حامد کو کہانی پڑھنے اور کہانی سنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ دن بھر کہانیوں کی کتابیں پڑھتا رہتا۔ رات میں خواب بھی کہانیوں کے دیکھتا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ دریا کے کنارے اُسے ایک پُرانی صراحی مل گئی۔
EPAPER
Updated: August 09, 2025, 4:33 PM IST | Mumbai
حامد کو کہانی پڑھنے اور کہانی سنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ دن بھر کہانیوں کی کتابیں پڑھتا رہتا۔ رات میں خواب بھی کہانیوں کے دیکھتا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ دریا کے کنارے اُسے ایک پُرانی صراحی مل گئی۔
حامد کو کہانی پڑھنے اور کہانی سنانے کا بہت شوق تھا۔ وہ دن بھر کہانیوں کی کتابیں پڑھتا رہتا۔ رات میں خواب بھی کہانیوں کے دیکھتا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ دریا کے کنارے اُسے ایک پُرانی صراحی مل گئی۔ اس نے صراحی کا ڈاٹ کھولا تو اس میں سے ایک جن انگڑائی لیتا ہوا نکلا۔ جن دُبلا پتلا تھا۔ اس کی داڑھی پیٹ تک لہرا رہی تھی۔ سَر پر خوبصورت پگڑی باندھے، ریشمی شلوار اور پیرہن پہنے جن حامد کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ادب سے جھک کر حامد کو سلام کیا پھر گرجدار آواز میں بولا:
’’میرے آقا! مَیں نے قسم کھائی تھی کہ جو مجھے آزاد کرے گا اس کی غلامی کروں گا۔ کہئے میرے لئے کیا حکم ہے؟‘‘
حامد کچھ دیر تک اُسے حیرت سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا، ’’تم میرے قریب رہا کرو۔ جب ضرورت ہوگی، مَیں تم سے کام لوں گا۔‘‘
حامد کا خواب جاری رہا۔ دوسرے دن وہ مدرسے گیا تو جن بھی اس کے ساتھ تھا لیکن حامد کے سوا کوئی اور اُسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ عجیب بات تو اس وقت ہوئی جب استاد نے حامد سے پوچھا، ’’دُنیا کے گول ہونے کے ثبوت بیان کرو۔‘‘
’’جناب! دُنیا گول نہیں چپٹی ہے۔‘‘ حامد کے منہ سے نکلا۔
سب حیران تھے کہ یہ حامد کو کیا ہوگیا ہے! استاد نے ناراض ہو کر حامد کو جماعت سے باہر جانے کو کہا۔ دراصل حامد کے منہ سے جن بول رہا تھا۔ باہر باغ میں حامد نے جن کو ڈانٹ کر کہا، ’’تم ابھی ہزار سال پیچھے ہو۔ ذرا خاموش رہا کرو۔‘‘
’’جو حکم میرے آقا! پہلے تو دُنیا چپٹی تھی۔ خیر!‘‘ جن نے کہا۔
پھر اسی خواب میں حامد نے دیکھا کہ وہ فٹ بال میچ دیکھ رہا ہے۔ جن بھی ساتھ ہے۔ جن نے دیکھا کہ ایک فٹ بال کے پیچھے اتنے سارے لوگ دوڑ رہے ہیں۔ اُسے یہ بات پسند نہیں آئی۔ بس پھر کیا تھا، آسمان سے فٹ بالوں کی بارش ہونے لگی۔ جتنے کھلاڑی اُتنے فٹ بال۔ کھیل رُک گیا۔ حامد سمجھ گیا کہ یہ جن کی شرارت ہے۔ اس نے جن کو سمجھایا کہ یہ کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے اور اُسے تاکید کی کہ اب کوئی شرارت نہ کرنا۔
کھیل دوبارہ شروع ہوا۔ ایک ٹیم بہت کمزور تھی۔ اس کے کھلاڑی ایک بھی گول نہ کر پائے تھے۔ جن سے یہ دیکھا نہ گیا۔ پھر جو کچھ ہوا حامد اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ کمزور ٹیم کے کھلاڑی جب بال کو پیر سے مارتے تو بال نہایت تیزی سے نکلتا، میدان کے باہر اُڑاتے تو اس کا رُخ بدل جاتا اور ہر بار مخالف ٹیم کے گول میں جا گرتا۔ اتنا ہی نہیں ایک بار جب بال گول کے اوپر سے جا رہا تھا تو گول کے پائپ اوپر اُٹھ گئے اور گول ہوگیا۔ یہ دیکھ کر میدان میں ایک کہرام مچ گیا۔ حامد نے یہی بہتر سمجھا کہ وہاں سے بھاگ نکلے، ورنہ نہ معلوم جن اور کیا کیا کرے۔
حامد نے خواب میں ایک اور منظر دیکھا کہ وہ بینک میں اسکول کی فیس بھرنے گیا ہے۔ بینک میں کافی بھیڑ تھی۔ اچانک بینک میں ہلچل مچ گئی۔ بینک سے پیسے غائب ہونے لگے تھے۔ حامد پریشان ہوگیا۔ ’’اوہ! یہ جن اپنی حرکت سے باز نہیں آئے گا۔‘‘ بینک کے ایک کونے میں جا کر اس نے جن کو ڈانٹا، ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ تو چوری ہے۔‘‘ جن نے حامد کے کان میں کہا، ’’میرے آقا! مَیں نے تمہارے ملک میں ایسے بہت سے بچے دیکھے جو غریب ہیں اور اسکول نہیں جاتے۔ میں انہیں یہ پیسے دوں گا تاکہ وہ بھی تمہاری طرح لکھ پڑھ سکیں۔‘‘
حامد نے کہا، ’’دیکھو جن دوست! تم بڑے نیک ہو، لیکن یہ بینک ہے کسی بادشاہ کا خزانہ نہیں کہ جسے جتنا چاہا دے دیا۔ اچھا اب مَیں تمہیں پہلا اور آخری حکم دیتا ہوں کہ جہاں سے جتنے پیسے غائب ہوئے ہیں وہاں اتنے پیسے رکھ دو۔‘‘
’’جو حکم میرے آقا!‘‘ جن نے کہا۔ تھوڑی دیر میں بینک میں سکون ہوگیا۔
جن نے حامد سے پوچھا، ’’آقا! آپ نے یہ کیوں کہا کہ یہ آخری حکم ہے؟‘‘
’’آخری حکم اِس لئے کہ تم جس زمانے کے جن ہو اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب جو محنت کرتا ہے وہ کھاتا ہے۔ عزت سے رہنے کے لئے محنت اور علم ضروری ہے۔ مَیں تمہیں آزاد کرتا ہوں۔ ہاں کبھی کبھی دِل بہلانے آجایا کرنا۔ خدا حافظ!‘‘
’’شکریہ! زندہ باد میرے آقا.... حامد صاحب!‘‘ یہ کہہ کر جن اتنے زور سے قہقہہ لگا کر غائب ہوا کہ اسکے شور سے حامد کی آنکھ کھل گئی۔
(درسی کتاب سے ماخوذ)