Inquilab Logo

مُلّا پلاؤ

Updated: May 04, 2024, 1:35 PM IST | Saeed Lakht | Mumbai

سب لڑکوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہم بولے، ’’مولوی صاحب! ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘ بولے، ’’قصور وصور میں نہیں جانتا۔ بس سیدھی طرح مرغا بنو۔ اور میاں سعید، چونکہ تم مانیٹر ہو اس لئے سب سے پہلے تم مرغا بنو۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

سعید لخت
inquilab@mid-day.com
’’اٹن شن....‘‘ ملّا پلاؤ کڑک کر بولے۔ سب لڑکے اکڑ کے کھڑے ہوگئے۔ ملّا پلاؤ نے تھوڑی دیر ڈاڑھی کھجائی اور پھر زور سے بولے، ’’سینہ نکال کے، پیٹ پٹخا کے کوئک مارچ۔ لیفٹ رائٹ۔ لیفٹ رائٹ۔ لیفٹ۔ لیفٹ....‘‘ ہم فوج کے جرنیل تھے۔ اس لئے سب سے آگے ہوتے تھے۔ چلتے چلتے آگے دیوار آئی۔ دیوار پر سیڑھی لگی تھی۔ جب ہمیں ’’رائٹ ٹرن‘‘ یا ’’لیفٹ ٹرن‘‘ کا آرڈر نہیں ملا تو ہم نے سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیا۔ فوج نے دیکھا کہ جرنیل صاحب دیوار پر چڑھ رہے ہیں تو وہ بھی چڑھنے لگی۔ ملّا پلاؤ کوئک مارچ کا حکم دے کر تھیلے سے شیشہ نکال کر، مونچھیں درست کرنے لگے تھے۔ اس لئے انہوں نے فوج کو دیوار پر چڑھتے ہوئے نہ دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد منہ اوپر اٹھایا تو بھنا کر بولے، ’’ارے ہالٹ! ارے نا معقولو ہالٹ! یہ کیا حرکت ہے؟ فوج کہیں دیوار پر بھی چڑھتی ہے؟ اترو نیچے۔ مَیں کہتا ہوں اُترو....‘‘ یہ تھے ہمارے اُردو اور دینیات کے استاد۔ مولوی صبغۃ اللہ برکاتی جنہیں ہم سب ملّا پلاؤ کہتے تھے۔ ساٹھ ستر سال کے پیٹے میں ہوں گے۔ سر، داڑھی، بھویں بلکہ پلکیں تک سفید ہوچکی تھیں۔ مگر دم خم ایسے تھے جیسے کوئی بیس برس کا کڑیل جوان۔ جاڑے ہوں کہ گرمی ہمیشہ ململ کا انگرکھا پہنتے۔ البتہ سردیوں میں ایک اونی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ آواز ایسی پاٹ دار تھی کہ اِس محلے بولیں تو اس محلے سنائی دے اور جب چلتے تو ایسی زور سے پیر مارتے کہ زمین تھرا اُٹھتی۔
 بعض لوگوں کو اللہ میاں سب سے نرالا بناتا ہے۔ ان کی چال ڈھال، بات چیت اور لباس وغیرہ میں کوئی نہ کوئی عجیب بات ایسی ضرور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ ملّا پلاؤ بھی ایسے ہی عجیب و غریب اور دلچسپ آدمیوں میں سے تھے۔ انہیں پلاؤ کھانے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے سارا شہر انہیں ملّا پلاؤ کہتا۔ امیر ہو کہ غریب، جس کسی کے گھر کوئی خوشی یا غمی ہوتی تو وہ ملّا پلاؤ کو ضرور بلاتا اکیلے آدمی تھے۔ نہ بیوی تھی نہ بچے۔ اس لئے مہینے کے تیسوں دن دعوتوں میں گزرتے اور بہت کم ایسا ہوتا کہ مولوی صاحب کے گھر چولہا جلتا۔
 ملّا صاحب ہر وقت ایک چھوٹا سا تھیلا اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جس میں قینچی، کنگھی، شیشہ اور سرمہ دانی ہوتی تھی۔ فرصت کے وقت تھیلا کھول کر اپنا بناؤ سنگھار کرتے اور اگر اسکول میں کسی بچے کو میلا کچیلا دیکھتے تو فوراً نلکے پر لے جا کر اس کا منہ دھلاتے، سرمہ لگاتے اور بالوں میں کنگھی کرکے کہتے، ’’دیکھ، اگر کل اس طرح بھنگی بن کر آیا تو دونوں کانوں کے بیچ میں سر کر دوں گا۔‘‘
 ملّا پلاؤ اُردو اور دینیات کے استاد ہونے کے علاوہ ڈرل ماسٹر بھی تھے۔ روزانہ صبح سویرے اسکول کے صحن میں پریڈ ہوتی تھی۔ ہمیں جرنیل بنایا گیا تھا۔ ہم جھنڈا اٹھائے سب سے آگے ہوتے تھے۔ جب سب لڑکے آگے پیچھے لائن میں کھڑے ہوجاتے تو ملّا پلاؤ کڑک کر حکم دیتے، ’’اٹن شن.... سینہ نکال کے، پیٹ پٹخا کے، کوئک مارچ۔ لیفٹ رائٹ۔ لیفٹ رائٹ۔ لیفٹ۔ لیفٹ۔‘‘ اب مصیبت یہ تھی کہ جب فوج مارچ شروع کر دیتی تو خود آنجناب شیشہ نکال کر اپنی صورت دیکھنے لگے۔ اور زبان سے کہے جاتے، ’’لیفٹ۔ لیفٹ۔ لیفٹ۔‘‘ نتیجہ یہ ہوتا کہ فوج یا تو دیوار پر چڑھ جاتی اور یا پھاٹک سے باہر نکل کر بازار میں گھومنا شروع کر دیتی۔ جب آپ کو ہوش آتا تو پیچھے پیچھے بھاگے آتے اور زور زور سے چیختے: ’’ارے ہالٹ، ابے نالائقو، اباؤٹ ٹررررن۔‘‘
 ہمیں یاد نہیں کہ ملّا پلاؤ نے کبھی کسی لڑکے کو مارا ہو۔ مارنا تو بڑی بات ہے کبھی ڈانٹتے ڈپٹتے بھی نہیں دیکھا۔ بڑی محبت اور بڑے پیار سے پڑھاتے پڑھاتے کیا، یوں کہو، گھول کے پلاتے۔ کبھی کوئی بچہ شرارت کرتا یا سبق یاد نہ کرتا تو بس اتنا کہتے، ’’کانوں کے بیچ میں سر کر دوں گا۔‘‘
 ایک دن کلاس میں آئے تو زور سے بولے، ’’اسٹینڈ اَپ۔ اٹن شن۔ کوئک مارچ۔‘‘ پھر بولے، ’’نہ نہ نہ.... ناٹ کوئک مارچ۔ سٹ ڈاؤن۔ سٹ ڈاؤن۔‘‘ لڑکے بیٹھ گئے تو پہلے تو آپ نے سفید براق ڈاڑھی میں انگلیاں پھرائیں اور ایک آنکھ میچ کر بولے، ’’ہم نے آج تک کبھی.... تمہیں کوئی سزا نہیں دی.... آج تم سب مرغا بنو....‘‘
 سب لڑکوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہم بولے، ’’مولوی صاحب! ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘ بولے، ’’قصور وصور میں نہیں جانتا۔ بس سیدھی طرح مرغا بنو۔ اور میاں سعید، چونکہ تم مانیٹر ہو اس لئے سب سے پہلے تم مرغا بنو۔‘‘ ہم نے کہا، ’’مولوی صاحب، ہمیں تو معلوم نہیں کہ مرغا کیسے بنتے ہیں۔‘‘ حیرت سے بولے، ’’ابے پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے اور ابھی تک تجھے مرغا بننا نہ آیا؟ طارق میاں، تم سعید کو مرغا بن کے دکھاؤ۔‘‘ طارق نے پہلے تو بغلیں جھانکیں پھر مسمسی صورت بنا کر بولا، ’’مرغا بننا تو مجھے بھی نہیں آتا۔‘‘ ملّا پلاؤ بہت جھنجھلائے۔ باری باری تمام لڑکوں سے پوچھا اور جب سب نے کانوں پر ہاتھ دھرے کہ جناب ہمیں مرغا بننا نہیں آتا تو آپ غصے میں کھڑے ہوگئے اور بولے ذرا سوچو تو لوگ کیا کہیں گے کہ مولی صبعۃ اللہ صاحب برکاتی کے شاگرد اور انہیں مرغا بننا بھی نہیں آتا۔ فرض کرو کل کلاں کو انسپکٹر صاحب آگئے اور انہوں نے تمہیں مرغا بننے کے لئے کہا تو کیسے بنو گے؟ تم تو میری بھی ناک کٹواؤ گے۔ لو دیکھو اور یاد رکھو۔ اس طرح بنتے ہیں مرغا....‘‘ یہ کہہ کر آپ نے ٹانگوں میں ہاتھ ڈالے اور کان پکڑ کر مرغا بن گئے۔ سب بچے ہاتھوں میں منہ دبائے کھوں کھوں ہنس رہے تھے۔ اتفاق کی بات ہیڈ ماسٹر صاحب کسی ضرورت سے اُدھر آنکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ ملّا پلاؤ مرغا بنے کھڑے ہیں تو پہلے تو آنکھیں جھپکا کر ہماری طرف دیکھا اور پھر ملّا پلاؤ سے بولے، ’’اجی مولوی صاحب! یہ کیا ناشائستہ حرکت کر رہے ہیں آپ؟‘‘ ملّا پلاؤ نے کان چھوڑ دیئے اور جھلا کر بولے، ’’بیس برس ہوگئے آپ کو پڑھاتے ہوئے اور ابھی تک آپ نے بچوں کو مرغا بننا بھی نہیں سکھایا....‘‘
 ایک دفعہ شہر میں ایک ناٹک کمپنی آئی۔ ہماری شامت جو آئی تو ملّا پلاؤ بھی ناٹک دیکھ آئے۔ دوسرے دن اُردو کا گھنٹہ شروع ہوا تو بولے، ’’اٹن شن۔ کتابیں بند۔‘‘ لڑکوں نے کتابیں بند کر دیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اب مولوی صاحب کوئی مزے دار کہانی سنائیں گے۔ آپ تھوڑی دیر آنکھیں بند کرکے کچھ سوچتے رہے پھر ایک آنکھ کھول کر بولے، ’’دیکھو بھئی، دو مہینے بعد اسکول کا سالانہ جلسہ ہونے والا ہے۔ ہمیں ابھی سے مشق شروع کر دینی چاہئے۔‘‘ ہم بولے، ’’کاہے کی مشق مولوی صاحب؟‘‘ بولے، ’’ڈرامے کی اور کاہے کی۔ اس دن ہم ایک ڈراما یعنی ناٹک کھیلیں گے۔ ڈراما مَیں نے لکھ لیا ہے۔ اس کا نام ہے ’جہانگیر کا انصاف‘ یہ کہانی تم چوتھی جماعت میں پڑھ چکے ہو۔‘‘ ’’ہاں۔ ہاں مولوی صاحب، ہمیں یاد ہے۔‘‘ ہم نے خوش ہو کر کہا۔
 ملّا پلاؤ بولے، ’’جہانگیر تو ہم بنیں گے اور طارق میاں تم دھوبی بنو گے کیونکہ تمہاری صورت دھوبیوں سے ملتی جلتی ہے۔ اب رہی.... نور جہاں.... تو....‘‘ یہ کہہ کر آپ نے تمام لڑکوں پر ایک نظر ڈالی اور آخر میں اپنی گول گول آنکھیں ہمارے چہرے پر جما دیں۔ ہم نے خطرے کو بھانپ لیا۔ جلدی سے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھادیئے اور گھبرا کر بولے، ’’نہیں۔ نہیں۔ مولوی صاحب۔ مَیں نور جہاں نہیںبنوں گا۔‘‘ طارق بولا، ’’مولوی صاحب، سعید ہی کو نورجہاں بنایئے اس کے بال بھی بڑے بڑے ہیں۔‘‘ رشید بولا، ’’بالکل ٹھیک۔ اس کی آواز بھی نورجہاں جیسی ہے۔‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ کلاس میں ایک شور مچ گیا۔ ملّا پلاؤ میز پر گھونسا مار کر بولے:
 ’’خاموش۔ خاموش۔ ہم نے جو کہہ دیا۔ وہ اٹل ہے۔ سعید میاں، تم نور جہاں بنو گے اور ضرور بنو گے۔‘‘ طارق بھی ایک ہی استاد تھا بولا، ’مگر مولوی صاحب۔ نور جہاں تو عورت تھی۔ وہ زنانہ کپڑے پہنتی تھی۔ ایسے کپڑے کہاں سے آئیں گے؟‘‘
