Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں اپوزیشن پارٹیوں کی بے چینی، دراصل عوام کی بے چینی ہے

Updated: July 27, 2025, 2:36 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

انتخابی فہرست کی ’ جامع نظرثانی‘ کے فیصلے سے رائے دہندگان کے اس طبقہ کو، جو روایتی طور پر بی جے پی کیخلاف ہے، خدشہ ہے کہ اسے ووٹر لسٹ سے باہر نکال دیا جائے گا۔

Opposition parties are in full swing in protest. Photo: INN.
اپوزیشن کی جماعتیں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

جمہوریت کی خوبصورتی اس کی شفافیت، شراکت داری اور عوام کے اعتماد میں مضمر ہے۔ جب ان میں سے کسی ایک ستون پر ضرب لگتی ہے تو پورا نظام متزلزل ہونے لگتا ہے۔ آج بہار اسی طرح کی ایک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ریاست میں انتخابی فہرست کی جامع اور گہری نظرثانی (ایس آئی آر)کا اعلان، بظاہر ایک تکنیکی قدم ہے، مگر اس کا سیاسی اثر اتنا گہرا ہے کہ اس نے عوامی ذہن میں بے چینی، شکوک و شبہات اور اندیشوں کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ انتخابی فہرست کی نظرثانی کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے، یہ ہر چند سال بعد کیا جاتا ہے تاکہ ووٹرس لسٹ میں نئے ووٹروں کو شامل کیا جا سکے اور انتقال شدہ یا فرضی ووٹروں کے نام خارج کئے جا سکیں مگر جب یہ عمل مخصوص وقت پر، مخصوص ریاست میں اور مخصوص سیاسی فضا میں شروع کیا جائے تو پھر اس کے مقاصد پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ 
بہار میں فی الحال نہ تو کوئی نئی مردم شماری ہوئی ہے، نہ ہی الیکشن کا فوری شیڈول ہے۔ جو الیکشن ہے وہ نومبر میں ہونے والا ہے تو پھر اچانک ایسی جامع نظرثانی کا فیصلہ کیوں ؟ کیا یہ واقعی ایک غیر جانبدار انتظامی عمل ہے یا کسی خفیہ سیاسی اسکرپٹ کا پہلا سین ہے؟بہار میں اپوزیشن جماعتیں — بالخصوص راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی )، کانگریس، بایاں محاذ اور حالیہ دنوں میں جے ڈی یو کے کچھ اراکین نے اس اقدام پر کھل کر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ صرف ووٹر لسٹ کی نظرثانی نہیں بلکہ ووٹوں کی ’چھٹنی‘ کا منصوبہ ہے جس کا نشانہ وہ ووٹرس ہوں گے جو تاریخی طور پر بی جے پی کو پسند نہیں کرتے۔ اس میں اقلیتیں، دلت، پسماندہ ذاتیں، غریب دیہی طبقہ اور مہاجر مزدور شامل ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب ووٹر لسٹ کی ’صفائی‘ یا ’نظرثانی‘ کے نام پر مخصوص طبقات کو باہر نکالنے کی کوشش کی گئی ہو۔ آسام میں این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کے عمل کے دوران لاکھوں بنگلہ بولنے مسلمانوں اور یہاں تک کہ ہندوؤں کے نام لسٹ سے غائب ہو گئے تھے جن میں بڑی تعداد غریب، اَن پڑھ اور پسماندہ طبقے کی تھی۔ اسی طرح کرناٹک، مہاراشٹر اور اترپردیش میں بھی ایسی شکایات سامنے آئی ہیں کہ ووٹر لسٹ کی تطہیر دراصل ایک مخصوص سیاسی مفاد کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ بہار میں بھی وہی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ اپوزیشن کے ووٹرس کی تعداد کم کرنے کیلئے یہ مہم چلائی جارہی ہے کیوں کہ یہ ووٹرس روایتی طور پر بی جے پی مخالف ہیں اور کسی بھی قیمت پر بھگوا پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن اس مہم کو کئی شاندار نام اور القاب دے کر اس کی حیثیت قانونی قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ 
اس تناظر میں بہار کا حالیہ اقدام صرف ایک تکنیکی اعلان نہیں بلکہ ایک سیاسی اشارہ ہے جس کی گونج پورے ہندوستان میں سنائی دے رہی ہے۔ عوامی سطح پر سب سے زیادہ تشویش شناختی دستاویزات کو قبول نہ کرنے، پتے کی تصدیق، آدھار سے بلاوجہ جوڑنے اور ’موبائل نمبر ویری فکیشن‘ کے بہانوں سے پیدا ہو رہی ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں نہ تعلیم کی سہولت مکمل ہے، نہ ڈیجیٹل رسائی ہے، ایسے میں ووٹروں کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں انہیں غیر دانستہ طور پر ووٹرلسٹ سے نکال نہ دیا جائے۔ اب تک الیکشن کمیشن نے اس نظرثانی کی تفصیلات کو مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں رکھا ہے، نہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ کس معیار کی بنیاد پر نام حذف کئے جائیں گے، نہ ہی اس پر کوئی آزاد اور غیر جانبدار نگرانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جب عوام کو یہ اعتماد نہ دلایا جائے کہ ان کا حق رائے دہی محفوظ ہے تو جمہوریت محض ایک رسمی مشق بن کر رہ جاتی ہے۔ 
انتخابی نظام کی شفافیت وہ کڑی ہے جو پورے جمہوری تانے بانے کو جوڑتی ہے اور اگر اس میں دراڑ آئے تو پورا نظام بے معنی ہو جاتا ہے۔ انتخابی فہرستوں کو آدھار سے جوڑنے کے منصوبے پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آدھار میں لاکھوں لوگوں کی تفصیلات میں غلطیاں ہیں، کئی غریب اور مزدور طبقے کے لوگ جن کے پاس بایومیٹرک تفصیلات یا مستقل پتہ نہیں، ان کا ووٹر ہونا خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ آدھار اور ووٹر لسٹ کو جوڑنے کی قانونی حیثیت بھی مشتبہ ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق آدھار کو ووٹنگ کے لئے لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر زمینی سطح پر ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ بغیر آدھار کے نام ہی نہیں شامل کئے جائیں گے۔ اب اس میں بھی نئی پخ جوڑ دی گئی ہے کہ ووٹر کارڈ، آدھار یا دیگر کوئی شناختی کارڈ قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس پرسپریم کورٹ بھی تشویش ظاہر کرچکا ہے اور اس نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ ان شناختی کارڈس کو قبول کرنے کے بارے میں غور کرے ورنہ عام شہریوں کو بہت زیادہ پریشانیاں جھیلنی پڑیں گی۔ ملک کے بیشتربڑے میڈیا ادارے اس صریح دھاندلی کے خلاف خاموش ہیں یا پھر سرکاری بیانات کو بغیر تنقید کے شائع کر رہے ہیں۔ وہ سچائی دکھانے کی ہمت نہیں کررہے ہیں اور نہ دکھانا چاہتے ہیں۔ 
اس نظر ثانی مہم کی اصل خبریں یوٹیوب چینلز، فری لانس صحافیوں یا مقامی اخباروں سے آ رہی ہیں جو عوام کی آواز کو بغیر کسی دباؤ کے سامنے لا رہے ہیں۔ اس وقت قومی میڈیا کا کردار بھی کسوٹی پر ہے۔ اگر وہ جمہوری آوازوں کو دبنے دیتا ہے تو وہ خود بھی اپنی آزادی کا دشمن بن جائے گا۔ ووٹ کا حق صرف ایک کاغذی سہولت نہیں بلکہ یہ سماجی، سیاسی اور آئینی شناخت کا استعارہ ہے۔ اگر ایک شخص سے اس کا ووٹ چھین لیا جائے تو گویا اس کی شہریت، اس کی آواز اور اس کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ بہار آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ووٹر لسٹ کی ’نظرثانی‘ محض ایک انتخابی عمل نہیں بلکہ جمہوریت کے بنیادی نظریے کی آزمائش ہے۔ اگر اس عمل میں شفافیت، اعتماد اور بڑے پیمانے پرعوامی شرکت نہ ہو تو یہ صرف اپوزیشن کی نہیں، بلکہ جمہوریت کی شکست ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK