Inquilab Logo Happiest Places to Work

جن سنگھ، بی جے پی، قول وفعل کا تضاداَور تبدیلیٔ موقف

Updated: July 27, 2025, 7:26 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

جن سنگھ کے انتخابی منشورو ں کا جائزہ لیجئے اور اس کے نئے اوتار (بی جے پی) کے طرز فکر و عمل کو سامنے رکھئے تو یہ منکشف ہوگا کہ ان میں کوئی تسلسل نہیں، ربط نہیں ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۱۹۵۰ء کی دہائی میں  ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنے مسودۂ قوانین میں  ہندو پرسنل لاء کے بارے میں  چند تجاویز پیش کی تھیں  بالخصوص ترکہ میں  خواتین کے حصے سے متعلق۔ اُنہوں  نے ورثہ اور ترکہ کے روایتی قانون (اِنہیریٹنس لاء) پر دو طرح کے غالب رجحانات کی نشاندہی کی اور اُن میں  سے ایک میں  رد و بدل ضروری سمجھا تاکہ متعلقہ قانون خواتین کے حق میں  زیادہ منصفانہ ہوجائے۔ ۱۹۵۱ء کے انتخابی منشور میں  جن سنگھ نے ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ سماجی اصلاح اوپر سے تھوپی نہیں  جاسکتی، اسے سماج کے اندرون سے پیدا ہونا چاہئے یعنی قانون نہ بنے بلکہ عوام خود اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنا طور طریقہ بدلیں ۔ اس کے بعد ۱۹۵۷ء میں  بھی اس نے کہا کہ ایسی تبدیلیاں  قابل قبول نہیں  جب تک کہ قدیم ہندو تہذیب سے اس کی توثیق نہ ہوتی ہو۔ جن سنگھ کو ’’خدشہ‘‘ تھا کہ اس کی وجہ سے ’’فسادی فردیت‘‘ (رائٹَس انڈیویجوئلزم) پیدا ہوگی۔ جن سنگھ کی جانب سے ہونے والی مخالفت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ سمجھ میں  آتا ہے:
 اس کی جانب سے طلاق کی مخالفت کا ایک سبب دائمی شادی کا تصور ہوسکتا ہے لیکن مادی عنصر طلاق یافتہ خواتین اور بیوہ بہوؤں  کو جائیداد کا وارث نہیں  ہونے دے رہا تھا۔وقت کے ساتھ پارٹی کا  موقف بدلا مگر یہ واضح نہیں ہوا کہ پارٹی نے اس نکتے پر اپنا موقف کیوں  بدلا۔ جیسے جیسے ہندوستانی سماج میں  طلاق کے واقعات بڑھنے لگے اور (بی جے پی کو ووٹ دینے والے طبقات مثلاً شہری عوام، اعلیٰ طبقہ یعنی اَپر کاسٹ اور متوسط طبقے کے خاندانوں  میں  چھوٹی کنبوں  کا سلسلہ شروع ہوا، اس نے مشترکہ خاندانوں  کے تئیں  اپنی وفاداری کو بالائے طاق رکھ دیا۔
 مَیں  نے اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم میں  لکھا تھا کہ جن سنگھ (اور پھر بی جے پی) نے معیشت کے تعلق سے اپنی سوشلسٹ پالیسیوں  کو بدلا تھا۔ مَیں  نے یہ بھی کہا کہ اس طرح سیاسی موقف کو بدلنے میں  کوئی مضائقہ نہیں  ہے، تمام سیاسی جماعتوں  کو وقت کے ساتھ اپنا موقف یا نظریہ بدلنے کا حق ہوسکتا ہے مگر جب آپ اُس موقف یا نظریہ کو تبدیل کرتے ہیں  جس کی بنیاد پر آپ نے کسی دوسرے موقف یا نظریہ کی مخالفت کی تھی، تو عوام پر واضح کیا جانا چاہئے کہ اس تبدیلی کا سبب کیا ہے۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی جماعتوں  اور تنظیموں  نے ایسا نہیں  کیا۔ 
 جن سنگھ کے انتخابی منشوروں  کا گہرا مطالعہ یہ بھی سمجھاتا ہے کہ اسے ہمیشہ یہ دقت رہی کہ ذات پات کے نظام سے جڑی ہوئی جاتیوں  سے کس طرح نمٹا جائے۔ پارٹی نے کہا کہ وہ چھوت چھات اور ذات پرستی کو ختم کرکے ہندو سماج میں  مساوات اور یگانگت پیدا کریگی  لیکن یہ نہیں  بتایا کہ کیسے۔ جن سنگھ نے درج فہرست ذاتوں  اور درج فہرست قبائل کیلئے ریزرویشن کی کانگریس کی پالیسی میں  کوئی اضافہ نہیں  کیا، مثلاً پرائیویٹ سیکٹر میں  اس کی شمولیت کا مطالبہ کرنا یا اسے بڑھانا۔ دلتوں  کی حمایت ان کی فلاح کیلئے `اضافی تربیتی کلاسیز، ریفریشر کورسیزاور ’’ان سروس ٹریننگ‘‘ جیسے اقدامات سے حاصل ہوسکتی تھی۔ سماجی طور پر پارٹی شراب کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہوئی اور ملک گیر ممانعت کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا کہ انگریزی کو تمام شعبوں  میں  مقامی زبانوں  اور خاص طور پر ہندی سے بدل دیا جائے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں  اس کا اعادہ کیا ہے۔ جب اس پر ہنگامہ ہوا تو بی جے پی نے میڈیا اداروں  کو اس کا ویڈیو حذف کرنے پر مجبور کیا، غالباً اس وجہ سے کہ اس سے بی جے پی کو ووٹ دینے والا طبقہ ناراض ہوسکتا تھا۔
 جن سنگھ نے ایک اور شعبہ میں  خود کو شہری متوسط طبقے کی پارٹی ظاہر کیا۔ وہ زراعت کا شعبہ تھا۔ اس کے پہلے منشور میں  زراعت پر پہلا نکتہ `زیادہ پیداوار کیلئے سخت محنت پر آمادہ کرنے کیلئے کاشتکار کو تعلیم دینے اور اس کا حوصلہ بڑھانے کیلئے ملک گیر مہم کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن موجودہ بی جے پی کے دور میں  حکومت نے تین زرعی قوانین کے ذریعہ اپنی کسان دوستی کا خود ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔
 خارجہ امور پر، بی جے پی نے حال ہی میں  ’’کئی گولڈ میڈل‘‘ جیتے ہیں  مگر دیگر ملکوں  کے ساتھ ہندوستان کے اسٹراٹیجک تعلقات کے بارے میں  جن سنگھ کا کوئی خاص نظریہ نہیں  تھا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں  ان لوگوں  کے ساتھ دوستی کرنا چاہئے جو ہمارے ساتھ دوستی رکھتے ہوں او رجو ہم سے دوستی نہیں  کرتے اُن کے ساتھ سختی کرنی چاہئے۔ جن سنگھ کی تمنا تھی کہ ہندوستان کو سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل ہو مگر اس نے کہیں  بھی یہ حوالہ نہیں  دیا کہ ہندوستان کا کردار  کیا ہو، یا اگر معجزانہ طور پر رُکنیت مل گئی تو ہمارا طرز عمل کیا ہوگا۔ اس نے کبھی یہ بھی نہیں  سجھایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رُکنیت کیسے حاصل کی جائے۔ ایسی چیزوں  کے بارے میں  جن سنگھ کے طرز فکر  میں  کوئی تسلسل نظر نہیں  آتا۔ ۱۹۵۷ء کے منشور کا آغاز پاکستان پرتگال اتحاد سے پیدا شدہ خطرے کیخلاف سنگین انتباہ کے ساتھ ہوا تھا۔ ۱۹۶۲ء کے منشور میں  اس کا کوئی حوالہ نہیں  تھا بلکہ چین سے جنگ ہارنے کے خلاف نہرو کو نصیحت دینے سے شروع ہوا تھا۔ ۱۹۷۲ء کے منشور میں  بنگلہ دیش کا کوئی حوالہ نہیں  تھا جس کی تشکیل محض چند ہفتے قبل ہوئی تھی۔ اس کی دفاعی پالیسی کے پس پشت تمام لڑکوں  اور لڑکیوں  کیلئے لازمی فوجی تربیت، اٹھارہویں  صدی کا  ہتھیار (مسل لوڈنگ گن )  رکھنے کے لائسنس کا خاتمہ، نیشنل کیڈٹ کورپس کی توسیع اور جوہری ہتھیاروں  کی تیاری جیسے مقاصد تھے۔ یہ مطالبات اور مقاصد پر توجہ دیجئے تو محسوس ہوگا کہ ان میں  کوئی آپسی ربط نہیں  ہے۔ 
 اگر آپ پوچھیں  کہ ان معاملات کو ۲۰۲۵ء میں  کیوں  اُجاگر کیا جارہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بی جے پی ہمارے ملک کی سب سے بڑی اور غالب سیاسی قوت ہے چنانچہ وہ جو کچھ بھی کہتی اور کرتی ہے وہ اہم ہے۔ اس کا اپنا آئین ’’سوشلزم اور سیکولرازم کے اصولوں  پر سچے عقیدہ اور وفاداری‘‘ کی تائید کرتا ہے مگر وہی پارٹی آج ان الفاظ کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ پارٹی کو اس کے اپنے الفاظ پڑھ کر سنائے جائیں  تاکہ سند رہے اور اس کی یاددہانی ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK