مگرمچھ زور سے ہنس پڑا۔ کہنے لگا، ’’خدا کا نام لو، اب تمہارا آخری وقت آگیا ہے۔ تمہاری بھابھی کی ضد ہے کہ تمہارا کلیجہ کھائے۔ اس کی خواہش پوری کرنے کے لئے مَیں نے یہ ڈھونگ رچایا ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: June 21, 2025, 1:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مگرمچھ زور سے ہنس پڑا۔ کہنے لگا، ’’خدا کا نام لو، اب تمہارا آخری وقت آگیا ہے۔ تمہاری بھابھی کی ضد ہے کہ تمہارا کلیجہ کھائے۔ اس کی خواہش پوری کرنے کے لئے مَیں نے یہ ڈھونگ رچایا ہے۔‘‘
ایک دریا کے کنارے جامن کا پیڑ تھا۔ اُس کے جامن بہت میٹھے تھے۔ اُسی پیڑ پر ایک بند رہتا تھا۔ ایک بار ایک مگرمچھ دریا سے نکل کر اس پیڑ کے نیچے آبیٹھا۔ بندر نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی بڑھیا سے بڑھیا جامن کھانے کو دیئے۔ مگرمچھ انہیں کھا کر بہت خوش ہوا۔ بس پھر تو وہ ہر روز وہاں آنے لگا اور بندر بھی اسے جامن کھلاتا رہا۔ اپنے کھانے سے جو جامن بچتے مگرمچھ اپنی بیوی کے لئے لے جاتا۔ وہ انہیں بڑے شوق سے کھاتی۔ اس طرح کئی دِن بیت گئے۔
ایک دِن مگرمچھ کی بیوی نے دیکھا کہ مگرمچھ اُس سے بہت خوش ہے۔ اِس موقع کو غنیمت جان کر بولی، ’’تم یہ میٹھے میٹھے اور مزے دار جامن کہاں سے لاتے ہو؟‘‘ مگرمچھ نے اسے بتایا کہ یہ جامن اس کا دوست بندر دیتا ہے۔ مگرمچھ کی بیوی، ’’بھلا جو بندر دِن بھر ایسے میٹھے میٹھے جامن کھاتا ہے اس کا کلیجہ تو اِنہیں جامنوں کی طرح میٹھا اور مزے دار ہوگا۔ جیسے بھی ہو اس کا کلیجہ لاکر مجھے دو تاکہ اسے کھا کر مَیں اپنا دِل خوش کرسکوں۔‘‘
مگرمچھ، ’’تم یہ کیا کہتی ہو! وہ تو میرا دوست ہے۔ یہ تو دوست سے بے وفائی کرنا ہے۔‘‘
مگرمچھ کی بیوی جھوٹ موٹ رونے لگی۔ اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا، ’’سنو! اگر تم واقعی مجھ سے محبّت کرتے ہو تو اس کا کلیجہ لے آؤ۔ جب تک تم اس کا کلیجہ نہ لاؤ گے، مَیں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی۔‘‘
مگرمچھ کی بیوی کی یہ چال کامیاب ہوگئی۔ مگرمچھ نے بیوی کو دلاسہ دیا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بندر کا کلیجہ کیسے لایا جائے۔ اِسی اُدھیڑ بُن میں وہ بندر کے پاس دیر سے پہنچا۔ بندر نے پوچھا، ’’پیارے دوست! آج اتنی دیر کیوں لگائی؟ اس طرح گم سم کیوں بیٹھے ہو؟‘‘
مگرمچھ نے جواب دیا، ’’بھیّا کیا بتاؤں؟ آج تو تمہاری بھابھی نے مجھے خود آڑے ہاتھوں لیا۔ کہا، تم ہر روز اپنے دوست کے گھر جاتے ہو۔ میٹھے میٹھے جامن کھاتے ہو۔ ایک بار بھی اپنے دوست کو گھر آنے کو نہیں کہا۔ بھائی اگر آج تم میرے گھر چلو تو بڑی مہربانی ہوگی۔ تمہاری بھابھی تمہیں دیکھ کر خوش ہوجائے گی۔‘‘
بندر بولا، ’’مجھے تمہارے ساتھ چلنے میں بڑی خوشی ہوگی، پر تمہارا گھر تو پانی میں ہے اور میں ٹھہرا زمین پر رہنے والا۔ تمہارے گھر کیسے جاسکتا ہوں؟‘‘
اس پر مگرمچھ کہنے لگا، ’’تم بے کھٹکے میری پیٹھ پر سوار ہوجاؤ، مَیں پلک جھپکتے میں اپنے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘
بندر راضی ہوگیا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ مگرمچھ اُسے لے کر تیزی سے چل پڑا۔ اس کی تیزی دیکھ کر بندر نے ڈر کر کہا، ’’دوست! ذرا آہستہ آہستہ چلو، نہیں تو دریا کی لہریں مجھے بہا لے جائیں گی۔‘‘
مگرمچھ زور سے ہنس پڑا۔ کہنے لگا، ’’خدا کا نام لو، اب تمہارا آخری وقت آگیا ہے۔ تمہاری بھابھی کی ضد ہے کہ تمہارا کلیجہ کھائے۔ اس کی خواہش پوری کرنے کے لئے مَیں نے یہ ڈھونگ رچایا ہے۔‘‘
بندر بڑا چالاک تھا، فوراً بولا، ’’واہ یار! اتنی سی بات کے لئے ناحق تکلیف کی۔ تم نے مجھ سے وہیں کیوں نہ کہا؟ مَیں اپنا کلیجہ ہمیشہ اپنے پاس تھوڑے ہی رکھتا ہوں۔ اسے تو میں اُسی جامن کے کھوکھلے تنے میں چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ اسے کوئی چُرا نہ سکے۔ اپنی پیاری بھابھی کے لئے کلیجہ تو کیا، جان تک حاضر ہے۔ اس لئے اگر تمہیں سچ مچ میرا کلیجہ ہی چاہئے تو مجھے اسی جامن کے پیڑ کے پاس لے چلو۔‘‘
یہ سُن کر مگرمچھ کا دِل خوشی کے مارے ناچ اٹھا، بولا، ’’اگر ایسا ہی ہے تو بڑی اچھی بات ہے۔ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تمہاری جان بھی بچ جائے گی اور تمہاری بھابھی کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔‘‘
یہ کہہ کر مگرمچھ کنارے کی طرف لوٹ پڑا۔ جوں ہی وہ کنارے کے قریب پہنچا بندر کود کر زمین پر آگیا اور پل بھر میں پیڑ پر چڑھ گیا۔ جب بندر کو پیڑ پر چڑھے کافی دیر ہوگئی تو مگرمچھ نے آواز دی:
’’پیارے دوست! اب کیا دیر ہے؟ اپنا کلیجہ ذرا جلدی دے دو نا! تمہاری بھابھی انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘
بندر نے کڑک کر جواب دیا، ’’ارے احمق! ذرا سوچ تو سہی، کیا کوئی جاندار اپنا کلیجہ نکال کر بھی زندہ رہ سکتا ہے؟ تیری طرح مجھے بھی اپنی جان بچانے کے لئے یہ ڈھونگ رچانا پڑا۔ اب اگر اپنی خیریت چاہتا ہے تو چُپ چاپ دُم دبا کر یہاں سے بھاگ جا۔‘‘
اب تو مگرمچھ بہت سٹپٹایا اور بولا، ’’بھیّا! مَیں نے تو صرف مذاق میں یہ بات کہی تھی، لیکن تم اسے سچ ہی سمجھ بیٹھے۔ چلو جلدی کرو، تمہاری بھابھی راستہ دیکھ رہی ہوگی۔‘‘
بندر بولا، ’’اب مَیں تیرے جھانسے میں آنے والا نہیں۔ جو ایک بار دغا دے اس سے دوبارہ دوستی کرنے والا سب سے بڑا احمق ہے۔‘‘ یہ سُن کر مگرمچھ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور وہاں سے چلا گیا۔