو کیس میں رکھی ہوئی جگمگاتی چیزوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ سوشیلا کے ڈیڈی خوب بڑھا چڑھا کر اپنی کارگزاری سنا رہے تھے کہ انہوں نے ہمیں کتنے روپے کی آئس کریم کھلائی اور کتنی دیر رکشا کی سیر کرائی۔ ابّا اور ان کے صاحب بار بار ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ پھر جب وہ جانے کے لئے اُٹھے تو سوشیلا اُن کی ٹانگوں میں جھول گئی اور کہنے لگی، ’’ڈیڈی یہاں گڑیا کا گھر ہے۔ ہمیں دکھایئے۔‘‘
’’پاگل کس نے کہہ دیا کہ یہاں گڑیا کا گھر ہے۔‘‘ اس کے ڈیڈی نے جھڑک دیا۔
میں اور جمال بے حد سہمے ہوئے ایک کونے میں کھڑے تھے۔
’’اچھا اچھا.... ایک گڑیا کا گھر ہے تو ہمارے ہاں۔‘‘ ابّا کے صاحب نے کہا اور پھر کمرے کا پردہ اُٹھا کر ہم تینوں سے بولے، ’’جایئے اندر جایئے۔‘‘ پھر جانے کسے آواز دی کہ ہمیں گڑیوں کا گھر دکھا دیں۔
ایک خوبصورت سی دبلی پتلی عورت کمرے میں آئی۔ اس نے بہت اچھا میک اَپ کیا تھا اور بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھی۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ ایک اور کمرے میں لے گئی۔
ہائے اللہ، کیا بتاؤں.... کسی لڑکی نے آج تک ایسا حسین خواب نہ دیکھا ہوگا جو ہم نے دیکھا۔ وہاں تو گڑیوں کا محل تھا۔ کہیں لان میں بچے گیند بلّا کھیل رہے ہیں اور کمرے میں بیٹھے ماں باپ تاش میں مصروف ہیں۔ اندر ریڈیو رکھا ہے۔ نوکر چائے کی ٹرے لئے جا رہے ہیں۔ گیرج میں سچ مچ تین کاریں کھڑی ہیں اور ایک ننھی سی پرام میں آیا ایک ننھے سے ببّوے کو لئے جا رہی ہے۔
ایک چیز ہو تو بیان کی جائے۔ یوں لگتا تھا، الہ دین کے چراغ والے جن نے کسی لڑکی پر مہربان ہو کر اس کی ہر خواہش پوری کر دی تھی۔
سوشیلا کے ڈیڈی کی آواز سن کر ہم سب چونکے تو وہ خوبصورت عورت کہہ رہی تھی، ’’سروج میوزک سیکھنے گئی ہے۔ ورنہ وہ خود تمہیں ہر چیز دکھاتی۔‘‘
جب ہم باہر آئے تو ہمارے دل وہیں اندر رہ گئے تھے اور ہم سوشیلا کی موجودگی کو بالکل بھلا چکے تھے۔ وہ باہر آتے ہی اپنے ڈیڈی سے لپٹ گئی اور ایک ایک چیز کی تفصیل سنانے لگی۔
پھر وہ سیڑھیاں اترنے سے پہلے مجھ سے بولی، ’’اب ہم تمہیں اپنے گھر نہیں بلائیں گے۔ میں نے جھوٹ کہا تھا۔ میرے پاس صرف یہی تین غبارے ہیں۔ یہ تم لے لو۔ مگر کل پھر مجھے اپنی گڑیوں کا باغ دکھانے ضرور بلانا....‘‘
زینے سے نیچے اُترتے ہوئے وہ اپنے ڈیڈی سے کہہ رہی تھی، ’’ڈیڈی یہ لوگ بہت امیر ہوں گے نا؟‘‘
اس واقعہ کو گزرے ہوئے برسوں بیت گئے ہیں۔ مگر آج تک مجھے اپنے اس جھوٹ پر حیرت ہوتی ہے جو سچ بننے پر تلا ہوا تھا۔