 ملّا پلاؤ بولے، ’’ہم بنوائیں گے۔ نیلا شیفون کا دوپٹہ جھلمل کرتا ہوا۔ بوسکی کا جمپر اور مخمل کا غرارہ۔ آہا۔ واہ واہ....‘‘ لڑکے اور لڑکیاں دونوں خدا کے بندے ہیں اور کسی طرح ایک دوسرے سے کم نہیں۔ مگر خدا معلوم کیا بات ہے کہ کسی لڑکے کو لڑکی کہہ دو تو وہ مارنے مرنے پر تیار ہوجائے۔ لڑکی کو لڑکا کہہ دو تو وہ ایسا منہ بنائے جیسے اِملیاں کھا کے آئی ہے۔ ہم نے جو دیکھا کہ ہمیں لڑکی بننا پڑے گا تو روتے روتے ہمارا برا حال ہوگیا۔ آنکھوں سے ساون بھادوں کی ایسی جھڑی لگی کہ ندی نالے بہہ گئے۔ لڑکے تو قہقہہ مار کر ہنسنے لگے مگر ملّا پلاؤ گھبرا گئے۔ دوڑے دوڑے آئے۔ رومال سے ہمارے آنسو پونچھے اور دم دلاسہ دے کر بولے، ’’ارے پگلے روتا کیوں ہے؟ جا.... تو نہ بننا نور جہاں۔ ہم بن جائیں گے۔ بس اب ہنس دے۔ کھکھلا کے۔ ہی ہی ہی ہی ہی۔‘‘
 نہ تو وہ ڈراما ہوا اور نہ ہم نور جہاں بنے۔ مگر اسکول کے لڑکوں نے ہمارا نام ہی نورجہاں رکھ دیا۔ ہوتے ہوتے سارے شہر میں ہم نور جہاں مشہور ہوگئے۔ جب ہمیں کوئی نورجہاں کہتا تو ہم شرم سے کٹ کٹ جاتے۔ مارے لاج کے اس طرح منہ چھپاتے، جیسے سچ مچ کی نورجہاں ہوں۔ بچپن کا زمانہ تھا۔ عقل کچی تھی۔ ہمیں یہ پتا نہیں تھا کہ عورت یا لڑکی ہونا شرم کی بات نہیں بلکہ اتنی ہی فخر کی بات ہے جتنی کہ لڑکا ہونا یا مرد ہونا۔
 اور ایک دن.... جب ہم اسکول گئے تو ہم نے دیکھا کہ تمام بچے صحن میں جمع ہیں۔ استاد کوئی بھی نہیں۔ بچوں کے چہرے اترے ہوئے تھے، اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ ہم نے بستہ گملے پر پٹخا اور طارق سے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولا، ’’مَ مَ مُلّا.... پلاؤ م م مر گئے۔ سب ماسٹر ان کے گھر گئے ہیں۔ ہم سے کہہ گئےہیں کہ یہیں ٹھہرنا۔ ہم ان کیلئے دعا مانگیں گے۔‘‘ دوپہر کو ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے استاد واپس آگئے۔ سب نے فاتحہ پڑھی۔ ہم نے گڑگڑا کر دعا مانگی کہ، ’’اے اللہ میاں تو ملّا پلاؤ کو جنّت میں ہیڈ ماسٹر بنا دینا اور انہیں روزانہ پلاؤ کھانے کو دینا۔‘‘ دعا کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ بولے، ’’چند روز پہلے مولوی صاحب مرحوم نے یہ لفافہ مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد اسے سب کے سامنے کھولنا۔‘‘
 انہوں نے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا:
 ’’مَیں مولوی صبغۃ اللہ برکاتی ولد مولوی برکت اللہ برکاتی، یہ وصیت کرتا ہوں کہ میری تمام کتابیں پبلک لائبریری کو دے دی جائیں۔ کپڑے لتے غریبوںا ور محتاجوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ باقی چیزیں بیچ دی جائیں۔ میرے پاس کچھ نقدی بھی ہے۔ اس روپے سے اسکول میں کتابوں کی ایک دکان کھولی جائے اور اس سے جو آمدنی ہو وہ غریب بچوں کی پڑھائی پر صرف کی جائے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK