Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانو! تضیع اوقات پر آمادہ کرنے والے عناصر کا ادراک کامیابی کی ضمانت ہے

Updated: July 27, 2025, 2:18 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

بڑوں سے چھوٹوں تک جو جو ٹائم مینجمنٹ کے امتحان میں مسلسل فیل ہوتے رہتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹائم ٹیبل کی اہمیت کو جانتے ہیں مگر مانتے نہیں (جاننے اور ماننے میں ایک واضح فرق ہے)۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بے یقینی، ٹائم ٹیبل سے متعلق :
بڑوں سے چھوٹوں تک جو جو ٹائم مینجمنٹ کے امتحان میں مسلسل فیل ہوتے رہتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹائم ٹیبل کی اہمیت کو جانتے ہیں مگر مانتے نہیں (جاننے اور ماننے میں ایک واضح فرق ہے)۔ اب اس ضمن میں ہمارے طلبہ کے سوال (و جواب دیکھ لیجئے):(۱) کیا ٹائم ٹیبل بنانے سے پڑھائی وغیرہ پر فرق پڑتا ہے؟ (جواب) عجیب ہے کہ طلبہ یہ سوال کرتے ہیں جو یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے ایک تعلیمی سال کی حقیقت یہ ہے کہ ۳۶۵؍دِنوں میں صرف ۱۹۴؍دن پڑھائی ہوتی ہے یعنی صرف پونے سات مہینے؟ ان پونے سات مہینوں میں کم و بیش آٹھ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی تعلیمی و نیم تعلیمی سرگرمیاں جیسے اسپورٹس، گیدرنگ وغیرہ بھی عمل میں آتی ہیں۔ یہ صرف اسلئے ممکن ہوتا ہے کہ اسکول میں ایک ٹائم ٹیبل ہوتا ہے، یہ اُسی کا جادو ہے کہ اتنے کم عرصے میں اتنی ساری نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں خوش اسلوبی سے پوری ہوتی ہیں۔ (۲)ٹائم ٹیبل بنانے کیلئے ٹائم کہاں ہے؟ (جواب)یہ کہنے والا تو انتہادرجے کا کاہل، لاپروا اور غیر ذمہ دار ہوگا کہ وہ ٹائم ٹیبل بنانے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔ مزید یہ کہ کسی دن کا ٹائم ٹیبل مرتّب کرنے میں صرف ۵؍منٹ درکار ہوتے ہیں اور ان ۵؍ منٹ کی وجہ سے آپ تین گھنٹے، پانچ گھنٹے یکسوئی سے پڑھائی کرسکتے ہیں۔ (۳) کتنی ہی کوشش کروں ٹائم ٹیبل کا میاب ہی نہیں ہوتا۔ (جواب) ہم کچّی مٹّی کے بنے ہیں، اسلئےٹائم ٹیبل شاید ہی کسی کا پورا کامیاب ہوتا ہے۔ ٹائم ٹیبل پہلے ۵۰؍فیصدی کامیاب ہوگا مگر ٹائم ٹیبل بناتے رہئے۔ پھر ۶۰؍فیصد، ۷۰؍فیصد... امتحان کے دِنوں میں بھی آ پ کا ٹائم ٹیبل ۸۰؍ تا ۸۵؍فیصد سے زیادہ کامیاب نہیں ہوگامگر اتنے کامیاب ٹائم ٹیبل کا مالک ریاست بلکہ مُلک بھر کا ٹاپربھی ہو سکتا ہے۔ یقینی کامیابی کیلئے روزانہ کا ٹائم ٹیبل ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے۔ 
کھیل کھیلو، مگر جُوا ہر گز نہیں 
آج خصوصاً ایشیا میں وقت ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ کرکٹ بن گیا ہے۔ اس کھیل کو دیکھنے والے، سننے والے یا اس پربحث کرنے والوں میں سے ۹۵؍فیصد لوگوں کا دُور دُور تک اس کھیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا اُنھیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کرکٹ کی گیند کا وزن کتنا ہوتا ہے یا وِکٹ کی اونچائی کتنی ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر افراد (خصوصاً طلبہ) محض زندگی سے فرار حاصل کرنے کیلئے کرکٹ کے میچ دیکھتے ہیں، ایسے افراد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ پورا سال ٹورنامنٹ کیوں نہیں چلتے؟ ایسے لوگ آئرلینڈ اور اِسکاٹ لینڈ کی میچ دیکھنے کیلئے بھی دفتر سے جلدی لوٹتے ہیں اور ہندوستان کی کسی ہاری ہوئی میچ کو دن بھر ٹی وی پر پوری پوری دیکھنے کے بعد بھی رات میں ٹی وی پر اس کی جھلکیاں اِس اُمّید سے دیکھتے ہیں کہ شاید انڈیا جیت جائے۔ ویسے بھی آج کرکٹ کی نوعیت کھیل کی رہی نہیں۔ اب بد بختی سے یہ بڑی انڈسٹری اور میچ فکسنگ وغیرہ کی وجہ سے لگ بھگ ایک قسم کا جوا بھی بن گیاہے۔ اب کرکٹ کا کھیل جُوئے کی آماجگاہ بلکہ چراہ گاہ بن چکا ہے۔ اس میں کچھ کھلاڑی اس درجہ بدعنوانی، بے ایمانی اور ضمیر فروشی کا ثبوت دیتے ہیں کہ کبھی کوئی کھلاڑی اپنے شرٹ کا کالر اوپر کرکے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو اِشارہ دیتا ہے اور کبھی گیند کو پینٹ پررگڑ کر، کبھی گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر ایسی چھوڑی جاتی ہے کہ کیمرہ میں ثبوت مل جائے کہ آسان کیچ کو چھوڑ کر ’کام‘ پورا ہوگیا۔ کچھ کھلاڑی کیچ آئوٹ، رَن آئوٹ یا وِکٹ آئوٹ ہی نہیں بلکہ اپنے پورے مُلک کو ناٹ آئوٹ اور گیٹ آئوٹ کردیتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو کرکٹ اسلئے بھی بھاتا ہے کہ وہ کرکٹ کے کھلاڑی کو ملنے والے معاوضے، اُن کو ملنے والے اشتہارات، پبلسٹی وغیرہ سے کافی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ ان افراد کی اپنی کمنٹری بھی چلتی رہتی ہے اور اپنے ’قیمتی‘ مشوروں سے نوازنے میں بھی وہ مصروف رہتے ہیں۔ تین گھنٹے کے کسی میچ پر تین تین دن یا تین ہفتوں تک بھی تبصرہ ہوتے رہتا ہے۔ نوجوانو!آج اس ملک میں کرکٹ ایک ایسا نشہ بن گیا ہے کہ اس میں وقت صرف ضائع ہوا ہے، اور اس کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ 
’لوگ کیا کہیں گے‘:
مشرقی سماج کی ایک بڑی بیماری کا نام ہے ’لوگ کیا کہیں گے‘؟گھر کے بڑوں میں یہ بیماری رائج ہے اور ایک متعدی بیماری کی طرح سے یہ بچّوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ گھر کے سبھی بڑے بزرگ ہمہ وقت ’لوگ کیا کہیں گے‘؟ بیماری کا شکار ہیں۔ گھر خرید رہے ہیں، فرنیچر خرید رہے ہیں حتیٰ کہ جوتے خرید رہے ہیں تب بھی ’لوگ کیا کہیں گے‘؟ نامی ذہنی مرض ذہن پر طاری رہتاہے۔ بدقسمتی سے طلبہ اس بیماری کا بہت جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ کون سا کالج، کون سا کورس، کون سا کریئر ہر فیصلہ صرف یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟ کبھی کسی کریئر کے انتخاب میں غلطی ہوئی ہو تب بھی کورس یا فیکلٹی میں تبدیلی کرنے کے بجائے ’لوگ کیاکہیں گے‘؟ کا شکار ہوکر اُسی کورس میں وقت گزاری کرتے رہتے ہیں۔ دراصل وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ’لوگ کیا کہیں گے‘؟ نام کی بیماری تنظیم وقت کی ایک بڑی دشمن ہے اور وہ ہمارے یہاں اعصاب پر اس طرح سوار رہتی ہے کہ دن، مہینے، سال کب ضائع ہوتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہی نہیں وہ اپنی زندگی کی سمتوں کو دوسروں کے نکتہ نظر سے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ان میں استقامت کی بڑی کمی ہوتی ہے اور ’لوگ کیا کہیں گے‘؟ کا خیال اُنھیں کہیں کا نہیں رکھتا۔ 
مائناریٹی ہونے کا دُکھ:
کہیں ہو یا نہ ہو اِس ملک میں ہمارے نوجوانوں کے وقت کا ایک بڑا دشمن ہے :ان کے مائناریٹی میں ہونے کا احساس! فسادات، اُجڑتے لٹتے پٹتے گھر، لنچنگ، پولیس کی زیادتیاں، فرقہ پرستی کے زہر میں ڈوبے ٹیلی ویژن شو اور اُنھیں چلانے والے شرپسند، جانب دار اور ہمیشہ اشتعال انگیزی میں مصروف اُن کے اینکر ! یہ سب کچھ ہمارے نوجوانوں پربڑے پیمانے پر اور بُری طرح اثر انداز ہوتے رہتا ہے۔ اور پھر وہ ایک بے یقینی صورتِ حال کا شکار ہوکر اپنے مقصداور اپنے ہدف کو بھول جاتے ہیں اور اپنی زندگی کی سمت کو بھی۔ اور اس طرح ان کا قیمتی وقت اس دکھ میں مسلسل ضائع ہوتا رہتا ہے جس کا نام ہے مائناریٹی ہونے کا احساس!
ہمارے نوجوان جب تعلیم، روزگار، انصاف کے محاذ پر شکست کے احساس کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں تب وہ دراصل مایوسی ویاسیت کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے ہیں اور پھر ان کو وقت، گھڑی، تنظیم وقت وغیرہ کا کچھ خیال ہی نہیں رہتا۔ اس ضمن میں ہمارے نوجوانوں کو یاد یہ رکھنا ہے کہ کئی ملکوں میں مائناریٹی ہونا کامیابی کا باعث بنا ہے۔ مائناریٹی کے وہ افراد و سائل کی کمی کا شکار رہے البتہ کمی کے اس احساس نے ان کے عزائم کو پختہ کردیا۔ 
نوجوانو! اس ضمن میں آپ کومزید ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں کہ تعصّب نامی بیماری کا علاج صرف یہ ہے کہ کسی بھی ملک (بشمول بھارت) میں اگر اکثریتی فرقے کا ایک طالب علم روزانہ ۶؍گھنٹے اپنی پڑھائی، حصول علم و ہنر، شخصیت سازی و زندگی سازی میں صرف کرتا ہے تو ’’چونکہ ہم مائناریٹی میں ہیں ‘‘ اسلئے ہمیں اس ضمن میں روزانہ ۱۰؍گھنٹے گزارنے ہیں۔ جی ہاں ! ’’چونکہ ہم مائناریٹی میں ہیں ‘‘یہ خیال ہماری طاقت بننا چاہئے اور ہماری مثبت پیش قدمی کا باعث بھی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تعصب اور ’ہم مائناریٹی.....‘نام کی بیماریوں کو اعصاب پر سوار کرکے زندگی کی بازی جیتی نہیں جاسکتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK