یہ تفتیش کے نام پر ہونےوالی بدعنوانی اور معصوم زندگیوں کےساتھ کھلواڑ کا بھیانک ثبوت تو ہے ہی، ۱۹؍ سال تک ناگردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے اُن افراد کے چٹان جیسے حوصلے کا نتیجہ بھی ہے جنہوں نے قیدو بند کے دوران ہر طرح کاظلم سہا مگر ہمت ہاری نہ امید چھوڑی۔
ٹرین بم دھماکوں کے کیس میں ماخوذ کئے گئے محمد علی ہائی کورٹ کے ذریعہ بری کئے جانے کے بعد۔ تصویر: آئی این این۔
بامبے ہائی کورٹ کا ٹرین بم دھماکوں کے الزام میں ماخوذ کئے گئے تمام افراد کو بری کرنےکافیصلہ جہاں ملک کے نظام ِ انصاف کیلئے ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے وہیں یہ اے ٹی ایس کےذریعہ ممبئی اور پورے ملک کے ساتھ کی گئی دہری ناانصافی کا بین ثبوت بھی ہے۔ یہ اُن افسران کے خلاف فرد جرم ہے جنہوں نے ہائی کورٹ کے قابل ججوں کے الفاظ میں محض ’’کیس حل کرلینے‘‘ کاتاثر دے کر متاثرین کو بے وقوف اور بے قصوروں کو بلی کا بکرا بنا یا۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ عدالت نے کسی تکنیکی کمی یا کوتاہی کی وجہ سے ملزمین کو بری نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔
یہ معمولی بات نہیں ہے کہ راتوں رات فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنےوالی مہاراشٹر حکومت نے حکم امتناع حاصل کرنے کیلئے اس بات پر اصرار ہی نہیں کیا کہ ملزمین کو بری اوران کو رہا کرنے پر روک لگائی جائے۔ اس کی استدعا بس اتنی تھی کہ اس فیصلے کے بطور نظیر استعمال پر روک لگائی جائے تاکہ مکوکا کے دیگر مقدمات پر اس کا اثر نہ پڑے۔ میڈیا میں بھلے ہی یہ تاثر دیاگیا ہو کہ سپریم کورٹ نے ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے پر روک لگادی ہے مگر جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس این کے سنگھ کی بنچ نے جو کہا وہ بہت صاف ہے کہ ’’سالیسٹر جنرل(تشار مہتا) کی گزارش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہائی کورٹ کے زیر بحث فیصلے کو کسی اور زیر التواء مقدمے میں نظیرکے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ لہٰذا اس حد تک ہم زیر بحث فیصلے پر عمل درآمد روک دیتے ہیں۔ ‘‘ تصور ہی کیا جا سکتاہے کہ ہائی کورٹ کافیصلہ کس حدتک باجواز اور مدلل ہے کہ فریق مخالف کا کوئی وکیل سپریم کورٹ میں موجود نہ ہونے کے باجود مہاراشٹر حکومت نے اس بات کو مناسب نہیں سمجھا کہ وہ پورے فیصلے پر روک لگانے پراصرار کرے۔ یقیناً اسے یہ اندازہ رہا ہوگاکہ ایسا ممکن نہیں اور اس صورت میں بامبے ہائی کورٹ کے بعد اسے سپریم کورٹ میں بھی خفگی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ ممبئی اے ٹی ایس نے ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۶ء کو ہونےوالے دھماکوں کا کیس محض ۳؍ ماہ میں حل کرلینے کا دعویٰ کیاتھا مگر ہائی کورٹ کے الفاظ میں یہ کیس حل نہیں ہوا تھا بلکہ اسے حل کرلینے کا تاثر دیاگیا۔
یہ وہ نکتہ ہے جو اے ٹی ایس کی اُس پوری ٹیم کو کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہے جس نےا س کیس کی تفتیش کی اور ملزمین کو ’’خاطی‘‘ بنا کر پیش کیا۔ اس پر متضاد یہ کہ ہائی کورٹ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ ملزمین سے ’’اقبال جرم ‘‘ حاصل کرنے کیلئے انہیں ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔ مکوکا کی عدالت نے ’’اقبال جرم‘‘ کو ہی بنیاد بناکر اور اے ٹی ایس کے ذریعہ پیش کئے گئے دیگر ’’واقعاتی شواہد‘‘ سے ان کی توثیق کرتے ہوئے ۵؍ افراد کیلئے سزائے موت اور ۷؍ کیلئے عمر قید کاحکم صادر کیاتھا۔ کوئی ایک نکتہ نہیں ہےجہاں ہائی کورٹ نے اے ٹی ایس اور اس کی جانچ پر سوال کھڑا نہ کیا ہو۔ کیس کے ہر ہر مرحلے پر ہائی کورٹ نے تفتیش کی خامیوں اور جانچ کے من گھڑت ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ تفتیش کاروں کی بدنیتی کی سب سےبڑی مثال ملزمین کے موبائل ڈیٹا ریکارڈ کو ضائع کرنے کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملزمین کے کال ڈیٹا ریکارڈ کو پولیس ہی بطور ثبوت عدالت میں پیش کرتی مگر اس کے برخلاف ملزمین اسے حاصل کرکے عدالت میں اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ’’آر ٹی آئی‘‘ کےتحت بھی سی ڈی آر تک ان کی رسائی نہیں ہونے دی گئی اور انہیں ضائع کردیاگیا۔ ہائی کورٹ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ سی ڈی آر کلیدی حیثیت رکھتے تھے جن سےیہ ثابت کیا جاسکتاتھا کہ جرم کے ارتکاب یا اس سے قبل سازش کی مبینہ میٹنگوں کے وقت ملزمین کہاں تھے۔ ہائی کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ نے اسے ’’ثبوت کو ضائع کرنا‘‘ تسلیم کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ ایسا جان بوجھ کر ہوا ہے جو حقائق کو چھپانے کےمترادف ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے نکات فیصلے میں موجود ہیں جو ملزم کے کٹہرے میں اب اے ٹی ایس افسران کو کھڑا کردیتے ہیں ۔
ہائی کورٹ کایہ فیصلہ بم دھماکوں میں ماخوذ کئے گئے افراد کے چٹان جیسے حوصلے کا بھی نتیجہ ہے۔ رہا ہونےوالے ملزمین نے اپنے اوپر مظالم کی جو لرزہ خیر روداد سنائی ہے اس میں ایک نکتہ مشترک ہے کہ ہر ایک پر وعدہ معاف گواہ بننے کا دباؤ ڈالاگیا۔ ڈاکٹر تنویر کے مطابق اے ٹی ایس نے انہیں بری طرح ٹارچر کرنے کے بعد وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش کی اور اس کیلئے ۲۵؍ لاکھ روپے اور ایک فلیٹ کا لالچ دیا۔ گوونڈی کے محمد علی نےبھی بتایا ہے کہ انہیں ۱۰؍ لاکھ روپے اور بیرون ملک ملازمت کی لالچ دی گئی۔ یو اے پی اے جیسے سخت قانون کےساتھ ہی اس مقدمے میں مکوکاکا بھی اطلاق کیاگیا تھا۔ اگر پولیس کسی ایک ملزم کو بھی وعدہ معاف گواہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی تو پھر بقیہ ملزمین کیلئے شاید اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے راستے مسدود ہوکر رہ جاتے۔
بہرحال اب جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ ٹرین بم دھماکوں کے کیس کو حل کرلینے کے نام پر چند افسران نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئےقانون کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اوران لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی کی ہے جنہوں نے دھماکوں میں اپنے چہیتوں کھو یا ہے، ایسے افسران کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اگرجھوٹے ثبوت گھڑنےوالے افسران کو کٹہرے میں کھڑا نہ کیاگیاتویہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتارہےگا۔ افسوس کہ اس کی امید بہت کم ہے۔