ایک ماں کے دو مختلف جذبات کو بیان کرتی کہانی۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 1:10 PM IST | Anwar Inayatullah | Mumbai
ایک ماں کے دو مختلف جذبات کو بیان کرتی کہانی۔
مونا کے چہرے سے اب یوں لگنے لگا تھا جیسے اسے صبر آگیا ہو۔ اس نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونا کم کر دیا تھا۔ کئی راتوں سے وہ چین سے سو رہی تھی۔ پھر یکایک خدا جانے کیا ہوا کہ ایک رات اس نے ایک بار پھر وہی بھیانک خواب دیکھا۔ صبح پُرسکون ہے اور موسم بے حد خوشگوار۔ اس کا اکلوتا بیٹا طاہر اور اس کا ہم عمر دوست پانچ سالہ ساجد باغ میں کھیل رہے ہیں۔ یکایک باغ کی طرف سے ایک چیخ سنائی دیتی ہے۔ وہ تیزی سے جا کر باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہے۔ جامن کے درخت کی ایک ٹہنی سے اس کا طاہر چپکا ہوا ہے۔ اس کا ایک ہاتھ سہارے کیلئے پھیلا ہوا ہے۔ اس ٹہنی پر ساجد چڑھ رہا ہے۔ وہ گھبرا کر تیزی سے باہر نکلتی ہے اور درخت کی طرف دوڑتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے دل کے ٹکڑے کا ہاتھ تھام لے، خشک ٹہنی چٹخ کر ٹوٹتی ہے اور پلک جھپکتے ہی طاہر زمین پر دھم سے آن گرتا ہے۔
ایک چیخ کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس بھیانک خواب نے اس کی نیند اُڑا دی۔ جب بھی وہ یہ خواب دیکھتی، یہی ہوتا۔ رتجگوں کا اثر اب اس کی صحت پر پڑ رہا تھا اور وہ چہرے سے برسوں کی بیمار لگ رہی تھی۔ شاہد نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے پیار سے کہا، ’’خدا کیلئے جذبات کو قابو میں رکھو مونا۔ صبر کرو۔ اس دیوانگی سے کیا حاصل؟ اب طاہر ہمیں کبھی واپس نہیں مل سکتا۔‘‘
’’جانتی ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’سارا قصور اس ذلیل ساجد کا ہے جس کے بہکاوے میں آکر میرا بیٹا درخت پر چڑھا۔ اسی نے میرے بچّے کو مار ڈالا۔‘‘ ’’تمہارا خیال غلط ہے مونا۔‘‘ شاہد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، ’’بچے کی موت آگئی تھی، اسلئے وہ مر گیا۔ ساجد نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ ’’بالکل نہیں.... سب اسی کا کیا دھرا ہے۔ جب سے وہ پڑوس میں آیا ہمارے معصوم بچے نے اوٹ پٹانگ کھیل شروع کر دیئے۔ اسی کے کہنے پر وہ درخت پر چڑھا ہوگا۔ پھر وہ بھی اسی ٹہنی پر نہ چڑھتا تو نہ ٹہنی ٹوٹتی اور نہ میرا بچّہ گرتا۔‘‘ اس نے روتے ہوئے شکایت کی۔ ’’ٹہنی خشک تھی مونا۔‘‘ شاہد بولا۔ ’’میرا بچہ کون سا وزنی تھا۔ ٹہنی دو بچوں کا بوجھ نہ سہار سکی۔ میرا بس چلے تو مَیں....!‘‘ شاہد نے ایک بار پھر بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی، ’’نہیں مونا! ساجد قاتل کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تو خود ظالم وقت کے ہاتھوں ستایا ہوا ہے۔ جو بچہ چار ہی سال کی عمر میں ماں اور باپ دونوں کی شفقت سے ایک ہی رات میں محروم ہوجائے، وہ ظالم کیسے ہوسکتا ہے؟ نانی کے لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک ضدی ضرور بنا دیا ہے لیکن وہ نہ بدتمیز ہے اور نہ اتنا بُرا کہ اپنے عزیز دوست کی موت کا باعث بن جائے۔ اُسے تو طاہر سے، ہمارے گھر سے.... مجھ سے، تم سے ہر ایک سے عشق تھا۔ مونا! مجھے اب بھی وہ اتنا ہی اچھا لگتا جتنا طاہر کو لگتا تھا۔ تمہیں یاد نہیں؟ ہم بھی اس سے اس لئے خوش تھے کہ طاہر کی تنہائی ختم ہوگئی تھی اور اسے کھیلنے کودنے کیلئے ایک ہم عمر ساتھی مل گیا تھا۔‘‘ کچھ ایسی ہی باتیں صبح تک جاری رہیں۔ جب تھک کر مونا کو نیند آگئی تو شاہد نے ٹھنڈی سانس لی اور چپ چاپ بستر پر لیٹ گیا۔ ساجد بھی طاہر کی طرح مونا کو امی پکارنے لگا تھا۔ ماں کی محبت سے محرومی کا یہ واضح اظہار تھا۔ شاہد کو یاد آیا۔ ایک دن طاہر نے اس سے پوچھا تھا، ’’ابی.... ساجد اگر آپ کو ابی پکارے تو آپ خفا تو نہیں ہوں گے؟‘‘ ’’نہیں بیٹے۔‘‘ شاہد نے شان سے جواب دیا تھا۔ ’’وہ کل کہہ رہا تھا تمہارے ابی کو ابی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ ایسے ہی کئی چھوٹے چھوٹے سے واقعات اسے یاد آنے لگے تو اس کی نیند اچاٹ ہوگئی۔ حادثے کے بعد ساجد نے صرف ایک بار یہاں آنے کی جرأت کی تھی جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ مونا نے اسے اتنا ڈانٹا اور بُرا بھلا کہا تھا کہ ڈر کر اس نے ادھر کا رُخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ خدا جانے اب ساجد کس حال میں تھا اور کہاں تھا کیونکہ شاہد نے حادثے کے بعد اسے بالکل نہ دیکھا تھا۔
ایک شام دفتر سے آنے کے بعد شاہد کسی کام سے طاہر کے کمرے میں گیا تو میز پر اسے نئی کتابوں کا وہ بنڈل نظر آیا جو حال میں ہی خریدا گیا تھا۔ طاہر کو گرامر اسکول میں داخلے کی اُمید تھی، اور یہ کتابیں اس سلسلے میں خریدی گئی تھیں۔ گرامر اسکول کے پرنسپل کو مونا اس زمانے سے جانتی تھی جب وہ لندن میں زیر ِ تعلیم تھی۔ اسلئے اسے یقین تھا کہ طاہر اور ساجد دونوں کو ضرور داخلہ مل جائیگا۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ ناممکن تھا کہ ساجد کو وہاں بغیر کسی سفارش کے داخلہ ملتا۔ اس خیال سے شاہد کو دکھ ہوا اور وہ سوچنے لگا۔ کیا ہوگا اس بچے کا؟ اس کی نانی صاحب ِ فراش تھیں۔ گھر بوڑھے ملازم کے رحم و کرم پر چلتا تھا اور ملازم ساجد کو صرف قریب کے سرکاری اسکول میں داخلہ دلوا سکتا تھا۔
ایک دن ناشتے کے بعد شاہد دفتر چلا گیا تو مونا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب وہ کیا کرے۔ وہ خاصی دیر تک اخبار پڑھتی رہی۔ پھر اٹھ کر ایک تازہ رسالہ نکالا اور ڈرائنگ روم میں کھڑکی کے قریب آبیٹھی۔ یہ کھڑکی سڑک کی طرف کھلتی تھی۔ اس نے دیکھا کئی ننھے منے بچے اسکول کی طرف جا رہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی مونا کو یاد آگیا کہ بچوں کے داخلے کی آج آخری تاریخ تھی۔ ان بچوں کو دیکھ کر ایک بار پھر اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے دل کو بے دردی سے کچل دیا ہو۔ بڑی عجیب تڑپ تھی یہ۔ کاش وہ منحوس دن نہ آتا۔ کاش ساجد ان کی زندگی ہی میں نہ آتا۔ کاش وہ طاہر کو درخت پر چڑھنے کیلئے نہ اکساتا۔ کاش وہ سوکھی ٹہنی کٹوا دیتی۔ اس نے آخر وہ سوکھی ٹہنی کیوں نہیں کٹوائی؟ ساجد نے تو کئی دن پہلے اسے بتایا تھا کہ جامن کی ٹہنی سوکھ گئی ہے۔ اس طرح کیا طاہر کی موت کی وہ بھی ذمہ دار تھی؟ اس خیال سے وہ تڑپ گئی۔ منٹوں میں اس کی طبیعت اس قدر بگڑی کہ وہاں بیٹھنا اس کیلئے دوبھر ہوگیا۔ وہ اٹھ کر برآمدے میں آگئی اور سڑک کی طرف دیکھا۔ اس کی بے چین نگاہیں بھٹکتی ہوئی ایک بچے پر رک گئیں۔ وہ ساجد تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا یوں جیسے اُسے ہوش نہ ہو کہ اسے جانا کہاں ہے؟
مونا نے غور سے اُسے دیکھا تو نہ جانے کیوں اسے یوں لگا جیسے وہ بھی اتنا ہی تنہا ہو جس قدر کہ وہ خود تھی۔ ان چند لمحوں میں خدا جانے کیا ہوا کہ وہ بے اختیار گھر سے باہر نکلی اور اس کے قدم آپ ہی آپ ساجد کی طرف بڑھنے لگے۔
ساجد نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ رک گیا اور سہمی سہمی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ ساجد کو اس حالت میں دیکھ کر مونا کو اس پر بڑا رحم آیا۔ اس نے قریب جا کر اس سے پوچھا، ’’اتنے دن کہاں تھے ساجد؟‘‘ ’’جی بس یہیں تھا۔‘‘ اس نے مرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ مونا نے نوٹ کیا اس نے امی کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔ ’’اِس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟ داخلے کیلئے اسکول نہیں گئے؟‘‘ مونا نے آہستہ سے پوچھا۔ چند لمحے خاموشی رہی۔ ساجد نگاہیں جھکائے اپنے داہنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا۔ غالباً وہ سوچ رہا تھا، طاہر کی امی کے لہجے میں جو نرمی پیدا ہوئی ہے اس کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ ’’جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ مونا نے دھیمے لہجے میں پوچھا، ’’پہلے تو مجھ سے بہت بولا کرتے تھے!‘‘ ’’اسکول والے اکیلے بچوں کو داخل نہیں کرتے۔ نانی جان کی طبیعت کل رات سے بہت خراب ہے۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا اداس تھا جس کی وجہ سے مونا کو اپنی تنہائی کا احساس اور زیادہ ہوگیا۔ اس نے غور سے ساجد کو دیکھا اور پوچھا، ’’تم نے اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے؟‘‘ اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور بولی، ’’چلو میرے ساتھ!‘‘ یہ سن کر تو یوں لگا جیسے ساجد کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو۔ پھر مونا کے چہرے پر اُسے نرمی نظر آئی تو وہ اسکے ساتھ ہو لیا۔ مونا اسے اندر لے آئی۔ منہ ہاتھ دھلایا۔ الماری میں سے طاہر کے اچھے کپڑے نکال کر پہنائے اور سنگار میز کے سامنے اسے اسٹول پر بٹھا کر یوں پیار سے کنگھی کرنے لگی جیسے وہ ساجد نہیں طاہر ہو۔ چند منٹوں کے بعد اسے یکایک کچھ یاد آیا تو اس نے پوچھا، ’’تم نے ناشتہ کیا؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ساجد نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تمہارا ارادہ کیا ہے؟ فاقے کرو گے تو فوج میں کیسے داخل ہوگے؟ اس کیلئے خوب تگڑا ہونا ضروری ہے۔ چلو.... مَیں ناشتہ کراتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اسے پیار سے ڈرائنگ روم میں لے گئی اور اسے اس کرسی پر بٹھا دیا جو طاہر کیلئے مخصوص تھی۔ اسکے بعد وہ خود باورچی خانے میں گئی اور ساجد کیلئے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ ’’کتنا دُبلا ہوگیا ہے یہ لڑکا۔‘‘ اس نے سوچا، ’’دو مہینوں میں برسوں کا بیمار لگتا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر میں وہ ٹرے میں ناشتہ لگا کر ساجد کے پاس لے گئی۔ اس کے گلے میں نیپکن اسی طرح باندھا جس طرح وہ طاہر کے باندھا کرتی تھی۔ پھر توس پر مکھن اور جام لگا کر اسے دیا۔ ساجد کو غالباً بہت بھوک لگ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے تیز تیز کھانے لگا۔ چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر مونا کو یکایک ساجد کی اتاری ہوئی قمیص کی جیب پر جامن کے نیلے نیلے دھبے نظر آئے۔ ’’جامن بھر لئے جیب میں؟‘‘ اس نے پوچھا، ’’یہ داغ مشکل سے جاتے ہیں۔ تمہیں بھی جامن پسند ہیں سجو!‘‘ اسے معلوم تھا اس کے بیٹے کو تو جامن سے عشق تھا۔ ’’جی ہاں.... بہت!‘‘ ساجد نے جواب دیا۔ اتنے دنوں کے بعد طاہر کی امی کے منہ سے سجو سن کر اسے بہت اچھا لگا۔ ’’اسے بھی جامنیں بہت پسند تھیں.... میرے طاہر کو۔‘‘ مونا نے میکانیکی انداز میں آہستہ سے کہا۔
’’جانتا ہوں.... وہ جامن توڑنے ہی تو چڑھا تھا درخت پر۔‘‘ ساجد بولا۔ ’’لیکن سوکھی ٹہنی پر کیوں چڑھ گیا تھا وہ؟‘‘ مونا نے بے چینی سے پوچھا۔ ’’وہ نہیں چڑھا تھا.... سوکھی ٹہنی پر تو مَیں چڑھا تھا۔‘‘ ساجد نے جلدی سے جواب دیا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ حیرت سے مونا نے فوراً پوچھا۔
’’ٹھیک کہہ رہا ہوں! اس کا پیر تو سبز ٹہنی پر سے پھسلا تھا۔ وہ کمزور تھی۔ میں تو اسے روکنے کیلئے تیزی سے چڑھا تھا لیکن میرے وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ نیچے گر گیا۔ اس کے ساتھ میں سوکھی ٹہنی بھی ٹوٹ گئی اور میں بھی دھم سے گرا.... یہ ٹہنی زیادہ اونچی نہیں تھی۔ اسلئے مجھے معمولی چوٹ لگی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ساجد نے اپنی قمیص کی آستین اوپر چڑھائی تو مونا نے دیکھا اس کی بائیں کہنی بُری طرح سے چھل گئی تھی۔ زخم ابھی پوری طرح خشک نہیں ہوا تھا۔ اس روز طاہر کو زمین پر پڑے دیکھ کر اس نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ ساجد کو بھی چوٹ لگی تھی۔ ساجد نے مونا کو خاموش دیکھا تو سمجھا کہ اسے پھر غصہ آگیا ہے اور اب وہ جھنجھلا کے اس کی پٹائی کرے گی۔ اس خیال سے وہ بُری طرح سہم گیا اور فوراً روہانسی آواز میں کہا، ’’میرا یقین کیجئے امّی!‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا، ’’میں اس کی مدد کرنے کو چڑھا تھا درخت پر.... سوکھی ٹہنی پر صرف میں تھا.... میں بے قصور ہوں امّی.... خدا کی قسم! وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔‘‘
اس کی باتیں سُن کر مونا پر تو گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ صحیح واقعات جان کر اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سینے پر سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ اس نے اب تک خواہ مخواہ اس معصوم کو غلط سمجھا تھا۔ طاہر کی موت تو واقعی ایک حادثہ تھا۔ یکایک دور سے اسے ساجد کی دھیمی سی آواز سنائی دی۔ ’’مَیں نے کچھ نہیں کیا امّی.... خدا کی قسم کچھ نہیں کیا.... مجھے مت ڈانٹئے امّی.... مجھے آپ سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
ساجد کے منہ سے بار بار امی کا لفظ سن کر مونا نے دیوانہ وار اسے سینے سے لگا لیا اور روتے ہوئے کہا، ’’مت ڈر بیٹے.... مت رو.... مجھے معلوم ہے تم سچ بول رہے ہو۔ مجھے یقین آگیا ہے تم نے کچھ نہیں کیا۔ جو کچھ ہوا وہ ہماری تقدیر میں لکھا تھا۔ اب آنسو پونچھ لو۔ چلو.... میں تمہیں گرامر اسکول لے چلوں گی.... داخلہ دلوانے.... مت رو میرے بچے.... مت رو۔‘‘ ساجد کی آنکھوں سے تو جھڑی لگ گئی تھی اور سسکیاں تھیں کہ اتنی بہت سی محبت اچانک پا کر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
مونا سوچ رہی تھی، ’’عجیب پاگل لڑکا ہے! اس کا پھیلا ہوا ہاتھ میں نے اتنی مضبوطی سے تھام لیا ہے.... پھر بھی نہ جانے کیوں روئے جا رہا ہے، بالکل میرے طاہر کی طرح.... وہ بھی تو یوں ہی بات بے بات رویا کرتا تھا نا!‘‘